"FBC" (space) message & send to 7575

تجاوزات کا جن

کوئی شعبہ، کوئی کونا کھدرا، کوئی جگہ ایسی نظر نہیں آتی جہاں سے کوئی خیر کی خبر آتی ہو۔ ہرطرف جھوٹ کا دور دورہ دکھائی دیتا ہے، یا پھر ایک دوسرے پر الزامات در الزامات کا سلسلہ ہے جو جاری و ساری ہے۔ طاقت، دھونس اور دھاندلی کا ایسا چلن کہ عقل ٹھکانے آچکی۔ کوئی قانون رہا‘ نہ کوئی ضابطہ! مگر جس کسی سے بھی بات کرلیں تو محسوس ہو گا کہ اُس سے ایماندار شخص روئے ارض پر کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔ کوئی ایک معاملہ ہو تو اُس پر بات بھی کی جائے یہاں تو بیشتر ایسے ہیں کہ جیسے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ صرف تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کے معاملے پر ہی نظر ڈال لی جائے توہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ایک طرف نمائشی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف حالات اس نہج کو آن پہنچے ہیں کہ ہر جگہ تجاوزات کا جنگل دکھائی دیتا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو اِس صورتِ حال کے سب سے بڑے ذمہ دار سرکاری ادارے ہی ہیں۔ وہ ادارے جن کے ملازمین کوقوم کا پیٹ کاٹ کر تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں تاکہ وہ تجاوزات قائم نہ ہونے دیں‘ قبضہ گروپوں کو نکیل ڈالیں اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں لیکن... یہی ادارے صورت حال میں ابتری کے سب سے بڑے ذمہ دار بن چکے ہیں۔ ملک کا کوئی بھی شہر تجاوزات جیسے عفریت سے نہیں بچ سکا؛تاہم اداروں کی طرف سے کارروائیوں کا سلسلہ بھی ''زور و شور‘‘ سے جاری رہتا ہے۔ معلوم نہیں مرزا غالبؔ کو کیونکر اتنی پہلے ہمارے ااج کے حالات کی خبر ہو گئی تھی کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ؎
کوئی اُمید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی
کوئی ایک معاملہ ہو تو بات بھی کی جائے‘ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا چکا ہے اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس میں بہتری کی کوئی اُمید بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ صرف کراچی کے 15منزلہ نسلہ ٹاور کے معاملے کو ہی لے لیاجائے تو صورتِ حال پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہم کس طرف چلتے چلے جارہے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم پر اِس کی مسماری کا سلسلہ جاری ہے‘ اور اب اس حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اِس معاملے کا قانونی پہلو تو یہ ہے کہ یہ ناجائز طور پر تعمیر کیا گیا تھا‘ اِس لیے اِسے مسمار کیے جانے کا حکم دیا گیا۔ دوسری طرف اِس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ یہاں پر رہائش پذیر خاندانوں نے باقاعدہ رقم دے کر اپنے لیے فلیٹس خریدے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اِس سے پہلے جانچ پڑتال کے دوران وہ یہ جان کر مطمئن ہوئے ہوں گے کہ ٹاور کی تعمیر کے لیے 17محکموں سے این او سی لیا گیا ہے تو اِس کی تعمیر ٹھیک ہی ہو گی۔ بس یہی یقین اُن کو لے ڈوبا اور اب وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ جب اِسے تعمیر کیے جانے کی منظوری دی گئی تھی تو سرکاری اداروں نے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کیا؟شہرکے بیچوں بیچ ایک اتنی بڑی عمارت کھڑی ہوجاتی ہے اور متعلقہ ادارے سوئے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ٹاور کی مسماری کا حکم دینے کے ساتھ اُن ذمہ داروں کا بھی تعین کیا جاتا جنہوں نے اِسے تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔ جنہوں نے اپنا اپنا حصہ لے کر بلڈرز کو کھل کھیلنے کے لیے میدان فراہم کیا تھا۔ اب وہ تو سب اپنی جیبیں بھرنے کے بعد سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں اور عمر بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے اپنے سروں پر چھت کا اہتمام کرنے والے دربدر ہو رہے ہیں۔
یہ صرف ایک ٹاور کا معاملہ نہیں ہے، ہرجگہ یہی کچھ ہورہا ہے۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ جیبیں بھرنے میں مصروف ہے۔ ایک مقدمے میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ریمارکس سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ ریمارکس دیے گئے کہ جو زمین سٹریٹیجک مقاصد کے لیے دی گئی‘ وہاں پر تجارتی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے‘ اِس زمین پر شادی ہالز، سینما گھر اور رہائشی منصوبے بن گئے ہیں‘ کیا یہ سب کچھ دفاع کے لیے کیا جارہا ہے؟ جواب آیاکہ اب فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا، اس پر کہاگیا: جو کیا گیا ہے‘ وہ سب ختم کرناہوگا۔ اب اگر یہ معاملہ طول پکڑتا ہے تو یقینا بہت سے دیگر معاملات بھی سامنے آئیں گے اور یقینا یہ اچھی صورتِ حال نہیں ہوگی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہی کے ریمارکس ہیں کہ کراچی میں ہرجگہ کو کمرشلائز کردیا گیا ہے اور لوگوں نے اپنی انڈسٹریز ختم کرکے پیسہ زمینوں میں لگا دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ معاملات عدالت میں آنے پر منسٹری آف ورکس نے متعدد رہائشی منصوبوں کے آؤٹ پلانز ہی غائب کردیے تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ صرف کراچی تک ہی کیا محدود‘ ہرشہر، ہرعلاقے میں یہی سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ گاہے گاہے دکھاوے کی کارروائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن دیوار کی اوٹ میں سب کچھ تعمیر ہورہا ہوتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ کراچی سے ہٹ کر‘ آپ ملک کے کسی بھی بڑے شہر میں دیکھ لیں، یہی صورت حال دکھائی دے گی۔ غیرقانونی تعمیرات کا جنگل ہے جس نے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ خود ادارے پیسہ کمانے کے لیے کمرشلائزیشن کو فروغ دے رہے ہیں۔ اِس' کارخیر‘ میں اُنہیں ''کاکا‘‘ جیسے سیاسی سرپرستوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل رہتی ہے۔
اگر ایم کیو ایم سے پہلے کے کراچی کا جائزہ لے لیں تو صورتِ حال مزید واضح ہوجاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی دامے درمے، قدمے سخنے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے۔ ہم نے لاہور میں اپنے بچپن میں جن راستوں سے اینٹوں سے بھرے ہوئے ٹرکوں اور ٹرالیوں‘ پبلک بسوں کو گزرتے دیکھا ہے‘ اب وہاں سے چھوٹی کار کا گزرنا تو دور‘ موٹرسائیکل کا گزرنا بھی محال ہو چکا ہے۔ جو بھی اپنے گھر کو نئے سرے سے بنانے کے لیے گراتا ہے‘ دوچار فٹ راستے کو گھر کا حصہ بنا لیتا ہے۔ یوں کرتے کرتے گلیاں اور راستے تنگ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ سب متعلقہ اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ہو رہا ہے‘ عمومی طور پر اس سے پہلے باقاعدہ طور پر مک مکا کیا جاتا ہے۔ نقشہ جمع کچھ کرایا جاتا ہے اور تعمیر کچھ کی جاتی ہے۔ متعلقہ اہلکاروں کو سب معلوم ہوتا ہے لیکن جیب گرم ہوتو پھر کوئی کچھ بھی کرتا رہے۔ رہائشی علاقوں میں کئی کئی منزلہ کمرشل عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں کہ اب اِن کا خاتمہ ناممکنات میں تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی تعمیرات کی ایک لمبی چوڑی فہرست کئی بار نظروں سے گزر چکی ہے لیکن تعمیرات اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔ کبھی کبھار اِن کے خلاف نمائشی کارروائیاں ہوتی ہیں لیکن صرف دکھاوے کی حد تک یا پھر ریٹ میں اضافے کے لیے۔ چھوٹی موٹی کارروائی کے بعد معاملات نئے سرے سے طے کیے جاتے ہیں اور پھر غیرقانونی تعمیرات قانونی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔
ہمیں اب اِس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم بحیثیت مجموعی کرپٹ ہوچکے ہیں۔ اگر سب نہیں تو اکثریت کا مطمح نظر صرف پیسے کا حصول ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود باتوں میں ہم خود کو روئے ارض کے ایماندار ترین افراد میں شمار کرتے ہیں۔جب دعوے کرنے پر آتے ہیں تو سب کو مات دے دیتے ہیں، قانون کی عملداری اور اس کے نفاذ کی رَٹ لگائے رہتے ہیں مگر جہاں اپنی باری آتی ہے‘ وہاں سب اخلاقیات، سب قوانین اور تمام ضابطے ایک طرف رکھ دیے جاتے ہیں۔ لاہور کے صرف ایک علاقے کی مثال ملاحظہ کیجئے‘ شہر کے بیچوں بیچ سے گزرنے والی نہر کو شہر کی خوب صورتی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ قانوناً اِس کے اطراف میں تعمیرات پر پابندی ہے لیکن آج کل بھی‘ ایک دو نہیں درجنوں تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کی جارہی ہیں‘ کوئی یہ یقین کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ متعلقہ ادارے یا اہلکاروں کی رضامندی کے بغیر ہورہا ہو گا؟ یہی صورت حال میٹروپولیٹن کارپوریشن کی بھی دکھائی دیتی ہے۔ بظاہرتویہی محسوس ہوتا ہے کہ تجاوزات کے حوالے سے معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں