"FBC" (space) message & send to 7575

کہانی ایک ہی ہے!

یہ تکبر سے اکڑی ہوئی گردنیں‘ زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلنے کی عادت‘ اپنے سے کمزروں پر دھونس جمانے کا چلن‘ ہر وقت طاقت کے بے جا اظہار کے نت نئے طریقے‘ یہ سب کچھ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان فراموش کر دیا جاتا ہے کہ ''زمین پر اکڑ کر مت چلو کہ نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ بلندی میں پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو (مفہوم)۔ جہاں ہم نے بے شمار دوسری تعلیمات کو فراموش کر رکھا ہے وہاں ایسی باتوں کی پروا کون کرتا ہے؟ اسی لیے تو ہر روز طاقت کے بے شمار مظاہر نظروں سے گزرتے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات کہ دیکھ کر روح تھرتھرانے لگے۔ جس کے ہاتھ میں طاقت آگئی گویا اُسے اپنے سے کمزوروں پر دھونس جمانے کا حق حاصل ہوگیا۔ اُسے یہ حق میسر کیوں نہ ہوکہ ہمارے معاشرے میں 72 سالوں سے یہی سب کچھ تو ہورہا ہے۔ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے تو بس پھر بھینس بھی میری ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد کی رخصتی کے بعد ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر اسکندر مرزا فائز ہوئے تو ہر حکمران کی طرح دل میں یہی خواہش تھی کہ مرتے دم تک اقتدار اُن کے گھر کی باندی بنا رہے۔ مضبوطیٔ اقتدار کے لیے صرف تین سالوں کے دوران پانچ وزرائے اعظم کو گھر کا راستہ دکھایا گیا۔ آخری وزیراعظم چودھری محمد علی بوگرہ جاتے جاتے ملک کو 1956ء کا آئین دے گئے جس کے تحت اسکندر مرزا ملک کے پہلے صدر بن گئے۔ اِدھر ملک کو آئین نصیب ہوا اور اُدھر انتخابات سر پر آ گئے۔ اپنی پوزیشن دیکھتے ہوئے اسکندرمرزا کے ذہن میں یہ سوچ سمائی کہ اگر اپنے دوست جنرل ایوب خان کو شریکِ اقتدار کر لیں تو تادیر اقتدار میں رہنے کی ان کی خواہش پوری ہوسکتی ہے اور پھر ایسا کیا بھی گیا۔ تمام داؤ پیچ آزمانے کے بعد بھی بالآخر 7 اکتوبر 1958ء کا وہ دن آگیا جب آئین منسوخ کرکے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ مضبوطیٔ اقتدار کے لیے ہر حربہ آزمانے والے اسکندر مرزا بعد ازاں استعفیٰ لینے والوں کے سامنے بھیگی بلی بنے کھڑے تھے۔ تمام ہیکڑی نکل چکی تھی اور اِسی عالم میں موصوف کبھی واپس نہ آنے کے لیے بیرونِ ملک بھجوا دیے گئے۔ کہاں تو اتنی طاقت کہ پانچ پانچ وزرائے اعظم کو گھر بھجوا دیا اور کہاں یہ عالم کہ اپنا وطن ہی چھوڑنا پڑ گیا۔
اسکندر مرزا کی جگہ سنبھالنے والے اپنی کتاب ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں لکھتے ہیں ''میں نے سوچا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے نازک موڑ پہنچ گئے ہیں جہاں یہ انتہائی قدم اُٹھانا پڑرہا ہے، لیکن دوسرا کوئی چارۂ کار بھی نہیں تھا کیونکہ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی‘‘۔ ملک بچانے کی اِس آخری کوشش کے طورپر ٹائپ رائٹر پر لکھا ہوا ایک فیصلہ سائیکلوسٹائل کرکے اخبارات کے دفاتر میں بھیج دیا گیا اور ملک میں پہلے مارشل لا نے اپنے پنجے گاڑ لیے۔
ملک بچانے کے لیے آنے والی شخصیت نے ملک بچانے کا راگ الاپتے ہوئے ہر وہ پینترا آزمایا جو اِن کے اقتدارکو طوالت بخش سکتا تھا‘ لیکن ہونی تو ہوکر رہتی ہے۔ 1962ء کے انتخابات میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے باعث عوام میں حکومت کے خلاف بیزاری پیدا ہونے لگی‘ جس میں 1965ء کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدے سے تیزی آ گئی اور ایوب خان کے لاڈلے نوجوان‘ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے محسن کی پالیسیوں پر شدید تنقید کا سلسلہ شروع کردیا۔ گویا جو کچھ اسکندر مرزا کے ساتھ ہوا تھا‘ وہی کچھ ایوب خان کے ساتھ ہونے جارہا تھا۔ ایوب خان نے ہاتھ پاؤں تو بہت مارے لیکن جانے کا وقت آچکا تھا۔ پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ کے ساتھ گول میز کانفرنس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ 1969ء میں ایوب خان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ صاحبِ فراش ہو گئے۔ ہمت پھر بھی نہیں ہاری کہ بیمار ہونے کے باوجود ویل چیئر پر تشریف لاتے تھے۔ جب دیکھاکہ تمام حربے ناکام ثابت ہورہے ہیں تو پھر چاروناچار 25 مارچ 1969ء کو عہدے سے استعفیٰ دے کر گھر جاتے ہی بنی۔ جاتے جاتے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر گئے۔ 
ملک کے قیام کے فوراً بعد محلاتی سازشوں کی ان مثالوں کو تو پھر جیسے روایت ہی بنا لیا گیا ہو‘ جب بھی جس طاقتور نے چاہا‘ سب کچھ پاؤں تلے روند دیا۔ ایوب خان کے بعد بھٹو صاحب ملک کے وزیراعظم بنے تو اُنہوں نے بھی جانے والوں کا چلن ہی اختیار کیا۔ مجال ہے جو رتی برابر سبق حاصل کیا ہوکہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ ''صرف میں‘‘ کے چکر میں اظہارِ طاقت کے درجنوں مظاہر سامنے آئے۔ مضبوطیٔ اقتدار کی خاطر وہی غلطی کی جو اسکندر مرزا کر چکے تھے۔ متعدد جنرلز کو سپرسیڈ کرتے ہوئے جنرل ضیاالحق کو آرمی چیف بنایا۔ بالکل اسکندر مرزا کی طرح‘ یہی خواہش تھی کہ جب طاقتور میرے ساتھ ہوں گے تو پھر کسی کی کیا مجال کے مجھے اقتدار سے محروم کر سکے۔ بھٹو صاحب کے تو وہم و گمان بھی نہ ہوگا کہ جو شخص اُنہیں دیکھ کر جلتا ہوا سگریٹ اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لیتا ہے مبادا اُسے سگریٹ پیتے دیکھ کر بھٹو صاحب مائنڈ کر جائیں‘ وہی اُنہیں گھر کا راستہ دکھائے گا۔ پھر 5 جولائی 1977ء کی وہ شام آگئی جب وقت کے وزیراعظم کو عین اُس وقت معزول کیا گیا جب اُس کا اپوزیشن کے ساتھ معاہدہ تقریباً ہو چکا تھا۔ نوے دنوں کے اندر اندر انتخابات کرانے کے وعدے کے ساتھ ملک میں ایک اور مارشل لا نافذ ہو گیا۔ پھر یہاں اُس سے بھی زیادہ خوفناک ہوا جو کچھ اسکندرمرزا کے ساتھ ہو چکا تھا۔کہانی وہی تھی‘ البتہ کردار تبدیل ہو چکے تھے۔ اسکندر مرزا کی کم از کم جان بخشی ہوگئی تھی لیکن یہاں نہ صرف اقتدار سے محرومی کا صدمہ جھیلنا پڑا بلکہ تختہ دار پر بھی لٹکنا پڑا۔ وہ جو کہا کرتے تھے کہ میری موت پر ہمالیہ بھی روئے گا‘ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ہمالیہ چپ چاپ اپنی جگہ پر کھڑا دیکھتا رہا۔ مضبوطیٔ اقتدار کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا‘ کس کس کی حق تلفی نہیں کی تھی۔ تحفظِ اقتدار کیلئے بنائی جانے والی فیڈرل سکیورٹی فورس بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ بیرونی دوستوں کی مداخلت بھی کسی کام نہ آئی۔ معاملہ عدالتوں سے ہوتا ہوا تختہ دار تک پہنچا اور ملکی تاریخ کا ایک اور باب بند ہوا۔
جو آئے تھے اُنہوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ نوے روز کے اندر اندر ملک میں انتخابات کرا دیے جائیں گے تاکہ عوام کو اپنے حقیقی نمائندے چننے کا موقع مل سکے۔ جانے والوں نے کبھی سوچا تھا کہ اُنہیں کبھی محرومیٔ اقتدار کا صدمہ سہنا پڑے گا‘ نہ آنے والے یہ سوچنے کے لیے تیار تھے۔ ایک کے بعد ایک حربہ آزماتے ہوئے کم از کم اِس حد تک ضرور کامیابی حاصل کرلی کہ اپنی وفات تک اقتدار سے چمٹے رہے۔ اس دوران ملکی آئین چوں چوں کا مربہ بنا رہا، غیروں کی جنگ اپنے ملک پر مسلط کی گئی، اختلافِ رائے رکھنے والوں کو ٹکٹکی پر چڑھایا گیا اور وہ سب کچھ کیا گیا جس سے اقتدار کو گھر کی باندی بنایا جا سکے۔ یہ سوچنے کی فرصت کسے تھی کہ اِن سب اقدامات کا نتیجہ ملک و قوم کے لیے کیا نکلے گا؟ اجل کا پیغام آیا تو ملک قسم قسم کے مسائل میں گھر چکا تھا۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ آج بھی ملک کے بیشتر مسائل اُسی دور کے پیدا کردہ ہیں۔ یہ صاحب گئے تو اقتدار دو جماعتوں کے مابین میوزیکل چیئر کا کھیل بن گیا۔ کبھی بے نظیر تو کبھی نواز شریف۔ صبر کا پیمانہ چھلکا تو ایک مرتبہ پھر ''میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کی آواز گونجی اور پرویز مشرف مسندِ اقتدار پر آن بیٹھے۔ مجال ہے جو کسی نے بھی جانے والوں کی داستانوں سے سبق سیکھا ہو۔ وہی حربے‘ وہی طور طریقے اور وہی اظہارِ طاقت کے جابجا مظاہر۔ بالآخر اِن کا اقتدار بھی قصہ پارینہ بنا‘ جو کراچی میں قتل عام پر مکے لہراتے ہوئے کہتے تھے کہ یہ عوام کی طاقت کا مظاہرہ ہے‘ وہ آج بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر میری طاقت ختم کیسے ہو گئی؟ وجوہات چاہے کچھ بھی رہی ہوں لیکن تین‘ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے آج اپنے وطن آنے سے بھی قاصر ہیں۔ وہ آج تک یہی سوچ رہے ہیں کہ اِنہیں کیوں نکالا۔ جو آج اقتدار میں ہیں‘ اِن کی طرف سے بھی میں‘ میں اور میں کی وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے جو جانے والے دہراتے رہے۔ کل کو یہ بھی یہی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے رخصت ہو گئے، گویا کہانی ایک ہی ہے‘ صرف کردار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں