"FBC" (space) message & send to 7575

غیریقینی کی دھند

خدائے بزرگ و برتر ہی بہتر جانتا ہے کہ آگے چل کر یہ حالات ہمیں کیا رنگ دکھانے والے ہیں۔ ہم جیسے کم عقلوں کی تو سمجھ بوجھ ہی جواب دے گئی ہے۔ ہم خود کو بہت علم والا سمجھتے تھے لیکن اب تو ہم سے بڑا کوڑھ مغزدنیا میں کوئی اورنہ ہوگا۔ ہم آنکھوں میں معلوم نہیں کیسے کیسے سپنے سجائے ہوئے تھے لیکن اب تو اِن ٹوٹے ہوئے سپنوں کی کرچیاں بھی نہیں گن پا رہے ۔ کوئی صاحبِ خرد ہی ہماری رہنمائی فرمائے کہ آخرملک میں ہو کیا رہا ہے؟ کوئی تو ہمیں بتائے کہ آخر ہم کرنا کیا چاہ رہے ہیں؟ بس یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے کہ سو دُرے بھی کھائے جارہے ہیں اور سو پیاز بھی۔ اگر آپ نے یہی سب کچھ کرتے رہنا ہے تو اخلاقیات کے درس دینا بند کر دیں‘ قانون کی بالادستی کی باتیں مت کریں‘ دوسروں سے قربانی دینے کے لیے مت کہیں۔ اب تو یہ عالم ہوچکا کہ وزیراعظم صاحب جب بھی براہ راست قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے ان سے خطاب کرتے ہیں تو نئے خدشات سراُٹھانا شروع ہوجاتے ہیں۔ اب کے بھی یہی ہوا کہ قوم سے خطاب کے فوراً بعد مہنگائی کا ایک نیا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ البتہ اِس مرتبہ اتنا فرق ضرور رہا کہ اُنہوں نے پہلے ہی قوم کو آگاہ کردیا تھا کہ پٹرول کے نرخ بڑھاناپڑیں گے اور عوام کو سردیوں کے دوران گیس کی قلت کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیاررہنا چاہیے۔ مطلب اِس مرتبہ اُنہوں نے اتنا کرم ضرورکیا کہ قوم کوآنے والی مصیبتوں سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ اپنے اِسی خطاب کے دوران اُنہوںنے ''تاریخ کے سب سے بڑے‘‘ ریلیف پیکیج کا اعلان بھی کیا ۔ اِس پروگرام کے مطابق مختلف اشیا پر 120 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ قوم کو بتایا گیاہے کہ یہ سبسڈی آٹے، گھی، چینی اور دیگر اشیائے صرف کی خریداری کے لیے دی جائے گی جس سے دوکروڑ خاندان مستفید ہوں گے۔ اب اگر ایک خاندان میں پانچ افراد ہوں تو سبسڈی سے مستفید ہونے والوں کی تعداد 10کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اب اگر حساب کتاب کیا جائے تو چھ مہینوں کے لیے 10کروڑافرادکو ملنے والی یہ امداد چند سو روپوں سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اب یہ تو حکومتی زعما ہی بتا سکتے ہیں کہ ''اتنی زیادہ‘‘ امداد سے مستحقین کیونکر اور کیسے فائدہ اُٹھا سکیں گے؟ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ابھی محترم وزیراعظم کے قوم سے خطاب کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں پھر آٹھ روپے سے زائد کا اضافہ کردیا گیا۔ وہ چینی جو گزشتہ دورِ حکومت میں 55روپے فی کلو میں ملا کرتی تھی‘ اب وہ140سے 145روپے کلوتک جا پہنچی ہے۔ کسی چیز پر حکومت کا کوئی کنٹرول دکھائی نہیں دے رہا۔ اب تو یہ الفاظ بھی پرانے ہوچکے ہیں کہ فلاں اشیا کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب ڈالر سمیت ہرچیز کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح تک جاپہنچے ہیں۔
پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران کم آمدنی والے افراد کے ساتھ کثرت سے واسطہ پڑتا ہے۔ اِن رابطوں کے دوران کئی مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب ہماری آنکھوں میں نمی اُتر آتی ہے کہ لوگ کس عذاب میں زندگی بسرکررہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جن کے پاس پیسے نہیں ہوتے‘ اُن کے لیے ہمیشہ مہنگائی رہتی ہے اور جن کی جیبیں بھری ہوتی ہیں، اُن کے لیے مہنگائی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ مہنگائی کے باعث مزید کتنے افراد غربت کی لکیرسے نیچے چلے جاتے ہیں۔ جب مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے تو مزید کتنے شہریوں کی قوتِ خرید میں کمی ہوجاتی ہے۔ اگر موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ خون کے آنسو رلا دینے کے لیے کافی دکھائی دیتی ہے۔ اِن حالات میں ایک ''پھوکا‘‘ سا ریلیف پیکیج دینے کی بات کی گئی ہے لیکن اِس کا کوئی واضح میکنزم ابھی تک نہیں بنایا جاسکا۔ معلوم نہیں یہ کیساریلیف پیکیج ہے جس کے اعلان کے ساتھ ہی مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اِس تمام صورت حال نے شدید بے یقینی کی فضا پیدا کررکھی ہے۔ اگرچہ اب تک تو ہمیں ایسے حالات کا عادی ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایک آس اُمید ہمیشہ رہتی ہے کہ شاید اب حالات بہتر ہوجائیں یا تب بہتر ہوجائیں۔ اُفسوس کہ ایسی کوئی بھی اُمید پوری ہوسکی نہ ہی پوری ہونے کی کوئی اُمید نظر آرہی ہے۔ بس بیانات کی ایک گردان ہے جو دن رات سننے کو ملتی رہتی ہے۔ اب تووہ صاحبان بھی دکھائی نہیں دے رہے جو کبھی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کرکے معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا کرتے تھے۔
ایک طرف یہ سارا سلسلہ چل رہا ہے تو دوسری طرف کالعدم تنظیم کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ تنظیم کے ساتھ جڑے لفظ کالعدم کو ہٹانے کی منظوری بھی دی جاچکی ہے اور گرفتا ر کیے گئے کارکنوں کی بڑی تعداد کو رہا کیا جاچکا ہے جبکہ فورتھ شیڈول میں شامل تنظیم سے وابستہ متعدد افراد کے نام بھی نکال دیے گئے ہیں یااِنہیں نکالے جانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ اُس وقت کیا گیا جب پورا ملک کئی روز تک انتہائی بے یقینی کا شکار رہا۔ متعدد افراد اپنی جانوں سے گئے اوربے شمار املاک کونقصان پہنچا۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اگر چھ ماہ پہلے یہ معاملات طے پاچکے تھے تو جن جن کو رہا کرنا تھا‘ اُسی وقت کردیتے۔ جن جن کے نام فورتھ شیڈول سے نکالنا تھے، پہلے ہی نکال دیتے۔ اب جب پانی سر سے گزر گیا اور لاہور سے اسلام آباد تک سب کچھ داؤ پر لگ گیا تب کم و بیش وہی سب کچھ کیا جارہا ہے جو چھ ماہ پہلے آرام سے کیا جاسکتا تھا۔ بہرکیف اب ایک پراسرار معاہدہ طے پاچکا ہے جس کے بعد حالات معمول پر آ رہے ہیں، گزشتہ روز تنظیم نے وزیرآباد میں جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا ؛ تاہم یہ صورتحال اُن کے لیے تو بالکل بھی اچھی نہیں جو مذکورہ تنظیم کو ملک دشمن قرار دینے پر تلے ہوئے تھے بلکہ اُن پر غیرملکی فنڈنگ کا الزام بھی عائد کردیا گیا تھا۔ بعد میں ان کے لیے صورتحال یہ بن گئی کہ اُنہیں مذاکرات میں شامل کرنے کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ احتجاج کے معاملے میں حکومت نے درست حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ جب اِس قابل نہیں تھے کہ معاملات کو سنبھال سکیں تو پھر کیوں اتنے دنوں تک ریاست کی رِٹ قائم رکھنے کی رَٹ لگائے رکھی؟ اتنی بڑی بڑی باتیں کرنے سے پہلے اپنی طاقت کا جائزہ لے لینا چاہیے تھا۔ لاہور میں جن پولیس افسران کو حکومتی رِٹ کا تحفظ کرنے کا ذمہ دار بنایا گیا تھا‘ اب اُن میں سے اکثریت کو احتجاج کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کے الزامات پر عہدوںسے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بیشتر صورتوں میں انتظامیہ حکومتی ہدایات کی روشنی میں اپنی حکمت عملی ترتیب دیتی ہے‘ یقینا احتجاج کے دوران بھی یہی کچھ ہوا ہوگا تو پھر سزا صرف پولیس افسران کو ہی کیوں؟ دراصل یہی وہ چلن ہے جس سے ریاست کی رِٹ حقیقی معنوں میں متاثر ہوتی ہے۔ حکومتی رویہ ایک طرف‘ احتجاج کرنے والوں نے بھی کوئی احسن مثالیں قائم نہیں کیں۔ بہرحال اب معاہدے کے بعدمارچ رک چکا اور دھرنا ختم ہو چکا ہے لیکن جو پولیس اہلکار یا مظاہرین اس دوران اپنی جانوں سے گئے‘ اُن کے ورثا کن کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کریں؟ اِس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ آئندہ ایسی کوئی صورت حال پیدا نہیں ہوگی کہ یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اِنہی حالات کے باعث تو ہمارے ہاں ہمیشہ بے یقینی کی سی کیفیت رہتی ہے لیکن اب کے تو یہ دھند بہت ہی گہری ہوچکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں