"FBC" (space) message & send to 7575

کسی نے کوئی سبق سیکھا؟

13ویں صدی کے آغاز پر‘ شمال مغربی ایشیا کی چراگاہوں سے ایک ایسی آندھی اُٹھی جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنگیز خان کی قیادت میں منگول افواج نے دیکھتے ہی دیکھتے ملکوں کے ملک فتح کرلیے۔ ایک آدھ عشرے کے دوران ہی یہ منگول انسانی کھوپڑیوں کے مینار بناتے، خون کی ہولی کھیلتے بیجنگ سے ماسکو تک پھیلی ایک بڑی سلطنت کے مالک بن گئے۔ ایک اندازہ ہے کہ اپنے عروج کے دور میں منگولوں جیسی وسیع سلطنت کی تاریخ انسانی میں شاید ہی کوئی دوسری مثال ملتی ہو۔ طاقت کے حصول اور بڑی سلطنت کے خواب کی تکمیل کے لیے منگولوں نے لگ بھگ چار کروڑ ہنستے بستے انسانوں کو خاک و خون میں نہلا دیاتھا۔ چنگیز خان کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے زیادہ تر چینی اور مسلمان تھے۔ تاریخ انسانی کا یہ ظالم ترین انسان اپنے وقت پر دنیا سے خالی ہاتھ چلا گیا کہ موت کے بعد دولت رہی نہ طاقت۔ کئی سالوں کے بعد چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے اپنے دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دوبارہ سے بڑے پیمانے پر خون کی ہولی کھیلنا شروع کردی۔ یہ ہلاکو خان ہی تھا جس نے پہلے ایران میں اسماعیلی حکومت کو ختم کیا اور اس کے بعد بغداد کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ بغداد کے ساتھ بصرہ اور کوفہ جیسے عظیم ترین شہر بھی برباد کر دیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ 1258ء میں ہلاکو خان کے ہاتھوں برباد ہونے کے بعد بغداد پھر کبھی وہ بغداد نہ بن پایا جہاں علم وحکمت کے دریا بہا کرتے تھے۔ یہ شہر اپنے زمانے میں دنیا کا ترقی یافتہ ترین شہر تھا۔ یہ وہ شہر تھا جو وسیع و عریض مساجد، بے شمار لائبریریوں اور اپنی علم دوستی کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ ایسا شہر جہاں مترجمین کو معاوضہ کتابیں تول کر سونا کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا لیکن اِس بے مثل شہر کو بھی آگ اور خون میں نہلا دیا گیا تھا۔ کچھ اِس طرح سے کہ مؤرخ عبداللہ اوصاف شیرازی کی ایک تحریر کے مطابق: منگول بھوکے گدھوں کی طرح بپھر گئے، کچھ اِس طرح سے کہ جیسے بھوکے بھیڑئیے بھیڑوں پر ہلہ بول دیتے ہیں، حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور اُن میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی، دولت کی تلاش کے لیے تکیوں اور بستروں تک کو پھاڑ دیا گیا، تقریباً دس لاکھ کے قریب انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا‘ اور اس دوران مردوں، بچوں اور خواتین کے حوالے سے کوئی امتیاز نہیں برتا گیا۔،، پھر یہ ظالم انسان بھی اپنے وقت پر دنیا سے خالی ہاتھ ہی چلا گیا کہ مرنے کے بعد دولت رہی نہ طاقت۔
تاریخ انسانی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب حصولِ اقتدار اور طاقت کے لیے انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ بھائی نے بھائی کا گلا کاٹا اور باپ نے بیٹوں کو سولی پر چڑھا دیا۔ تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ جب کوئی نیا حکمران آتا تو اُس کے سبھی بھائیوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا۔ 1595ء کے ایک تاریخی دن کی روداد تو کتابوں میں کثرت سے ملتی ہے۔ یہ وہ دن تھا جب سلطان مراد سوم کے انتقال کے بعد اُس کے ایک بیٹے محمت (محمد) کو حکمران بنانے فیصلہ ہوا تھا۔ جس روز اُس کی بطورِ حکمران قسطنطنیہ کے شاہی محل میں آمد ہوئی‘ اُسی روز محل سے 19 شہزادوں کے جنازے نکلے۔ کبھی موقع ملے تو جیسن گڈون کی کتاب ''لارڈز آف دی ہورائزنز‘‘(مشرق اور مغرب کے آقا)کا مطالعہ کیجئے جس میں اِس روایت کے بارے میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اگر ہم اپنے خطے کی مثال لیں تو اورنگ زیب عالمگیر اور دارا شکوہ کے درمیان جو کچھ ہوا‘ وہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ جب اِن دونوں کے والد شاہ جہاں نے اقتدار سنبھالا تھا تو پہلے ہی روز اس نے اپنے دوبھائیوں‘ خسرو اور شہریار کی موت کا پروانہ جاری کردیا تھا۔ یہی کچھ اورنگ زیب عالمگیر نے داراشکوہ کے ساتھ کیا۔ جب دونوں کے مابین ہونے والے فیصلہ کن معرکے میں داراشکوہ کو شکست ہوگئی تو اُسے قتل کرانے کے بعد اُس کی لاش کے چار ٹکرے دلّی کے چاروں کونوں پر لٹکا دیے گئے جو کئی روز تک وہاں لٹکے رہے۔ ''ٹریول اِن مغل انڈیا‘‘ کے مصنف فرانسواں کے مطابق‘ قتل کرنے سے پہلے دارا شکوہ کو اُس کے بیٹے کے ساتھ ہاتھی پر بٹھا کر انتہائی بیہودہ انداز میں دہلی میں گھمایا گیا اور پھر قتل کرنے کے بعد اُس کا سر شاہ جہاں کو تحفے کے طور پر پیش کیا گیا۔
جدید دور پر نظر دوڑائی جائے تو سٹالن میں چنگیزاور ہلاکو دکھائی دیتے تھے۔ بعض صورتوں میں تو یہ شخص چنگیز اور ہلاکوخان کو بھی مات دیتا دکھائی دیتا ہے۔ سٹالن روس (تب سوویت یونین) کی کمیونسٹ پارٹی کا رہنما تھا۔ یہ پیدائشی طور پر مسیحی تھا مگر بعد میں سوشلسٹ اور پھر ملحد ہوگیا۔ محلاتی جوڑ توڑ کے بعد یہ سوویت یونین کا حکمران بنا تو اِس نے ظلم وستم کا ایسا بازار گرم کیا کہ لوگ آج بھی اِس کے ظلم کی داستانیں سن کر کانپ اٹھتے ہیں۔ پہلے اِس نے اقتدار حاصل کرنے کے تمام تر منفی حربے استعمال کیے اور پھر اِسے قائم رکھنے کے لیے اندازاً چھ کروڑ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ یہ کوئی صدیوں پرانے دور کی بات نہیں‘ لگ بھگ اسی‘ نوے سال پہلے ظلم کا یہ کھیل کھیلا جارہا تھا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے اِس شخص نے اپنی '' شاندار زرعی پالیسی‘‘ متعارف کرائی۔ اِس کا دعویٰ تھا کہ اِس پالیسی کے نتیجے میں سوویت یونین میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی لیکن عملاً یہ ہوا کہ پورے ملک کا پیداواری عمل ہی تہ و بالا ہوکر رہ گیا۔ اِن پالیسیوں کی وجہ سے سوویت یونین میں انتہائی خوفناک قحط پھیلا اور لاکھوں لوگ اِس قحط کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن اِس کا اقتدار اور طاقت قائم رہی۔ 1930ء کی دہائی میں اِس نے'' عظیم صفائی‘‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی جس میں اپنے مخالفین کو چن چن کر جیلوں میں ڈالا یا انہیں قتل کرا دیا۔ اِسی مہم کے دوران‘ جبری مشقت کے گلاگ کیمپوں نے بہت شہرت حاصل کی تھی جہاں اِس کے مخالفین سے سخت ترین مشقت لی جاتی تھی۔ تاریخ دانوں کے مطابق اِن کیمپوں میں 20سے 30لاکھ کے قریب مخالفین موت کی نیند سلا دیے گئے تھے۔ اس کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے اگر قتل ہونے سے بچ جاتے تو اُنہیں جلاوطن کردیا جاتا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اِس نے اپنے حوالے سے پائے جانے والے تاثر کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دیں مگر ناکام رہا۔ پھر جب اِس کا وقت آیا تو اقتدار باقی رہا نہ طاقت۔ سب کچھ خاک میں مل گیا اور وہ بھی اِس طرح کہ اِس کے مرنے کے بعد نئی حکومت نے سٹالن کے اقدامات کی اعلانیہ مذمت کی۔
حصولِ اقتدار یا طاقت کے لیے آج بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے، محض انداز ہی تبدیل ہوئے ہیں۔ آج اگر بدلے ہوئے وقت کے باعث مخالفین کو آسانی سے قتل کرادینا ممکن نہیں رہا تو اُنہیں دبانے کے لیے دوسرے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ آج بھی اپنے اردگرد رہنے والوں کو ویسے ہی نوازا جاتا ہے جیسے شہنشاہ نوازا کرتے تھے۔ آج بھی اپنے مخالفین کو جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے لیکن جرم کرنے کے باوجود قریبی ساتھیوں پر دست شفقت رکھا جاتا ہے۔ پہلے بھی حصولِ اقتدار کے لیے ہرحربہ استعمال کرنے کو جائز سمجھا جاتا تھا اور آج بھی یہی چلن ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری حکومت ہمیشہ کے لیے ہے نہ ہمیں حاصل ہونے والی طاقت ابدی ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم سے پہلے طاقتور باقی رہے نہ ہم نے سدا رہنا ہے لیکن پھر بھی ہم سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہرکوئی یہی سمجھتا ہے کہ اگر آج وہ اقتدار میں ہے تو مرتے دم تک کوئی اُسے اقتدار سے محروم نہیں کرسکتا۔ وہ اسکندر مرزا‘ جنہوںنے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ملک میں جمہوریت کو ڈیل ریل کرنے کی ابتدا کرتے ہوئے اسے آمریت کے گڑھے کی طرف دھکیلا ‘ جب ایک روز نیند سے بیدار ہوئے تو ایوانِ صدر گھیرا جاچکا تھا‘ اُنہیں متنبہ کیا گیا کہ آپ کو ایک گھنٹے کے اندر اندرملک چھوڑنا پڑے گا۔ جب استفسار کیا گیا کہ مجھے کیوں ملک چھوڑنے کے لیے مجبور کیاجارہا ہے تو جواب ملا کہ ''ملکی مفاد‘‘۔ پھر وہ تمام عمر برطانیہ سے پاکستان نہیں آسکے۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا اُن کے بعد آنے والوں نے اِس سے کچھ سبق سیکھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں