"FBC" (space) message & send to 7575

جب سر پر پڑتی ہے

یہی المیہ ہے ترقی پذیرممالک کا!وہاں جو بھی حکومت برسراقتدارآتی ہے‘ اُس کا مطمح نظر صرف طوالتِ اقتدارہی ہوتا ہے۔ عوام تو اُس کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں جن کی کوئی قدر و اہمیت نہیں ہوتی۔ اِس تناظرمیں ہم اکثراپنے ملک کاروناروتے رہتے ہیں لیکن دیگر ترقی پذیر ممالک کی صورت حال بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بیشتر صورتوں میں اِن میں سے کوئی بھی دوسروں کے تجربات سے کچھ سیکھنا نہیں چاہتا؛ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ سیکھنے کوکہیں سے بھی ملے‘ کچھ نہ کچھ عقل کی بات سیکھ لینی چاہیے۔ یوں بھی ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ عقل مند وہی ہوتا ہے جو دوسروں کے تجربات سے سیکھتا ہے‘ لیکن کیا کیا جائے‘ طاقت کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ جب تک ہاتھ میں طاقت اور چھڑی رہتی ہے‘ تب تک سب خود سے کم تر دکھائی دیتے ہیں۔ جس کو جی چاہے زنداں میں پھینک دو‘ عوام سے خوش کن وعدے کرو لیکن جب سر پر پڑے تو پھر یوٹرن لے لینا بھی اپنے ہی اختیار میں ہوتا ہے۔ آج کل ترقی پذیر دنیا میں یہ سب کچھ اتنی کثرت سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ ماضی میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ویسے تو ترقی یافتہ ممالک بھی اس ضمن میں کچھ خاص ممتاز نہیں لیکن ہمارے جیسے ممالک میں تو صورت حال زیادہ ہی دگرگوں دکھائی دیتی ہے۔ دیکھا جائے تواِس تناظر میں بھارت اورہم شانہ بشانہ ہی چلتے دکھائی دے رہے ہیں‘ بس انداز ذرا مختلف ہے۔
گزشتہ سال بھارتی حکومت کی طرف سے کچھ زرعی قوانین متعارف کرائے جاتے ہیں۔ تین قوانین کے حوالے سے کسانوں کوخوف لاحق ہوجاتا ہے کہ اِن کے لاگوہونے کے بعد وہ سرمایہ داروں کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ کسان کے دلوں میں یہ بات گھر کرگئی تھی کہ منڈیوں کو توڑا جارہا ہے۔ ان میں ڈر پیدا ہوجاتا ہے کہ اِن قوانین کے نتیجے میں جب منڈیاں ختم ہوجائیں گی تو بھارتی کسان اپنی زرعی اجناس کو اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کرنے کے حق سے محروم ہوجائے گا۔ وہ سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر ہوگا جو اُن سے اپنی پسند کے نرخوں پر اجناس خریدیں گے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ بھارت کے کسان اِن قوانین کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ایک بے مثال احتجاجی تحریک جنم لیتی ہے۔ پورے بھارت کے کسان ایک طرف جہاں اپنے اپنے علاقوں میں احتجاج کرتے ہیں تو وہیں اِن کی ایک بہت بڑی تعداد دہلی کے گردونواح میں جا کر پڑاؤ ڈال لیتی ہے۔ اِسی دوران چند ایک مواقع پر یہ شہر کے اندر داخل ہوکر لال قلعے تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اگرچہ بھارت میں کسانوں کے احتجاج کی تحریک بہت پرانی ہے لیکن اِس طرح کا احتجاج 32برس پہلے دیکھنے میں آیا تھا۔ احتجاج کے دوران بلاشبہ لاکھوں بھارتی کسان سڑکوں پر آئے ۔ آج اِس احتجاج کو شروع ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اِس دوران بھارتی کسانوں نے موسم کی سختیاں برداشت کیں‘ برصغیر کی روایات کے مطابق غداری کے الزامات بھی سہے۔ فارن فنڈنگ کی باتیں بھی ہوتی رہیں اور سکھ کسانوں کو ''خالصتانی‘‘ بھی کہا جاتا رہا۔ حکومتوں کا وہی پرانا حربہ کہ جب کہیں بس نہ چلے تو مخالفین کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے ڈالو۔ بے شمار کسانوں پر مقدمات قائم کیے گئے اور اِس دوران آٹھ سو کے قریب کسانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ مودی حکومت خیال کرتی تھی کہ اتنا بڑا احتجاج زیادہ عرصے تک نہیں چلے گا اِس لیے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائی جاتی رہی۔ کسان بھی اپنی دھن کے پکے نکلے جنہوں نے ثابت کردکھایا کہ انسان حق پر ہو تو پھر وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ بالآخر ایک سال سے زائد عرصے بعد‘ بھارتی حکومت نے متنازع زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کردیا ہے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ اِس ماہ کے آخر میں ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کا آئینی عمل مکمل کرلیا جائے گا۔
آخر ایساکیا ہوا کہ ایک سال تک معاملے کو لٹکائے رکھنے کے بعد بھارتی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے؟پہلی بات تو یہ کہ تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتیں ہمیشہ سے ہی ایسی پالیسیوں پر عمل کرتی آئی ہیں۔ جب تک مخالف سہتا رہا‘ تب تک آنکھیں دکھاتے رہے اور جب مخالف زیر ہوتا دکھائی نہ دیا تو خود گھٹنے ٹیک دیے۔ اِس طرح کے مظاہرہمارے ہاں بھی اتنی کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اِن میں ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں رہ گئی۔ ایک تازہ مظاہرہ تو گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا جب ایک تنظیم کے کارکنان اپنے مطالبات کے حق میں پنڈی میں دھرنا دینے کے لیے نکلے اور ابھی لاہور سے وزیرآباد تک ہی پہنچے تھے کہ حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ اِس سے پہلے مظاہرین کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا جاتا رہا۔ اِنہیں روکنے کے لیے کیسے کیسے انتظامات نہیں کیے گئے لیکن جب پانی سر سے گزرتا دکھائی دیا تو رِٹ کی رَٹ نے دم توڑتے ہوئے زیادہ وقت نہیں لیا۔ جان سے جانے والے افراد کے لواحقین ابھی تک یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اُن کے پیاروں کا کیا قصور تھا؟سفیر کی ملک بدری تو نہ ہوسکی لیکن جیلوں میں قید افراد ضرور رہا ہوکر گھروں کو آگئے۔ فورتھ شیڈول سے بھی نجات حاصل ہوگئی اور کالعدم کا خطاب بھی واپس لے لیا گیا۔ اب اندازے لگانے والے خود ہی اندازے لگاتے رہیں کہ کس کو کیا ملا اور کس نے کیا کھویا ہے؟
معذرت کہ بات کسی اور طرف نکل گئی۔ بات بھارتی کسانوں کے احتجاج کی ہورہی تھی کہ آخر ایک سال بعد کیوں بھارتی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے؟ایک تو کسانوں کے تیور دیکھ کر بھارتی حکومت کوا پنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ دوسرا، اِس فیصلے کے پس پردہ کچھ سیاسی مجبوریاں تھیں۔ دراصل فروری‘ مارچ میں کئی بھارتی ریاستوں بشمول اُترپردیش اور پنجاب میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اِن دونوں ہی ریاستوں کے کسان بہت بڑی تعداد میں احتجاج میں شریک ہیں۔ اب مودی حکومت کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ اگر صورت حال میں بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو دونوں ریاستوں میں اُس کے لیے بہت مشکل پیدا ہوجائے گی۔ پنجاب میں تو پہلے ہی کانگریس کی حکومت ہے لیکن بی جے پی کو توقع ہے کہ اِس مرتبہ وہ میدان مار لے گی۔ دوسری طرف اُتر پردیش میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے انتہاپسندانہ بیانات اور اقدامات کی وجہ سے وہاں کے عوام بالکل بھی خوش نہیں۔ اب اگر کسانوں کو بھی راضی نہ کیا جاتا تو عین ممکن ہے کہ اُترپردیش سے بھی بی جے پی کا خاتمہ ہو جاتا۔ اِسی مجبوری کے تحت مودی سرکار نے وہ متنازع زرعی قوانین واپس لے لیے، شاید اِس کے علاوہ اُس کے پا س کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں بچا تھا۔ بھارتی کسان اِس اعلان پر خوش تو ہیں لیکن دل میں ویسے ہی خدشات بھی موجود ہیں جو کسی بھی ترقی پذیر ممالک کے عوام کو اپنی حکومت کے بارے میں لاحق رہتے ہیں۔ اِسی تناظر میں کسان رہنماؤں کی طرف سے برملا اِس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ قوانین کے خاتمے کا عمل مکمل ہونے تک وہ اپنی اپنی جگہ پر ڈٹے رہیں گے۔
اقتدار میں آنے کے بعد اہلِ حَکم کو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اب حکومت ہمیشہ کے لیے اُن کے گھر کی باندی بن کررہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ اگر سرحد کے اِس پار عوام مہنگائی پر چیخ وپکار کررہے ہیں تودوسری طرف بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ تبدیلی کے خواہشمندوں کی طرح‘ وہاں کے عوام بھی ''شائننگ انڈیا‘‘ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہاں عوام پچاس لاکھ گھروں کی تلاش میں ہیں تو وہاں کے بے روزگارحکومت کی طرف سے دیے گئے نوکریوں کے لالی پاپ کو کھوج رہے ہیں۔ یہاں عوام کو تبدیلی کے نعروں سے بہلایا جارہا ہے تو وہاں مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے سرکاری سرپرستی میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ البتہ دونوں طرف ایک قدرِمشترک بھی ہے وہ یہ کہ جب سر پر پڑتی ہے توپھر یوٹرن لینے میں کوئی عار نہیں سمجھی جاتی بلکہ ایک نئے بیانیے کے ساتھ عوا م کو بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں