"FBC" (space) message & send to 7575

یہ ہے مودی کی حکومت

کچھ ایسے ہی حالات ہیں بھارت کے‘ بے چینی ہے، کورونا ہے، مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، وعدے پورے نہ کرنے پر عوام سخت ناراض ہیں، اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اقلیتوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے، شہریت کا متنازع قانون متعارف کرائے جانے کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا، بظاہر تو یہی بتایا گیا تھا کہ اِس کا مقصد ہمسایہ ممالک سے نقل مکانی کرکے بھارت آنے والی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ بھارتی حکومت کے عزائم ظاہر ہوئے تو ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی کہ اصل مقصد ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو مزید دبانا ہے۔ مسلمانوں نے جان لیا کہ شہریت کے قانون کا بڑا مقصد اُن کی بڑی تعداد کو بھارتی شہریت سے محروم رکھنا ہے۔ اِس کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو مسلمانوں کو بیرونی ایجنٹ قرار دے کر گولی تک ماردینے کی باتیں سامنے آتی رہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے ملک گیر احتجاج ہوا لیکن جب مقصد ووٹوں کے لیے ہرقیمت پر اکثریت کو خوش کرنا ٹھہرے تو پھر ٹس سے مس ہونے کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے؟ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ اقلیت پر اکثریت کے مظالم بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ '' لَوْ جہاد‘‘ کا متنازع قانون بھی لاگو ہو چکا ہے اس کے مطابق اگر شادی کے لیے کسی ہندولڑکی کو اسلام قبول کرایا جائے گا تو ایسا کرنے والے مسلمان کو سلاخوں کے پیچھے جانا ہوگا ۔ بدقسمتی سے اِس قانون کے تحت کچھ گرفتاریاں ہوبھی چکی ہیں تاکہ کسی طرح اکثریت خوش ہوجائے اور آئندہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر بھاری اکثریت سے مسندِ اقتدار تک پہنچا جاسکے۔ جب حصولِ اقتدار ہی مطمح نظر ٹھہرے تو عقل ودانش پرائی ہوجاتی ہیں۔ جب طاقت کا نشہ سر چڑھ جائے تو پھر کیا پڑی ہے کہ دوررس نتائج پر نظر رکھی جائے۔ آج اِنہی حالات کے باعث بھارت خود کو کئی حصوں میں تقسیم ہوتا دیکھ رہا ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود کو کئی گروپوں میں تقسیم پاتا ہے ۔
بھارتی حکومت کے دعوے وہی ہیں جو کسی بھی حکومت کے ہوتے ہیں‘ یا ہونے چاہئیں۔ پہلا دعویٰ یہ کہ حالات پوری طرح قابو میں ہیں اور بی جے پی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرا دعویٰ یہ سامنے آتا ہے کہ ملک میں بے چینی پھیلانے والے عناصر ملک دشمن قوتوں کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ تیسرا دعویٰ یہ کہ مودی حکومت آنے کے بعد ہرشعبے میں تاریخ ساز ترقی ہوئی ہے۔ اِسی تاریخ ساز ترقی کا ایک مظاہرہ آج کل وہاں جاری کسانوں کی بڑی تحریک کی صورت میں بھی نظرآرہا ہے۔ ابھی متنازع شہریت قانون کے آفٹر شاکس بھی جاری ہیں کہ کسانوں کی ملک گیر تحریک نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح اکثریت کو خوش کیا گیا، اُسی طرح سرمایہ داروں کی خوشی کا سامان بھی ہوجائے تو بھاری مالیت کے پارٹی فنڈز حاصل ہوسکیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں 70فیصد کسان چار سے چھ ایکڑ تک زمین کے مالک ہیں۔ اُن کی جو بھی تھوڑی بہت پیداوار ہوتی ہے‘ اُسے وہ 7ہزار کے قریب منڈیوں میں لے جا کر اپنی پسند کی قیمت پر فروخت کر دیتے تھے۔ اب یوں ہوا کہ کسانوں کی ''بہتری‘‘ کے لیے مودی حکومت نے بیک جنبش قلم ایک ایکٹ منظور کر کے یہ منڈیاں ختم کردی ہیں۔ اب سرمایہ دار خود کسانوں کے پاس جاکر اُن کی فصل خریدا کریں گے۔ کسانوں کو خدشہ یہ لاحق ہے کہ منڈیاں ختم ہونے سے وہ سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔ وہ اپنی فصل اِن سرمایہ داروں کو اُن کی پسند کی قیمت پر فروخت کرنے کیلئے مجبور ہوں گے‘ دوسری صورت میں اُن کی فصل ضائع ہوجائے گی۔ اِس خدشے کو لے کر پورے بھارت میں کسان تحریک زوروشورسے جاری ہے لیکن مشرقی پنجاب کے کسان اِس میں بہت سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ دہلی میں دھرنا دینے والوں میں بھی زیادہ تعداد سکھ کسانوں کی نظرآرہی ہے۔ دہلی کی کڑاکے کی سردی میں یہ کسان دن رات دھرنا دیے بیٹھے ہوئے ہیں لیکن مودی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔
بھارت میںجاری کسانوںکی یہ تحریک پوری طرح سے صرف کسانوں کی ہی تحریک ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ قانون کسانوں کی فلاح وبہبود کیلئے بنایا گیا ہے تو پرانے قوانین کے نتائج کہاں ہیں؟مثلاً کسانوں کیلئے سبسڈی پالیسی، کھاد پالیسی یا پھر قرضہ پالیسی وغیرہ۔ اِن سوالات کا تو حکومت کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا البتہ کسان تحریک میں اُسے پاکستان اور چین کا ہاتھ ضرور نظرآگیا۔ سب سے پہلے یہ ہاتھ بھارتی حکومت کے اُمورِ صارفین اور خوراک کے نائب وزیر راؤصاحب دانوے کو دکھائی دیا ۔ موصوف کی طرف سے بہت زوروشور سے یہ گردان جاری ہے کہ بھارت میں جو کچھ بھی برا ہورہا ہے‘ وہ پاکستان کرا رہا ہے۔ موصوف کا خیال ہے کہ پہلے مسلمانوں کو حکومت کے خلاف بھڑکایا گیا کہ شہریت کے قانون کے نتیجے میں اُنہیں ملک چھوڑنا پڑے گا اور اب کسانوں کو ہلا شیری دی جارہی ہے، ہو نہ ہو یہ پاکستان کی سازش ہے۔ ہریانہ کے وزیرزراعت جے پی دلال بھی یہ دور کی کوڑی لاچکے ہیں کہ کسان تحریک کو ہمسایہ ممالک ہوا دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ایسے بیانات کو وہاں بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہندوقوم پرست جماعت کے ترجمان سنجے راوت نے قرار دیا کہ اگر مودی حکومت کے علم میں یہ بات آگئی ہے تو اُسے فوراً پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کرنی چاہیے۔ دہلی سکھ گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کی طرف سے ایسے بیانات پر حکومت کو کچھ شرم دلانے کی اچھی خاصی کوشش سامنے آئی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات کو صرف شرمناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو خیر سامنے کی بات ہے کہ بھارتی حکومتوں کے پاس شرم نام کی کوئی چڑیا موجود نہیں ہوتی۔ سو یہ چڑیا مودی حکومت کے پاس بھی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ شاید بھارتی کسانوں کی آٹھ دسمبر کی ملک گیر ہڑتال نے حکومت کو بوکھلا دیا ہے۔ بیچاری کورونا کی ماری معیشت کو تقریباً 4.5ارب ڈالر کا زیربار ہونا پڑا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ 2015ء کے بعد یہ کسانوں کی سب سے بڑی ہڑتال ہے۔ تب بھی حکومت بوکھلا گئی تھی لیکن اتنا نہیں جتنا درد اِس وقت محسوس کیا جارہا ہے اور بھارت کے ہردرد کی دوا ہے ''پاکستان‘‘۔ سو مودی حکومت اِس مرہم کابکثرت استعمال کر رہی ہے۔
ویسے کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اپنے کسانوں کے حالات بہتر بنانے کے بجائے معاملہ غیرملکی ہاتھوں پر ڈال دیا جائے۔ کتنا آسان سا راستہ ہے کہ جس مسئلے کا کوئی حل نہ سمجھائی دے‘ اُسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دو۔ منہ کھولو اور ہر طرف بے یقینی پھیلا دو‘ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جو کہا جارہا ہے اُس پر کوئی یقین بھی کرے گا یا نہیں۔ بھارتی حکومتوں کے معاملات ایسے ہی چلتے ہیں۔ دوسری جانب زندہ باد‘ مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں جن کو ایسی باتیں بہت پسند آتی ہیں ۔ حکومتی سطح سے تھوڑی سی ہلا شیری ملتی نہیں کہ نعرے لگانے والے سڑکوں پر آن موجود ہوتے ہیں۔ اِس بات سے قطع نظر کہ اصل میں معاملہ ہے کیا۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ حکومتی ذمہ داران کو کوئی بھی بات کرنے سے پہلے سومرتبہ سوچنا چاہیے ۔ ایسے بڑھ بڑھ کر بڑھکیں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اُلٹا اِس سے بھد اُڑتی اور جگ ہنسائی کا سامان ہوتا ہے اور بعد میں ہاتھوں سے دی گئی گانٹھوں کو دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔ یہ اصول ذاتی سطح پر بھی لاگو ہوتا ہے لیکن حکومتی فیصلوں کے نتائج پورے ملک پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ سو اُن میں احتیاط کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنے کی ضرورت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ آج اگر بھارت خود کو کوئی حصوں میں تقسیم پاتا ہے تو اِس کی سب سے بڑی وجہ مودی حکومت کے متنازع فیصلے ہیں۔ آجا کہ اِن سب کا یہی مقصد دکھائی دیتا ہے کہ بس کسی طرح ہندواکثریت کو خوش رکھا جائے۔ خیر یہ اُن کے معاملات ہیں‘ ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم اِن معاملات میں ٹانگ اڑاتے پھریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اپنے پڑوس میں رونما ہونے والے حالات و واقعات پر کڑی اور گہری نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں