"FBC" (space) message & send to 7575

مودی سرکار کی ہٹ دھرمی

کس کو اِس بات میں شک ہے کہ جب کوئی انسان خود کو عقل کل سمجھ لے تو پھر دل اور دماغ کے کواڑ بند ہوجاتے ہیں۔ ہر بات کی تان ''میں، میں اور میں‘‘ پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمیشہ اعتدال کا راستہ ہی بہترین ہوتا ہے لیکن برا ہومفادات کا کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انسان اندھا اور بہرہ ہوجاتا ہے۔ وہ صرف اُس حد تک ہی دیکھتا ہے جس حد تک دیکھنا وہ پسند کرتا ہے۔ وہ وہی کچھ سننا چاہتا ہے جو اُس کے کانوں کو بھلا محسوس ہو۔ پوری دنیا چیخ و پکار کرتی رہے لیکن ''میں‘‘ کا خناس اُسے حقیقت کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔ کیا ایسی مثالیں تاریخ میں بکھری نہیں پڑیں کہ جب اقتدار پاؤں کے نیچے سے کھسکنے لگتا ہے تو تبھی 'میں‘ کا حصار بھی ٹوٹنے لگتا ہے۔ چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوتی ہیں تو حکمرانوں کو جھٹکا سا لگتا ہے،وہ اس زعم کا شکار رہتے ہیں کہ عوام تو اُن سے بہت خوش ہیں، یہ کوئی بیرونی سازش ہے جو ان کے سنگھاسنِ اقتدار کو لرزائے دے رہی ہے۔
'' میں‘‘ کے بارے میں بابا بلھے شاہ نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا ؎
مکے گئیاں گل مکدی ناہیں، بھاویں سو سو جمعے پڑھ آئیے
گنگا گئیاں گل مکدی ناہیں بھاویں سو سو غوطے کھائیے
بلھے شاہ گل تائیوں مکدی جد میں نوں دلوں مکائیے
یہ منحوس ''میں‘‘ ایسی ہے جو اندر سے نکلتی ہی نہیں اور اِسی میں کے چکر میں اقتدار چھن جاتا اور ملک ٹوٹ جاتا ہے۔ 'میں‘ کا یہی چکر اِن دنوں بھارت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔پورے بھارت کے کسان دارالحکومت دہلی کے گرداگرد مہینوں سے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں لیکن بھارتی وزیراعظم اپنے موقف سے ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں۔ تین زرعی قوانین کے خلاف ہونے والے کسانوں کے اِس احتجاج کو بھارت ہی نہیں‘ دنیا کی تاریخ کا ایک بڑا احتجاج قرار دیا جارہا ہے۔ 5سو سے زیادہ کسان تنظیمیں مودی حکومت سے مسلسل مطالبہ کررہی ہیں کہ متنازع زرعی قوانین کو واپس لیا جائے لیکن حکومت مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ یہ قوانین کسانوں کی بہتری کے لیے ہیں۔ وجہ اِس کی صرف اتنی سی ہے کہ مودی اور اُن کے حواری ''میں‘‘ کے چکر میں اپنی ناک سے آگے دیکھ ہی نہیں پارہے۔ پہلے مختصرا جان لیتے ہیں کہ یہ تین قوانین کیا کہتے ہیں۔ پہلا قانون'' فارمرز پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس‘‘ کہتا ہے کہ اِس قانون کے تحت کسان اپنی زرعی اجناس مارکیٹ کمیٹی کی مقرر کردہ منڈیوں کے باہر بھی دیگر ریاستوں کو بغیر ٹیکس ادا کیے فروخت کرسکتے ہیں۔ دوسرا قانون کہتا ہے کہ کسان اپنی زرعی اجناس کے حوالے سے منظور شدہ کمپنیوں کے ساتھ معاہدۂ کاشتکاری کرسکتے ہیں اور اپنی اجناس کی مارکیٹنگ بھی کرسکتے ہیں۔ تیسرے قانون کے تحت، سوائے غیرمعمولی حالات کے،کسانوں کے لیے اپنی اجناس کا ذخیرہ کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ قانون ہے جس پر کسانوں کو سب سے زیادہ اعتراض ہے۔ کسانوں کو اصل ڈر اِس بات کا ہے کہ نئے قوانین کے تحت منڈیوں کو ختم کیا جارہا ہے جہاں کسان اپنی اجناس اپنی پسند کے داموں پر فروخت کرسکتے ہیں۔بھارتی کسانوں کو ڈر ہے کہ منڈیاں ختم ہوگئیں تو وہ اپنی اجناس کہاں لے کر جائیں گے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ ایک طویل عرصے کے لیے اِنہیں ذخیرہ تو نہیں کرسکتے لہٰذا اُنہیں اپنی پیداوار سرمایہ کاروں کی پسند کے داموں پر فروخت کرنا پڑے گی۔ اُن کی نظر میں اب کسانوں اور اُن کی کھیتی کو بھی کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ شکوک بے جا نہیں ہیں کیونکہ امبانی اور اڈانی جیسے بڑے کاروباریوں نے قوانین لاگو ہونے سے پہلے ہی زرعی اجناس ذخیرہ کرنے کے وسیع پیمانے پر انتظامات شروع کردیے تھے۔ خود بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق‘ یہ گودام بہت بڑے پیمانے پر تعمیر کیے گئے ہیں جہاں بھاری مقدار میں طویل عرصے تک زرعی اجناس ذخیرہ کی جاسکتی ہیں۔ اِنہی حالات و واقعات کے باعث بھارت میں کسان تحریک جو شروع ہوئی تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اب سردی کی شدت میں بڑی حد تک کمی آچکی ہے لیکن اندازہ لگائیے کہ دہلی کے شدید سردی کے موسم کے دوران کسانوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ شدید سرد موسم اور دیگر وجوہات کی بنا پر لگ بھگ 150 احتجاجی کسان اب تک اپنی جانوں کی بازی ہار چکے ہیں۔
حالات یہ ہیں کہ پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی بھارتی کسانوں کا جوش اور جذبہ ماند نہیں پڑ رہا۔ کئی ایک مواقع پر بھارتی حکومت کی طرف سے کسانوں کے خلاف طاقت بھی استعمال کی گئی لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ گزشتہ دنوں دہلی کے قریب آر ایس ایس کے غنڈوں نے کسانوں کے ایک جتھے پر حملہ بھی کیا جس میں متعدد کسان زخمی ہوئے لیکن احتجاجی مسلسل ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ تحریک عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کرچکی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے تو کافی عرصہ پہلے ہی کسان تحریک کی حمایت میں بیانات دیے تھے جس پر بھارتی حکومت نے اپنی خفگی بھی ظاہر کی تھی؛ تاہم اب معروف امریکی گلوگارہ ریانا، عالمی شہرت یافتہ نوجوان سماجی کارکن گریٹا تھنبرگ اور دوسرے معروف افراد بھی اپنے ٹویٹس کے ذریعے بھارتی حکومت کے غصے میں اضافہ کرچکے ہیں۔ اِس میں مزید اضافہ مینا ہیرس کے ٹویٹس سے ہوا ہے۔ مینا ہیرس امریکا کی بھارتی نژاد نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی ہیں۔ اِن کی طرف سے واضح طور پر کسان تحریک کی حمایت اور بھارتی حکومت کے رویے کی مذمت کی گئی ہے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا بھی بھارتی کسانوں کی حمایت میں پیش پیش نظرآتی ہیں بلکہ اُن کی طرف سے ایسے افراد کا شکریہ بھی ادا کیا گیا جو کسان تحریک کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔بات صرف یہیں پر نہیں رک رہی بلکہ عالمی شخصیات کی طرف سے ٹویٹس کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہو چکا ہے۔ اِسی لیے ٹویٹر کی طرف سے بھارتی حکومت کے دباؤ پر درجنوں ایسے اکاؤنٹس بند بھی کیے گئے ہیں جن سے کسان تحریک کی حمایت کی جارہی تھی۔ بھارتی حکومت اِن حالات پر خاصی بے چینی محسوس کررہی ہے لیکن اپنے ایک غلط قدم کو واپس لینے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی بلکہ غلطیوں پر مزید غلطیاں کرتی چلی جا رہی ہے۔ اب اس تحریک کی کوریج کرنے والے متعدد صحافیوں پر بھی بغاوت کے مقدمات قائم کردیے گئے ہیں۔
یہ ہے اُس صورت حال کا مختصر سا جائزہ جس نے ایک ایٹمی طاقت اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک کو زچ کررکھا ہے۔کیسی عجیب بات ہے کہ اپنی غلطی کو سدھارنے کے بجائے دوسروں پر تحریک کو ہوا دینے کے الزامات دھرے جا رہے ہیں۔ مودی حکومت کے نائب وزیرخوراک راؤ صاحب دانوے کا بیان ایک مرتبہ پھر بھارتی میڈیا کا موضوع بحث بنا ہوا ہے جس میں تحریک کے لیے پاکستان اور چین کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ بقول اُن کے‘ پہلے متنازع شہریت قانون پر مسلمانوں کو بھڑکایا گیا اور اب بھارتی کسانوں کو ہلّہ شیری دی جارہی ہے۔یہ بھارت کی پرانی رِیت ہے کہ وہاں کچھ بھی برا ہوجائے تو اِس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ حقائق سے آنکھیں ملانے کی جرأت ہی نہیں کی جاتی۔دراصل دوسروں پر الزم دھر کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل ہو جاتا ہے اور یہ فارمولا اتنی کامیابی سے کام کرتا ہے کہ اپنی غلطی چھپانے کے لیے زیادہ تردد کرنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ اس وقت بھارتی کسانوں کاجوش اور جذبہ دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہورہا ہے کہ بالآخر بھارتی حکومت کو بیک فٹ پر جانا پڑے گا لیکن تب تک یقینا طرفین کا بہت سا نقصان ہوچکا ہوگا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب کسی ملک میں حکومت کے کسی اقدام پر عوام احتجاج کرتے ہیں تو وہاں کی حکومتیں ہٹ دھرمی پر کیوں اُتر آتی ہیں۔ خصوصی طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ مظاہر بہت کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آثار یہی بتاتے ہیں کہ سرحد کے اُس پار ہٹ دھرمی اور ''میں‘‘ کے اِن مظاہر سے مستقبل قریب میں بھی جان چھوٹنے والی نہیں۔ بلھے شاہ نے سچ ہی کہا تھا کہ ''گل تائیوں مکدی جد میں نوں دلوں مکائیے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں