"FBC" (space) message & send to 7575

ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

حالات کا جس بھی پہلو سے جائزہ لیں‘ پریشان ہونے کے تمام عوامل موجود نظرآتے ہیں۔ بات معیشت کی ہو، اخلاقیات کی ہو، قانون کی یا کوئی بھی دوسرا موضوع ہو، کہیں پر کچھ بھی ٹھیک دکھائی نہیں دے رہا۔ حالات کی مسلسل خرابی نے سب کو پریشان کررکھا ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ جب معیشت کی چولیں ہل چکی ہوں تو لامحالہ اِس کے اثرات ہرشعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہوں گے۔ گزشتہ پونے تین سالوں کے دوران معیشت کے وزیر تو دو بار تبدیل کیے جاچکے ہیں اور تیسرے کی تبدیلی کی خبریں بھی زبان زد عام ہیں۔ حصولِ اقتدار کے لیے کیا کیا دعوے کیے گئے تھے، کیسے کیسے سبز باغ دکھائے گئے تھے لیکن حقیقت میں کچھ بھی ویسا نہیں ہوا۔ موجودہ حکومت کے پہلے وزیرخزانہ اسد عمر نے جتنا کچھ کہا تھا‘ اگر اُس کے نصف کا نصف بھی کرکے دکھایا ہوتا تو شاید آج حالات اتنے برے نہ ہوتے۔ اسد عمر شاید واحد ایسے شخص تھے جن کے بارے میں کافی پہلے ہی اعلان کیا جا چکا تھا کہ اگر تحریک انصاف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو اُس کے وزیرخزانہ اسد عمر ہوں گے۔ ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے اُنہوں نے وزارت کو چلانے کی بھرپورتیاری کررکھی ہے۔ اسی باعث اُن سے توقعات بھی بے تحاشا وابستہ کرلی گئی تھیں جو پوری نہیں ہو سکیں تو مایوسی نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے۔ ایک کروڑ گھر، پچاس لاکھ نوکریاں اور دو سو ارب ڈالر واپس لانے کے دعوے، نجانے عوام کو کیا کیا خوشنما تصویر دکھائی گئی۔ حکومت سازی کے چند ماہ بعد ہی مہنگائی کے عفریت نے جب سر اُٹھانا شروع کیا اور ڈالر کی قیمت کو پَر لگنا شروع ہوئے تو اُنہیں اپنا عہدہ چھوڑتے ہی بنی۔ جب اُنہوں نے عہدہ سنبھالا تھا تو تب ڈالر کا انٹربینک ریٹ 123روپے 75پیسے تھا اور جب وہ اس عہدے سے رخصت ہوئے تو یہ ریٹ141روپے 51پیسے تک پہنچ چکا تھا۔
اسد عمر صاحب کے بعد کوشش کی گئی کہ پارٹی میں سے ہی کوئی دوسرا وزیر خزانہ مل جائے لیکن تان حفیظ شیخ صاحب پر جا کر ٹوٹی۔ حفیظ شیخ پہلے پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کے ادوارِ حکومت میں بھی یہی فرائض انجام دے چکے تھے۔ اس دور میں معیشت کا جو حال ہوا‘وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس وقت حماد اظہر وزارتِ خزانہ کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں لیکن شنید ہے کہ جلد شوکت ترین کو اُن کی جگہ دے دی جائے گی۔ اگرچہ اس حوالے سے ابھی صورتحال واضح نہیں؛ تاہم ممکنہ وزیرخزانہ کے معیشت کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جوخیالات ہیں‘ ذرا وہ بھی ملاحظہ کرلیجئے۔ شوکت ترین صاحب کا کہنا ہے کہ کچھ معلوم نہیں پڑرہا کہ معیشت کس طرف جارہی ہے۔ اِس حوالے سے اُنہوں نے کچھ تکنیکی پہلو بھی اُجاگر کیے ہیں جن کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ معیشت اِس وقت بدحالی کا شکار ہے، فی الحال تو وہ بوجوہ اکنامک ایڈوائزری کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں گے لیکن معیشت کے بارے میں اُن کی طرف سے سامنے آنے والے خیالات بھی دل دھڑکائے دے رہے ہیں۔ حیرت تو اِس بات پر ہوتی ہے کہ اِن تمام حالات کے باوجود حکومتی صفوں سے دن رات ترقی کی بلند بانگ آوازیں کانوں میں پڑ رہی ہیں۔ یقینا یہ کچھ غلط بھی نہیں ہیں‘ کچھ مثبت اشارے بھی ملے ہیں‘ روپیہ مضبوط ہونا شروع ہوا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ عام آدمی کے حالات میں کچھ بہتری نہیں آئی ہے۔ ہمارے جیسا عام آدمی تو یہی سوچتا ہے کہ ترقی کے حکومتی اعلانات کے بعد اُس کی زندگی میں کیا مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اگر تو مہنگائی میں کمی ہونا شروع ہوگئی ہے تو پھر یقینا حکومتی اقدامات کے اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ اگر لوگوں کو نوکریاں ملنا شروع ہوگئی ہیں تو حکومت کے اقدامات کی تحسین کی جانی چاہیے۔ اگر حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر دوسرے ممالک سے واپس آچکے ہیں تو یقینا ترقی ہورہی ہے۔ اگر تو گڈ گورننس کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع ہوگیا ہے تو حکومت بہت اچھا کام کررہی ہے۔ اگر تو کرپشن میں کمی ہوئی ہے‘ بھلے معمولی سی کمی‘ تو بھی یہ خوش آئند ہے اور حکومت کو غلط کہنے والے خود غلط ہیں لیکن اگرا یسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر بہت سے سوالات سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے جیسے عام آدمی کو زری پالیسی، درآمدو برآمد کا توازن یا انٹر بینک ریٹ جیسی اصطلاحات سے کیا غرض ؟ ہمارے لیے ترقی کے اشاریے تو روزگار کے مواقع، ٹیکسوں اور مہنگائی میں کمی اور سبسڈی جیسے معاملات ہیں۔ رہی بات معیشت کے تکنیکی پہلوئوں کی تو نہ ہم میں اُن کی اتنی سمجھ بوجھ ہے نہ ہی سمجھنے کی زیادہ ضرورت۔ حالات یہ ہوچلے ہیں کہ آئی ایم ایف نے قرض کے عوض ہمارا بازو مروڑ کر پیٹھ سے لگا دیا ہے اور ہماری مجال نہیں کہ ہم اُس کی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کرسکیں۔
اب آئی ایم ایف کے کہنے پر سٹیٹ بینک کو خودمختار بنایا جا رہا ہے‘ بجلی و گیس کے نرخوں اور ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے‘ عوام بلبلا رہے ہیں، چیخ وپکار کررہے ہیں لیکن سب رائیگاں جارہا ہے۔ اب ان بلکتے عوام پر 9ارب ڈالر کے نئے ٹیکسز کا بوجھ لادنے کا انتظام کرلیا گیا ہے۔ کوئی لاکھ کہتا رہے کہ آئی ایم ایف ہماری مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا رہا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ خود ہمارے پلّے کچھ نہیں ہے۔ کسی کو بھی برا بھلا کہنے سے پہلے یہ یاد رکھیے کہ آئی ایم ایف خود کسی کے پاس جا کر یہ نہیں کہتا کہ ہم سے قرض لو۔ جس کو ضرورت ہوتی ہے‘ وہ آئی ایم ایف سے رابطہ کرتا ہے۔ اب ظاہری بات ہے کہ جو اربوں ڈالر قرضہ دے گا وہ پہلے اِس بات کو یقینی بنائے گا کہ اُس کا قرض واپس کیسے آئے گا۔ اِسی لیے وہ قرض کے خواہشمند ممالک سے اپنی شرائط منواتا ہے کہ پہلے یہ اقدامات کریں‘ اُس کے بعد ہی آپ کو قرض مل سکے گا۔ اور آئی ایم ایف کی بیشتر شرائط کوئی ایسی بے جا بھی نہیں ہوتیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اداروں کا خسارہ کم کرنے اور انہیں منافع بخش بنانے کے بجائے ان کا سارا بوجھ عوام پر لادنا آسان کام سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے ادارہ جاتی اصلاحات کا بھاری پتھر اٹھانے کے بجائے عوام پر مزید ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔ قریب دو سال قبل‘ جب وزیرخزانہ اسد عمر کو وزارت سے ہٹا یا گیا تھا‘ اُن پر الزام تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ تعاون نہیں کررہے تھے جس کے باعث قرضہ لینے کا پروگرام تاخیر کا شکار ہوتا جارہا تھا۔ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو من و عن تسلیم کیا تو اُنہیں بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ گویا تعاون کیا جائے تو مصیبت‘ نہ کیا جائے تو مصیبت۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی حوالے سے حکومت کی کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آرہی۔ اب وزیر تبدیل کر دینے سے کیا ان نقصانات کی تلافی کی جاسکے گی جو ہوچکے ہیں؟ یہ بھی عجیب کھیل ہے کہ ہرکچھ عرصے کے بعد وزارتوں میں ردوبدل کردیا جاتا ہے۔
پریشانی کی ایک اور بات پاکستان کو ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کی دعوت کا نہ ملنا ہے۔ پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اِس حقیقت کے باوجود پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اِس کانفرنس میں دنیا کے 40ممالک کے سربراہان شرکت کریں گے ، یہاں سے اندازہ لگالیجئے کہ بیرونی دنیا ہمیں کن نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی کا فرمانا ہے کہ جن دوکیٹیگریز کے حوالے سے یہ کانفرنس منعقد ہورہی ہے‘ پاکستان اُن کیٹیگریز میں شامل نہیں ہے۔ وجہ چاہے جو بھی بیان کی جاتی رہے‘ حقیقت یہ ہے کہ ماحول میں بہتری کیلئے کی جانے والی ہماری کوششوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ماحولیاتی بہتری کیلئے ہم نے دعوے زیادہ اور کام کم کیا ہے۔ یہاں گزشتہ سات دہائیوں سے یہی کچھ چلا آ رہا ہے، جو آتا ہے‘ اپنے خوشنما دعووں سے عوام کا جی بہلاتا ہے، کچھ دیر سب کو بھاتا ہے مگر جب کچھ کر کے نہیں دکھا پاتا تو فلائٹ پکڑ کر بیرونِ ملک کی راہ لے لیتا ہے۔ جو اس وقت عہدوں پر موجود ہیں‘ اُن کا مستقبل بھی یہاں کے بجائے بیرونِ ملک زیادہ محفوظ دکھائی دے رہا ہے تو پھر ایسے مسائل پیدا نہ ہونے میں کیا امرمانع رہ جاتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں