"FBC" (space) message & send to 7575

فرض شناس

لاہور اور قصور کے درمیان گھومتی ہوئی یہ کہانی بہت سی ایسی کہانیوں میں سے ایک ہے جو ہمارے اردگرد تسلسل کے ساتھ گردش میں رہتی ہیں۔ ان کہانیوں میں کہیں پولیس کی دھونس‘ قبضہ مافیا کی کارستانیاں اور اُن کی پشت پناہی کرنے والوں کا کردار نظرآتا ہے تو کہیں کچھ پولیس افسران کے کردار کی عظمت کی جھلک بھی نظرآتی ہے۔ آپ یہ داستان پڑھیے اور خود اندازہ لگائیے کہ کچھ کرگزرنے کی طاقت نہ رکھنے والوں کو کیسی کیسی اذیتوں سے گزرنا پڑرہا ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب یہ کہانی ہمارے سامنے آئی تو جبلت سے مجبور ہو کر اس کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کی۔ معلوم ہوا کہ جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے وہ حرف بحرف درست ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہانی کا آغاز کہاں سے کیا جائے لیکن کوشش کرتے ہیں۔
ڈیفنس لاہور کے رہائشی مسٹر آرنے تمام عمر شادی نہیں کی تھی‘ اُن کا ایک ہی بھائی تھا اور وہ بھی شادی کے بغیر ہی انتقال کرگیا جس کے بعد دونوں کی جائیداد کے وارثان ان کی دونوں بہنوں کی اولا د بنی۔ مسٹر آر ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے سے ریٹائر ہوئے تھے اور اپریل 2020ء میں ان کا انتقال ہوا۔ اُن کے انتقال کے بعد جب اُن کے ورثا نے مسٹر آر کے دیرینہ ملازم ''ایچ‘‘ اور اُس کے دونوں بیٹوں سے رہائش گاہ خالی کرنے کا تقاضا کیا تو اُنہوں نے ایک ہفتے میں گھر خالی کرنے کا وعدہ کیا لیکن بعد میں یہ ملازمین 1995ء کا ایک اشٹامپ پیپر سامنے لے آئے کہ اُنہوں نے تویہ گھر مسٹر آر سے 1995ء میں خرید لیا تھا۔ اسی اشٹامپ پیپر کی بنیاد پر اُنہیں سٹے آرڈر بھی مل گیا جس کے بعد وہ مسٹر آر کی گاڑی بھی جعلسازی سے اپنے نام کرا لیتے ہیں۔ ورثا محکمہ ایکسائز سے رجوع کرتے ہیں اور جب تحقیقات ہوتی ہیں تو جعلسازی ثابت ہوجاتی ہے جس پر ان ملازمین میں سے ایک کے خلاف لاہور میں مقدمہ درج ہوجاتا ہے۔ اس پر ملازمین ورثا میں سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے والے نوجوان ''مسٹر این‘‘ کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کرتے ہیں کہ مسٹر این نے اُن سے زبردستی گاڑی‘ لیپ ٹاپ‘ موبائل فون اور نقدی چھین لی ہے۔ عدالت کی طرف سے یہ درخواست پولیس کو تفتیش کے لیے بھجوا دی جاتی ہے۔ پولیس تحقیقات کے بعد رپورٹ جمع کراتی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا جس پر درخواست خارج ہوجاتی ہے۔ اس ایک واقعے سے اندازہ لگا لیں کہ اس دوران ورثا کو کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا لیکن کہانی یہیں پرختم نہیں ہوتی۔
قصور سے تعلق رکھنے والے یہ ملازمین لاہور میں ناکام ہونے کے بعد قصور میں ایک بااثر وکیل سے رابطہ کرتے ہیں جس کی '' کاوشوں‘‘ کے نتیجے میں مسٹر این اور اُن کے بھتیجے مسٹر اے کے خلاف قصور کے ایک تھانے میںڈکیتی‘ اغوااور فائرنگ کا مقدمہ درج ہوجاتا ہے جن کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے‘ وہ سرے سے ہی اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اب کہانی آگے بڑھتی ہے اور جیسے ہی حکومت کی طرف سے عید (2020ء )کی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہے تو یہ پورا گینگ حرکت میں آجاتا ہے اور لاہور میں مسٹر این کو گھر میں گھس کر گرفتا ر کرکے قصور کی طرف روانہ ہوجاتا ہے۔ راستے میں اس نوجوان کوقبضہ گروپوں کی پرائیویٹ کار میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنانے اور تصفیہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اپنی کوشش میں ناکامی کے بعد وہ اسے دوبارہ پولیس کے حوالے کردیتے ہیں جو اسے لے کر تھانے روانہ ہوجاتی ہے۔ یہ ساری کہانی آپ کو مروجہ نظام کو پوری طرح سمجھنے میں معاون ثابت ہو گی۔ سچی بات ہے کہ یہ تمام احوال سنتے ہوئے میں خود بھی دم بخود تھا کیونکہ میرے پاس کہانی سنانے والوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
خیر یہاں سے کہانی کا مثبت پہلو شروع ہوتا ہے۔ ا س نوجوان کی خوش قسمتی رہی کہ اس کی اہلیہ کسی ذریعے سے قصور کے ڈی پی او سے فون پر رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ خاتون نے جب ڈی پی او کو مختصراً تمام احوال بتایا تو وہ سمجھ گئے کہ اس فریق کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ انہوں نے فورا متعلقہ ایس ایچ او سے رابطہ قائم کیا اور اُسے حکم دیا کہ ملزم اور مدعی پارٹی کو لے کر سیدھے ڈی پی او ہاؤس آجائے۔ یہ حکم سنتے ہی مدعی پارٹی غائب ہوگئی اور پولیس مسٹر این کو لے کر ڈی پی او ہاؤس پہنچ گئی۔ ڈی پی او قصور نے خود اس نوجوان سے پوری کہانی سنی۔ اس دوران مسٹر این کی اہلیہ نے تمام کاغذات بھی ڈی پی او صاحب کو وٹس ایپ کردیے۔ ڈی پی او صاحب نے جب متعلقہ اہلکاروں سے پوچھا کہ سچ سچ بتائو کہ اغوا اور ڈکیتی وغیرہ کا وقوعہ پیش آیا تھا یا نہیں؟تفتیشی نے معافی مانگتے ہوئے تسلیم کر لیا کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ اُس نے توجیہ پیش کی کہ یہ سب کچھ قصور کے ایک بااثر شخص کے دباؤ کی وجہ سے کرنا پڑ ا۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ جس جگہ اغوا کا واقعہ پیش آنے کا ڈرامہ رچایا گیا تھاوہ جگہ قصور سے بھی 20کلومیٹر نواح میں واقع تھی۔ ڈی پی او صاحب نے استفسار کیا کہ مدعی پارٹی کے جس شخص کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے وہ تو لاہور میں رہتا ہے تو پھر اُسے اغوا کرنے کے لیے اِنہیں قصور آنے کی کیا ضرورت تھی؟ بہرحال دوچار سوالات کے نتیجے میں ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا جس پر ڈی پی او نے سخت ایکشن لیا اور فوری طور پر قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد مقدمہ خارج کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے قصور وار پولیس اہلکاروں کی بھی سخت سرزنش کی اور جھوٹا مقدمہ درج کرانے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ معلوم نہیں مسٹر این کی کون سی نیکی اُس کے کام آگئی تھی جو وہ مزید ذلیل وخوار ہونے سے بچ گیا۔
اب یہاں پر بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ مقدمہ درج ہوئے تو دوماہ ہوگئے تھے تو پھر نامزد فرد کو گرفتار کرنے کیلئے چھٹیوں کو ہی کیوں منتخب کیا گیا۔ اس لیے کہ جب اُس کے اہل خانہ کو ہرروز لاہور سے قصور جانا پڑے گا تو اُنہیں لگ پتا جائے گا۔ پھر بااثر شخص وہاں اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے مزید رکاوٹیں کھڑی کرسکے گا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسٹر این کی اہلیہ کا بروقت ڈی پی او قصور سے رابطہ نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ یہ کہانی سن کر جہاں پولیس کے کچھ اہلکاروں اور قبضہ مافیا کی پشت پناہی کرنے والے افراد کی بابت جان کر شدید افسوس ہوا‘ وہیں پر ڈی پی او قصور کی کاوش نے دل باغ باغ کردیا۔ اس نوجوان ڈی پی او نے نہ صرف خاتون کا فون سنا بلکہ ذاتی دلچسپی لے کر اُس پر فوری کارروائی بھی کی۔ اگر وہ اس معاملے کی طرف توجہ نہ دیتے تو ہوسکتا ہے کہ مجبور ہو کر نوجوان اور اس کے اہل خانہ مقدمہ درج کرانے والوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے۔ اب اس کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ ایسے ہی پولیس افسران محکمے کی شان ہیں۔ جب یہ تمام کہانی ہمارے سامنے آئی تو اس کی بابت لکھنے سے پہلے ہم نے ڈی پی او قصور سے بھی بات کرکے ان تمام باتوں کی تصدیق کی۔ جب اُن سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ پکڑے جانے والے نوجوان اور اُس کے اہل خانہ کو جانتے تھے؟ اُن کا جواب تھا کہ ہرگز نہیں! تو پھر آپ نے کیوں یہ تمام سردرد لی؟ اس پر اُنہوں نے جو جواب دیا اُسے سن کر روح سرشار ہوگئی۔ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے مختصراً جواب دیا کہ میں نے کسی کیلئے کوئی سردرد نہیں لی اور نہ ہی کسی پر کوئی احسان کیا ہے‘ یہ میرا فرض تھا جسے میں نے نبھایا۔ مجھے تو اس پر افسوس ہے کہ ایک بے گناہ کو اتنی بھی زحمت کیوں اُٹھانا پڑی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں