"FBC" (space) message & send to 7575

بس اتنا ہی مسئلہ ہے

سورۃ الصف کی آیت دو میں رب کریم نے ایمان والوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے‘‘ (مفہوم)۔درحقیقت اسی آیت مبارکہ میں سارا فلسفہ بیان کر دیا گیا ہے کہ عمومی طور پر افراد کا مسئلہ کیا ہے۔ ہمارا مسئلہ اتنا ہی ہے کہ ہم میں سے بیشتر وہ کچھ ہرگز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو کچھ وہ کہتے رہتے ہیں، یا پہلے کہتے رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو آئین کی بالادستی اور قانون کے بلاتفریق نفاذ کے حوالے سے بات نہیں کرتا ہو گا۔ کسی سے بھی بات کر کے دیکھ لیجیے‘ یہی جواب ملتا ہے کہ صرف قانون کی بالادستی میں ہی ہماری بقا ہے۔ باتیں ایک طرف‘ لیکن جب عملاً وقت آتا ہے تو اپنی اپنی بساط کے مطابق اکثریت قانون کی دھجیاں بکھیرتی نظر آتی ہے، کیا صاحبانِ اختیار و اقتدار اور کیا عام آدمی، گویا اس معاملے میں 'ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز‘ والا معاملہ ہے۔ اس حوالے سے ایک تازہ مثال ملاحظہ کیجئے؛ علی امین گنڈاپور صاحب ٹی وی ٹاک شوز اور اپنے بیانات میں قانون کی بالادستی پر خوب بات کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ عمل یہ ہے کہ ابھی پچھلے دنوںاُنہوں نے اپنے تیرہ سالہ بیٹے کی ڈرائیونگ کی وڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ کم عمر بچے کی ڈرائیونگ کے حوالے سے ان پر تنقید ہوئی تو منطق یہ پیش کی گئی کہ یہ میری اپنی زمین، اپنا بیٹا اور اپنی گاڑی ہے، ٹریفک قوانین صرف شاہراہوں اور موٹرویز وغیرہ پر لاگو ہوتے ہیں، ہم نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں کچھ وفاقی وزرا نے آؤٹ آف ٹرن جا کر اپنے اہل خانہ کو کوروناویکسین لگوائی ہے۔ ایک وفاقی وزیر کے اہل خانہ کو ویکسین لگائے جانے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو وزیرصاحب نے فوراً اِس کی یہ توضیح پیش کی کہ یہ ایک یونیورسٹی کی ٹیم کی جانب سے آزمائشی ویکسین کا بوسٹر شاٹ لگائے جانے کی مہم تھی، انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا، کیسے لوگ ہیں ہم کہ جو غلطی تسلیم کرنے بجائے عذرِ گناہ پر تلے رہتے ہیں۔ حالانکہ محترم وزیر صاحب کے اہلِ خانہ کے ساتھ ویکسین لگوانے والی ایک معروف اداکارہ نے شدید عوامی ردعمل پر اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئی معافی مانگی ہے۔ جس ملک میں کمزوروں کو سانس لینے کے لیے بھی طاقتوروں کی اجازت درکار ہو‘ وہاں مشکلات اور تکالیف کا نزول نہ ہو تو کیا ہو؟ لیکن کہنے کو ہم سب قانون کی بلا تخصیص عملداری کے دعویدار ہیں۔
ہمارے موجودہ حکمران تو آئے ہی اِس وعدے پر تھے کہ ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے، رشوت و بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے گا، ملک سے وی آئی پی کلچر کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا جائے گا، گورنرہائوسز کو یونیورسٹیوں میں بدل دیا جائے گا اور قوم کے لوٹے ہوئے دوسو ارب ڈالر واپس لائے جائیں گے۔ بیشتر وعدوں کی تکمیل کے لیے نوے دن کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔ اب البتہ نوے دن والی غلطی فہمی کو خود وزیراعظم صاحب کئی مرتبہ دور کر چکے ہیں۔ اُن کی طرف متعدد بار یہ کہا جاچکا ہے کہ نیا پاکستان کوئی سوئچ نہیں ہے کہ سوئچ آن کیا اور نیا پاکستان بن گیا، یہ ایک دیر پا پالیسی ہے‘ ممکن ہے کہ ہماری حکومت کے بھی بعد جا کر نیا پاکستان وجود میں آئے۔ یہاں پر عوام اتنا سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ جب یہ سب باتیں کررہے تھے تو تب آپ کو اندازہ نہیں تھا کہ نوے دنوں میں یہ سب کچھ ہونا ناممکن ہے؟ یقینا اِس بات کا اندازہ تھا کہ یہ سب کچھ نوے دنوں تو کیا‘ شاید نو سالوں میں بھی نہ ہوسکے لیکن مقصد عوام کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر اقتدار کی راہ ہموار کرنا تھی‘ سو اقتدار کا سنگھاسن مل چکا۔
اب ماضی کی مانند اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز شخصیات کی طرف سے رشتہ داروں کو خصوصی مراعات سے نوازا جارہا ہے اور بہتی گنگا میں سبھی اپنی اپنی بساط کے مطابق ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کبھی نہ کبھی پایہ تکمیل تک پہنچ ہی جانے والے 'ریورراوی اربن پروجیکٹ‘ میں ایک صاحب کو بھاری مراعات کے ساتھ ایک اہم عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ صاحب تین لاکھ روپے بنیادی تنخواہ کے ساتھ 8لاکھ روپے بنیادی الاؤنس حاصل کریں گے، بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں گریڈ بائیس کے افسران کے برابر‘ تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کے ٹی اے ڈی اے دیا جائے گا، تمام سہولتوں کے ساتھ ہرماہ لگ بھگ 15لاکھ روپے کی تنخواہ ملا کرے گی۔ دوسری جانب اگر اِس پروجیکٹ کے حوالے سے زمینی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو عملی طور پر یہ منصوبہ ٹھپ پڑا ہے لیکن اِس میں بھی نوازنے کا کام زوروشور سے جاری ہے۔چند روز قبل یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ خیبر پختونخوا گورنر ہاؤس کے لیے تقریباً 12کروڑ روپے کی لاگت سے نئی گاڑیاں خریدنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بے اختیار پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ کا حشر یاد آجاتا ہے۔ اِس ادارے کے سربراہ جب امریکا سے لاہور آئے تھے توتب اُن سے ملاقات کرنے کا موقع ملا تھا۔ کیا شاندار منصوبہ تھا اُن کے پاس جس کی تفصیلات سن کر بہت خوشی ہوئی۔ ریکارڈ عرصے میں اِس منصوبے کے خدوخال عملی شکل بھی
دھار گئے لیکن پھر ایک صاحبِ اختیار نے اِس منصوبے اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ وہ کچھ کیا جو سبھی کو خون کے آنسو رلانے کے لیے کافی تھا۔ انہیں اِس بات پر اعتراض تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو 12 لاکھ روپے تنخواہ کیوں دی جارہی ہے۔ ان کے نزدیک یہ تنخواہ بہت زیادہ تھی لیکن سنانے والے سناتے ہیں کہ یہ سب کچھ بہانہ تھا اور اندرونِ خانہ کہانی کچھ اور تھی۔ پی کے ایل آئی وہ انسٹیٹیوٹ ہے جہاں بشمول ٹرانسپلانٹیشن، جگر اور گردوں کا مکمل علاج فراہم کیا جانا تھا۔ 2030ء تک ملک سے ہیپاٹائٹس بی اور سی کا مکمل خاتمہ بھی اس منصوبے کا حصہ تھا لیکن سب کا ختم ہو کر رہ گیا۔اگر اب عوام کی جیب میں ساٹھ سے ستر لاکھ روپے ہیں تو چین یابھارت جا کر علاج کروائیں ورنہ یہاں سسک سسک کر مریں۔ وہ صاحب جنہیں ڈاکٹر صاحب کی 12 لاکھ روپے تنخواہ پر اعتراض تھا، ذرا ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کی مراعات پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ تنخواہ کا 85فیصد بطور پنشن‘ جو تقریباً 10 لاکھ روپے کے قریب ہے‘ وہ انہیں ملتا ہے، اس کے علاوہ متعدد دیگر مراعات بھی پیکیج کا حصہ ہیں۔ واقفانِ حال کے مطابق اِن صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی یہ تمام انتظامات کرلیے تھے۔ وزارتِ خزانہ اور وزارتِ قانون کی ہچکچاہٹ کے باوجود حکومت نے ان مراعات کی سمری منظور کرلی تھی۔ آج یہ اپنا کردار ادا کرکے وقت کی گرد میں گم ہوچکے لیکن پی کے ایل آئی کا جو حشر ہوا ہے، اُس کا اندازہ انسٹیٹیوٹ کی حالتِ زار اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔ بیرونی ممالک سے ملک کی خدمت کیلئے پاکستان آنے والے ڈاکٹرز میں سے بیشتر واپس جاچکے ہیں۔
یہ ہیں ہم، ہماری باتیں اور ہمار ا عمل۔ بس ایک مرتبہ طاقت ہاتھ میں آجائے‘ پھر کہاں کا قانون اورکون سی اخلاقیات۔ پونے تین سالوں کے دوران ایک ہی بیان بار بار سننے کو ملا ہے کہ این آراو نہیں دیا جائے گا، بدعنوانی اور کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے گا لیکن حالات ہیں کہ بد سے بد تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک طرف یہ باتیں ہیں اور دوسری طرف انرجی سیکٹر، چینی، آٹے کے بحران اور مہنگائی کا تازیانہ۔ یہ سچ ہے کہ جانے والے دودھ کے دھلے نہیں تھے لیکن تب صورتحال کم از کم ایسی نہیں تھی جو اِس وقت پیدا ہوچکی ہے۔ جب سب کچھ ہوجاتا ہے تو ایک بیان آتا ہے کہ حکومت کو گمراہ کیا گیا، غلط بریفنگ دی گئی، ڈالر کی قیمت کو پَر لگتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اخبار پڑھ کر معلوم ہوا۔ پہلے بھارت سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر خود ہی برہمی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ خود ہی شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی منطوری دی اور خود ہی اعتراضات کیے جاتے ہیں، یہ بات کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ نواز شریف حکومتی رضامندی کے بغیر ملک سے باہر نہیں جاسکتے تھے لیکن بعد میں جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغانستان جیسے ملک نے ہمارے پارلیمانی وفد کو اپنے ملک میں اُترنے کی اجازت نہیں دی لیکن حکومتی دعووں اور بیانات میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم بحیثیت قوم شاید یہ تہیہ کر چکے ہیں کہ زندگی جھوٹ کے سہارے گزارنی ہے۔ ''اے مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے‘‘۔ (القرآن)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں