"FBC" (space) message & send to 7575

ناک سے آگے بھی دیکھنا چاہیے

اندازہ لگائیے کہ ایک کام اپنے مطلب کے وقت بالکل ٹھیک ہوتا ہے‘ وہی کام کسی دوسرے کے مفادات کی تکمیل کرے تو غلط ہو جاتا ہے۔ اپنا مطلب پورا نہ ہو سکے تو تبصروں کا طومار باندھ دیا جاتا ہے، دوردراز کی کوڑیاں لائی جاتی ہیں،بازو ہوا میں لہرا لہرا کر بتایا جاتا ہے کہ دیکھیں کیسا ظلم ہوگیا ہے، کیسے پیسے کی چمک دکھا کر ہمارے ساتھیوں کو منزل سے بھٹکایا گیا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ سننے والے اِسے کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ حکومتی موقف کے مطابق‘ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے جو کچھ کیا گیا‘ وہ ضمیر کی آواز تھی اور یوسف رضاگیلانی کی کامیابی ضمیر فروشی کی بدترین مثال تھی۔ سینیٹ کے لیے اسلام آباد کی اہم نشست کے نتائج کے بعد حکومت کی طرف سے جو تبصرے سننے میں آ رہے ہیں اُن سے کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا۔ ہر مسئلے پر ٹویٹ داغنے اور پریس کانفرنسز کرنے کے لیے مشہور ایک حکومتی مشیر کی طرف سے بیان سامنے آیا کہ چمک جیت گئی اور جمہوریت ہار گئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ بھی بتا دیا جاتا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے عمل میں کون جیتا اور کون ہارا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات بھی بہت گرجے برسے‘ قرار دیا کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی خرید وفروخت کے عمل کا شاخسانہ ہے۔ اُن کے مطابق‘ یہ دو نظریوں کی جنگ ہے جس میں ایک طرف پی ڈی ایم ہے جو ضمیروں کے سودے کر رہی ہے اور دوسری طرف کرپشن کے خاتمے کے لیے وزیراعظم کا نظریہ ہے۔ اب اگر اِس سوال کا جواب ہی تلاش کر لیا جائے کہ 'بکاؤ مال‘ کا تعلق کس جماعت سے تھا تو صورت حال بڑی حد تک واضح ہو جاتی۔ یقینا اپوزیشن بھی دودھ کی دھلی نہیں لیکن دوسروں سے پہلے اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ سینیٹ انتخابات سے پہلے ہی آثار دکھائی دینے لگے تھے کہ پی ٹی آئی کے متعدد اراکین اپنی جماعت کے خلاف جائیں گے۔ اِس صورت حال سے بچنے کے لیے حکومت نے ہر ممکن تگ و دو بھی کی لیکن وہ ثمر آور نہ ہو سکی۔ اب حکومت کو اِس تمام عمل میں کیڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر حفیظ شیخ صاحب جیت جاتے تو کیا تب بھی یہ انتخابی عمل اتنا ہی برا ٹھہرتا؟
حکومت اِس صورتحال کو اِس زاویے سے کیوں نہیں دیکھتی کہ ڈھائی سالہ اقتدار کے دوران وہ ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہے‘ وہ اِس حقیقت پر نظر کیوں نہیں ڈالتی کہ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے‘ وہ یہ کیوں نہیں دیکھتی کہ اُس نے اپنی صفوں میں اُنہی لوگوں کو بھر لیا ہے جو ہر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں‘ وہ کیوں یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ فصلی بٹیروں کو گلے لگانے سے پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے‘ وہ یہ ماننے پر تیار کیوں نہیں کہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن بتدریج جماعت سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اُن میں یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ جماعت میں پیسے والوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ خود جماعت کے اندر سے لیاقت جتوئی کی طرف سے یہ الزام سامنے آیا کہ سندھ سے پارٹی کے ایک رکن کو 35 کروڑ روپے کے عوض سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا۔ اِس پر اُنہیں پارٹی قیادت کی طرف سے نوٹس بھی بھیجا گیا لیکن ظاہر ہے کہ کوئی نتیجہ نکلنا تھا‘ نہ نکلا۔
حکومت یہ حقیقت کیوں نہیں سمجھتی کہ حکومتیں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے پہلے نصف کے دوران آئندہ کے نصف کی بنیاد رکھتی ہیں۔ کوئی بتا دے کہ موجودہ حکومت نے آئندہ سالوں کے لیے کون سی بنیادیں تیار کی ہیں؟ کس شعبے میں بہتری آئی ہے؟ جب بھی بات کی جائے تو کامیابیوں کی لمبی چوڑی فہرست گنوائی جاتی ہے لیکن جب اِن ''کامیابیوں‘‘ کے مثبت نتائج کے بارے سوال کیا جائے تو جواب ندارد۔ وہی پرانی باتیں‘ پرانے رونے کہ جانے والوں نے ملک تباہ کر دیا، ہم جانے والوں کا گند صاف کر رہے ہیں، پچھلی حکومتیں ہمیں فلاں فلاں مصیبت میں پھنسا گئیں، وہ ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھا کر گئے۔
سینیٹ انتخابات کے بعد وزیراعظم صاحب کا قوم سے کیا جانے والا خطاب سن لیں‘ کیا اس میں کوئی نئی بات تھی؟ وہی باتیں جو پہلے بھی کی جا چکی ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں پیسہ چلا، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہا، اسمبلی سے نکلا بھی تو انہیں نہیں چھوڑوں گا، جب تک معاشرہ ذمہ داری نہ لے تب تک بہتری نہیں آ سکتی اور میں اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم کی تقریر پر کسی اپوزیشن رہنما کی تقریر ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ حکومت کیوں یہ سمجھ نہیں رہی کہ ہر شعبے میں شروع ہونے والا زوال تھمنے میں ہی نہیں آ رہا، مہنگائی نے عام آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر بنا دیا ہے، عوام جن مسائل سے دوچار ہیں اور جو چیزیں حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہئیں‘ حکومت انہیں کیوں سمجھ نہیں پا رہی؟ آج حکومت اپنے اردگرد کھڑے لوگوں خلاف کارروائی کا آغاز کرے‘ پوری قوم شانہ بشانہ ساتھ کھڑی ہو جائے گی۔ آج پیراشوٹرز کی جگہ جماعت کے نظریاتی کارکنوں کو اہمیت دینا شروع کر دیں، اپوزیشن کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ آج مہنگائی کے خلاف جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا شروع کر دیں‘ عام آدمی آپ کے گن گانے لگے گا۔ پچھلے ڈھائی سالوں سے عوام کو ایک ہی طرح کے بیانات سننے کو مل رہے ہیں مگر نئے انداز سے۔ بار ہا عرض کی جا چکی کہ بھلے آپ بدعنوانوں کو پھانسی پر لٹکا دیں، اِ نہیں چوراہوں میں سرعام سزائیں دیں لیکن عام آدمی کے لیے تو کوئی آسانی پیدا کریں۔ ایک عرصے سے آٹا، چینی، گھی، پٹرول کے بحرانوں کا غلغلہ مچا ہوا ہے‘ اِن پر قائم کی گئی کمیٹیوں کی رپورٹیں بھی سامنے آ چکی ہیں مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں اپنی چالاکیوں کی بابت یہ گمان کرتی ہیں کہ عوام کو حقیقت معلوم نہیں پڑ سکے گی۔ ممکن ہے کہ آج سے چار، پانچ دہائیاں پہلے تک ہمارے ملک میں ایسی صورت حال موجود ہو لیکن آج یقینا ایسا نہیں ہے۔ آج تو یہ عالم ہے کہ کسی ٹھیلے والے کے پاس بھی اگر کھڑے ہو جائیں تو وہ فرفر سب کچھ بتا دیتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، کس کی ڈوری کہاں سے ہلائی جاتی ہے، کس کے کہنے پر مہرے حرکت میں آتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ آج سب کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں موجود جماعتیں جو معصومیت کے ڈرامے کر رہی ہیں‘ اپنے اپنے ادوارِ اقتدار میں کیا کرتی رہی ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ اب جانے والوں کو ہی رویا جاتا رہے گا یا پھر کچھ کرکے بھی دکھایا جائے گا۔ حکومت کیوں یہ نہیں سوچتی کہ ''این آر او نہیں دوں گا‘‘ والا بیانیہ اب پرا نا ہو چکا ہے۔ چوروں کو جیلوں میں ڈالنے والی باتیں بھی اپنا اثر کھو چکی ہیں بلکہ اِس سے یکطرفہ احتساب کا تاثر مضبوط ہو رہا ہے۔ آج کھلے عام یہ سوالات اُٹھائے جاتے ہیں کہ اگر حکومت احتساب کے معاملے میں اتنی ہی سنجیدہ ہے تو اپنے اردگرد موجود افراد کے کارروائی سے اس کا آغاز کیوں نہیں کرتی؟ اور کچھ نہیں تو گڈ گورننس کی طرف ہی دھیان کر لیں۔ صرف پنجاب کی مثال سامنے رکھیں کہ آئے روز بیورو کریسی میں تبادلوں کے جھکڑ چلتے رہتے ہیں۔ ایسے میں بہتری کی امید کیونکر وابستہ کی جائے؟ اب بھی وقت ہے کہ اپنی خامیوں کا کھلے دل سے جائزہ لیا جائے، دیکھا جائے کہ کہاں کہاں خرابیاں ہیں، اور محض جائزہ ہی نہ لیا جائے بلکہ اِن مسائل کو حل بھی کیا جائے، ورنہ پھر وقت کا ہیر پھیر تو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں