"FBC" (space) message & send to 7575

مفادات کا کھیل ہے سب

ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ ہر وقت اِدھر اُدھر سہارے ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ کسی غیر ملکی شخصیت کی طرف سے ہمارے مطلب کا بیان آ جائے تو ہم اُس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ اُسے اپنا مربی و محسن سمجھ کر دن رات اُس کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتے ہیں۔ شاید کمزور ممالک اور اقوام کا یہی طرزِ عمل ہوتا ہے لیکن ہم تو کچھ زیادہ ہی جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو ہم دہائیاں دے دے کر تھک گئے لیکن مجال ہے جو چند ایک ممالک کے علاوہ کسی اور طرف سے ہمارے حق میں آواز بلند ہوئی ہو۔ آواز تو کیا بلند ہوتی‘ اسی وقت ایک برادر ملک کی طرف سے بھارتی وزیراعظم کو اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا جا رہا تھا۔ اب اسی برادر ملک نے ہمارے شہریوں کیلئے ویزوں کے اجرا پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ پابندی زیادہ اِس لیے چبھ رہی ہے کہ یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے بعد اُٹھایا گیا ہے۔ ایک دوسرے برادر ملک کی طرف سے بھی ہلکا پھلکا سا جھٹکا ہمیں مل چکا ہے اور مزید جھٹکوں کے قوی آثار موجود ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کے بارے میں ہم گمان کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ہر مشکل کے ساتھی ہیں لیکن اب وہ بتدریج ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ (کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی)۔ وجہ اِس کی یہ بھی ہے کہ حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات میں ترجیحات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہمیں زیادہ تکلیف اِس لیے ہو رہی ہے کہ ہم دوسروں سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کا تحفظ ہی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ آج وقت بدلا ہے تو یہ باتیں بھی ہونے لگی ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ تو کئی دہائیاں پہلے ہی حل ہو جاتا اگر تمام مسلم ممالک سنجیدہ کوششیں کرتے۔ بدلتے ہوئے اِن حالات میں ہمارے ہیرو طیب اردوان نے بھی اسرائیل سے منقطع کیے گئے تعلقات کی بحالی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اِن سطور کی اشاعت تک ممکن ہے ترکی کا سفیر اسرائیل واپس بھجوایا جا چکا ہو۔
یہ قریب دو سال پہلے کی بات ہے‘ جب فلسطینیوں پر مظالم کی بنا پر ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل میں موجود امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا گیا تھا جس پر فلسطینی سراپا احتجاج تھے۔ اسرائیلیوں نے مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کیں جن پر ترکی نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ دوسال تک یہی صورت حال برقرار رہی لیکن اب اچانک ہی ترکی نے اپنا سفیر اسرائیل واپس بھجوانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ فیصلہ امریکا کی طرف سے ترکی پر تجارتی پابندیاں عائد کیے جانے کے محض ایک دن بعد ہی سامنے آیا۔ تجارتی پابندیوں سے قبل امریکا نے ترکی کے ساتھ ہوابازوں کا تربیتی پروگرام اور کچھ دیگر معاہدے بھی منسوخ کیے تھے۔ ایسا اِس پاداش میں کیا گیا کہ ترکی نے روس سے جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم خریدا تھا۔ امریکا بہادر کو یہ اقدام پسند نہ آیا تو مختلف معاہدے منسوخ کر نے کے بعد اب ترکی پر تجارتی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایک برادر اسلامی ملک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کیے تو اِس پر سب سے زیادہ ردعمل ترکی کی جانب سے ہی آیا تھا۔ اب امریکا کی طرف سے تجارتی پابندیاں عائد کیے جانے کا فیصلہ سامنے آیا ہے تو بہرطور اپنے مفادات کا تحفظ مقدم ٹھہرا۔ مقصد اِس فیصلے کا یہ قرار دیا جا رہا ہے کہ نئی امریکی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی پیش بندی ہو سکے۔ ترکی یہ بھی محسوس کر رہا ہے کہ خطے کے تبدیل ہوتے ہوئے حالات اور مختلف اسلامی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربتوں کے باعث وہ خطے میں اکیلا رہ جائے گا۔ اب اُس کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ کسی طرح اپنے لیے پیدا ہونے والی ممکنہ تنہائی کو دور کر سکے۔
مفادات کے تحفظ کی ایک اور مثال بحیرہ روم میں تیل اور گیس کی تلاش کا معاملہ ہے۔ اِس مسئلے پر ترکی کے یونان اور قبرص سے تعلقات کافی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ سمندر میں جس مقام پر ترکی تیل اور گیس کی تلاش کا کام کر رہا ہے، اُس علاقے کو یونان اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔ ترکی کے مطابق‘ بین الاقوامی قوانین اُسے اُس علاقے میں تیل اور گیس کی تلاش کا اختیار دیتے ہیں۔ حیران کن طور پر اِس میں کچھ برادر ممالک عملی طور پر یونان اور قبرص کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے لیکن برادر ممالک اِس معاملے میں یونان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کے مفادات اِسی میں پنہاں ہیں۔ سو عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور اُنہی کا تحفظ بہرصورت مقدم ٹھہرتا ہے۔ ہماری مجبوری شاید یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ ہی دست نگر رہے ہیں۔ قرض مانگتے مانگتے آج ہم اِس سطح پر آن پہنچے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے اشاروں پر چلنا پڑتا ہے۔ اپنی اِنہی مجبوریوں کے باعث ہم دوسروں پر انحصار کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
یقینا یہ صورتحال ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی بلکہ اگر 1970ء اور 80ء کی دہائیوں سے پہلے کا جائزہ لیں تو تب ہم تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں شامل تھے۔ بڑے بڑے منصوبوں کیلئے زیادہ تگ و دو کے بغیر ہی قرضے مل جاتے تھے۔ ملک کے دوسرے بڑے ادارے ریلوے کا شمار بہترین اداروں میں ہوتا تھا‘ آج ڈگمگاتی ہوئی ہماری قومی ایئر لائن دوسری ایئر لائنز کیلئے رول ماڈل ہوا کرتی تھی۔ آج ہم بہت فخر سے اُس دور کا ذکرکرتے ہیں جب ملک میں منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے بڑے منصوبے مکمل کیے گئے جن پر بیرونی طالبعلم آ کر تحقیق کیا کرتے تھے۔ یہ تو کل کی بات معلوم ہوتی ہے کہ ملک میں غیر ملکی سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ لاہور میں غیر ملکی سیاح موٹر بائیک اور بسوں پر واہگہ کی طرف رواں دواں رہتے تھے۔ کسی کو کوئی خوف نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی بم حملے یا دہشت گردی کا نشانہ بن جائے گا یا اُسے اغوا کر لیا جائے گا۔ برآمدات‘ درآمدات سے زیادہ تھیں جس کے نتیجے میں معیشت بھی مستحکم تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں تو تب بھی نہیں بہتی تھیں لیکن حالات اِس قدر دگرگوں بہرحال نہیں تھے۔
سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو ہم بھی فریق بن کر اِس جنگ میں کود پڑے۔ یہ سوچا ہی نہیں کہ اِس کے دوررس نتائج کیا برآمد ہو سکتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر تب ملک میں امداد کے طور پر ڈالر تو برستے رہے لیکن ملکی حالات بتدریج خراب ہوتے چلے گئے۔ جن سے ڈالر ملتے تھے اُن کے احکامات پر بلا چون و چرا عمل بھی کرنا پڑتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ایسی بدامنی کی لپیٹ میں آ گیا کہ سب سہانے سپنے ٹوٹ گئے۔ تب پیدا ہونے والی صورت حال کے اثرات آج بھی کسی نہ کسی طور موجود ہیں۔ کوئی ایک ادارہ بھی ٹھیک طریقے سے اپنے فرائض انجام دیتا دکھائی نہیں پڑتا۔ حد تو یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تو کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ رہی کہ ہم نے دوسروں کے مفادات کے لیے اپنے مفادات قربان کیے؛ البتہ انفرادی سطح پر دولت کے انبار ضرور سمیٹ لیے گئے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایک مرتبہ پھر تب کے حکمرانوں کی چاندی ہو گئی۔ ہمارے ایک سابق حکمران نے تو فخریہ طور پر اپنی کتاب میں لکھا کہ اُنہوں نے ایک ایک شخص کے عوض امریکا سے پانچ پانچ ہزار ڈالر وصول کیے۔ اِن جنگوں کے نتیجے میں سیاسی قوتیں کمزور ہوتی چلی گئیں جو آج تک اپنی سابق طاقت حاصل نہیں کر سکیں۔ اب تو شاید معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیل کا معاملہ ہو یا بھارت سے تعلقات کی بات‘ کوئی اِس پر مکالمے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اب جب نہ صرف عرب ممالک بلکہ تقریباً پورا مشرق وسطیٰ ہی اسرائیل کے سا تھ اپنے تعلقات استوار کر چکا ہے تو ہمیں یہ دیکھنے پڑے گا کہ ہم اس موقف پر کب تک قائم رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں