"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی منطق‘ کوئی جواز؟

عجیب رنگ ڈھنگ ہیں، عجیب معاملات اور اس سے بھی عجیب صورتحال‘ کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ، سوائے اس کے کہ کل جو کچھ درست تھا‘ آج غلط ہے اور جو کل غلط تھا‘ آج درست ہے۔ بس بیانات ہیں اور گفتار کے بے جا مظاہر‘ جن کی کوئی منطق سمجھ میں آرہی ہے نہ کوئی جواز پلے پڑرہا ہے۔ دیوار کے ساتھ لگا دیے جانے کے بعد باہر نکلنا اپوزیشن کی تو مجبوری بن چکی تھی لیکن حکومتی اُٹھک بیٹھک پلے نہیں پڑ رہی۔ موجودہ حکومت کے بیانات سے اب تک یہی اخذ کیا گیا ہے کہ 2018ء سے پہلے والی حکومت غیر ملکی ایجنڈے پر عمل پیرا تھی۔ حکومت جو بھی اقدامات کر رہی تھی وہ غیر ملکی اشارے پر کیے تھے۔ اگر کہیں پر کوئی ترقیاتی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا تو اِس کے پیچھے بھی کسی نہ کسی نامعلوم غیر ملکی طاقت کا ہاتھ ہوتا تھا۔ اب 2018ء کے بعد سے اپوزیشن غیر ملکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ وہ اگر جلوس نکال رہی ہے یا جلسے منعقد کر رہی ہے تو اِس کے پیچھے ملک دشمنوں قوتوں کا ہاتھ ہے۔ اِن غیر ملکی طاقتوں کی بابت کھل کر پہلے کچھ بتایا گیا نہ اب کسی مصلحت کے تحت کھل کر کسی قوت کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ بس ایک گردان ہے جسے گانی والے طوطے کی طرح موقع بے موقع دہرایا جا رہا ہے۔ 2018ء سے پہلے دیے جانے والے دھرنے ملک و قوم کی بہتری اور ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کے لیے دیے جاتے تھے‘ تب اِن سے شہریوں کو کوئی مشکل پیش آتی تھی نہ ملکی معیشت پر اِن کے مضر اثرات مرتب ہوتے تھے۔ تب اوئے توئے کے متعارف کرائے جانے والے کلچر کا مقصد بھی عوام کی اخلاقیات میں بہتری لانا تھا۔ اُن دھرنوں کے عوام کی صحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے‘ ملکی معیشت میں بہتری آئی اور بالآخر ملک میں حقیقی جمہوریت بھی آ گئی۔ تاہم موجودہ جلسوں اور دھرنوں سے ملکی معیشت اور عوامی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں2020ء کی اپوزیشن غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ایک سازش کے تحت عوام کی صحت سے کھیل رہی ہے جسے اِس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اِس تمام صورت حال کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ایک فرق اور بھی ہے کہ گزرے وقتوں میں یہ تاثر عام تھا کہ اپوزیشن کی پشت پر کوئی طاقتور ہاتھ ہے، اِس لیے سب ٹھیک تھا۔ اب کے ایک مرتبہ پھر یہ گمان غالب ہے کہ اِس وقت وہی طاقتور ہاتھ حکومت کی پشت پر ہیں اِس لیے اب اپوزیشن جو کر رہی ہے وہ سراسر غلط ہے۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں وزیراعظم صاحب نے واضح کیا ہے کہ حکومت ڈائیلاگ سے کبھی پیچھے نہیں ہٹی لیکن اِس کے لیے پارلیمنٹ بہترین جگہ ہے۔ اپوزیشن کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آئیں تو وہاں حکومت ان کے تمام سوالات کے جوابات دینے کے لیے تیار ہے۔ کیا کوئی جانتا ہے کہ ایسی ہی ایک دعوت 2014ء میں بھی دی گئی تھی جسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا تھا کیونکہ تب امپائر کی انگلی اُٹھنے ہی والی تھی۔ حکومت نے لاکھ دہائیاں دیں کہ دھرنا ختم کرکے بات چیت کا راستہ اپنایا جائے لیکن کوا سفید ہی رہا۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم گفت و شنید کی اہمیت کو تب ہی کیوں سمجھتے ہیں جب پانی ہمارے سر سے گزرنا شروع ہو جاتا ہے۔ کم از کم ہماری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آ رہی کہ اِس سطح پر پہنچ کر اپوزیشن کیونکر حکومت کی یہ دعوت قبول کرے گی۔ ایک آدھ ماہ پہلے تک حالات اِس مقصد کے لیے پھر بھی کچھ موافق تھے‘ جب کچھ حکومتی اور اپوزیشن شخصیات نے نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا۔ شاید اونٹ کسی کروٹ بیٹھ ہی جاتا لیکن تب اس وقت کے وزیر ریلوے نے شدومد سے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ عنقریب ن سے ش برآمد ہو رہی ہے۔ اُن کی طرف سے تسلسل کے ساتھ یہ دعوے بھی سامنے آتے رہے جیسے مسلم لیگ ن اب قصہ پارینہ بننے والی ہے۔ اِسی دوران انسدادِ بدعنوانی کا ادارہ حرکت میں آیا، اپوزیشن کے متعدد اراکین اسمبلی اُس کے ریڈار پر آئے اور گفت وشنید کا معاملہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ اِس حوالے سے حکومت کی غیرسنجیدگی کی سب سے بڑی مثال شہباز شریف کی گرفتاری ہے‘ جنہیں مفاہمت کی سیاست کا علمبردار قرار دیا جاتا ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری نے بات چیت کے رہے سہے امکانات کو بھی ختم کر دیا۔ اِس تمام عرصے کے دوران پی ڈی ایم کی تحریک میں تیزی آئی اور اب معاملات خاصی حد تک پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جا پہنچے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں سے جادو کی کوئی چھڑی گھومے اور فریقین میز پر بیٹھ جائیں لیکن بظاہر اِس کے امکانات بھی انتہائی محدود ہیں۔ اپوزیشن نے یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ اُس کی تحریک کو عوام میں پذیرائی حاصل ہو چکی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے اِس تحریک کو دبانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کہا کرتے تھے کہ اپوزیشن جلسے کرے تو وہ اُسے کنٹینرز فراہم کریں گے۔ جس روز ڈپٹی کمشنر لاہور نے مینارِ پاکستان پر جلسے کرنے کی درخواست مسترد کی تھی، اُسی روز وزیر اطلاعات شبلی فراز صاحب نے پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا تھا کہ حکومت کسی کو جلسہ کرنے سے نہیں روکے گی۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی طرف سے کہا گیا کہ حکومت اِس جلسے کو روکے گی تو نہیں البتہ قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ مطلب پہلے اطمینان سے اِس جلسے کا مشاہدہ کیا جائے گا اور بعد میں کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ عملاً اِن سب دعووں کے بالکل برعکس ہو رہا ہے۔ جب جلسے میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا اعلان کر دیا گیا ہے تو پھر یہ پکڑ دھکڑ کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ اگر پکڑ دھکڑ ہی کرنا تھی تو پھر یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ جلسے میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ میری نظر میں حکومت نے جو غلطی ملتان میں کی تھی‘ وہی غلطی لاہور میں بھی دہرائی جا رہی ہے۔ 
ملتان میں بھی ایک دن کا جلسہ حکومتی کارروائیوںکے نتیجے میں چار دنوں تک وسیع ہو گیا تھا۔ لاہور کے جلسے کے حوالے سے بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ تمام وزیر اور مشیر صبح سے شام تک یہی راگ الاپتے ہیں کہ حکومت کو جلسے جلوسوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے مگر دوسری طرف پکڑ دھکڑ کا سلسلہ ہے کہ رکنے میں نہیں آ رہا حتیٰ کہ جلسوں میں ساؤنڈ سسٹم فراہم کرنے والے ڈی جے بٹ کو قبل از وقت گرفتار کر لیا گیا۔ یہ وہی ڈی جے بٹ ہیں‘ جو پی ٹی آئی کے دھرنوں میں ساؤنڈ سسٹم فراہم کرتے رہے ہیں۔ اِن کی گرفتاری بھی عجیب تماشا بنی رہی۔ اس گرفتاری کی بابت متعلقہ تھانے کی پولیس لاعلم تھی‘ بعد میں جب عدالت نے ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی تو گرفتاری کے احکامات دینے والے شرمندہ شرمندہ دکھائی دیے۔ لے دے کے حکومت کا یہی بیانیہ سامنے آ رہا ہے کہ جلسے کرنے والے عوام دشمن ہیں بلکہ یہ بھی کہا جا چکا ہے کہ اپوزیشن یہ سب کچھ غیرملکی اشاروں پر کر رہی ہے۔
اب یہ فیصلہ بھی ہو ہی جانا چاہیے کہ کون وطن دشمن ہے اور کون محب وطن۔ یہ جو ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف ملک دشمنی کی رٹ لگائی جاتی ہے‘ اِس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ معلوم نہیں وہ کون سا پیمانہ ہے جس سے کسی کی حب الوطنی یا ملک دشمنی کو ماپا جاتا ہے۔ یہ ایسا عجیب کھیل ہے کہ ایک وقت میں ملک دشمن ٹھہرائے جانے والے بعد ازاں مسندِ اقتدار پر براجمان نظر آتے ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر ملک دشمنی کے الزامات کا طومار بندھا ہوا ہے۔ فلاں سے ملک کو خطرہ ہے‘ فلاں غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر ناچ رہا ہے، فلاں ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اگر اتنی معلومات ہیں تو کھل کر بتا دیجئے کہ کون کون‘ کس کس طاقت کے اشارے پر ناچ رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب اس بیانیے میں کوئی دم نظر نہیں آتا۔ آج کے دور میں تو راہ چلتے شخص کے پاس کھڑے ہو جائیں تو وہ چند منٹوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتا ہے۔ سبھی کو سمجھنا چاہیے کہ اپنے اپنے دائرہ کار سے باہر نکلنے کا مطلب مشکلات کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ صورتحال میں بہتری کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے کہ آئین نے جس کی جو حدود و قیود متعین کی ہیں‘ وہ اُسی کے اندر رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں