"FBC" (space) message & send to 7575

مظلوم اکثریت!

ایک ارب20کروڑ سے زائد آبادی کے ملک بھارت میں ہندؤں کی آبادی کا تناسب 80فیصد کے لگ بھگ ہے۔ دوسرے نمبر پر مسلمان آتے ہیں جن کی آبادی کا تناسب 14سے 15 فیصد ہے‘ اِس کے بعد سکھ، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں جن کی آبادی کوآٹے میں نمک کے برابر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب یہ بہت حیرت کی بات ہے کہ بھارت کی 80فیصد آبادی خو دکو مظلوم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بھارت میں اسی فیصد آبادی کا مذہب خطرے میں ہے۔ اِسے خطرے سے نکالنے کے لیے بے شمار انتہا پسند تنظیمیں خود روپودوں کی طرح ہر جگہ پھیل چکی ہیں۔ وشوا ہندوپریشد، راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ، سنت منت، سنگھ پریوار، ستیہ شودھک سماج، پرم ہنس یوگا نند، اکھل بھارتیہ ہندومہاسبھا اور بجرنگ دل سمیت ایسی تنظیموں کی ایک طویل فہرست ہے جن کے کارکن دن رات ''ہندوازم‘‘ کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مسلمانوں سمیت بھارت کی دیگر اقلیتوں کے خلاف اِن کی کارروائیاں گاہے گاہے سامنے آتی رہتی ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے سے پہلے سب کچھ بڑی حدتک ٹھیک چل رہا تھا لیکن اب اکثریت کی طرف سے اقلیت کش کارروائیوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح سے ''خطرے کی زد‘‘ میں آئے ہوئے ہندومذہب کو بچایا جاسکے۔ اِن کے شوروغل کو دیکھتے ہوئے حقیقت میں یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے اسی فیصد آبادی کا مذہب شدید خطرے کی زد میں آچکا ہے اور اِس خطرے کو دور کرنے کے لیے اقلیتوں کو مارنا اور دیس سے نکالنا بہت ضروری ہو چکا ہے۔ ''ہندو دھرم‘‘ کی حفاظت کے نام پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جائیدادوں کو جلایا جاتا ہے، اُن کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے اور اُنہیں زبردستی ہندو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ مذہب کی آڑ میں کیا جاتا ہے اور عام آدمی کے جذبات کو مذہب کے نام پر اشتعال دلایا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعتاًکسی ملک کی غالب اکثریت کے مذہب کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے؟اِس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ بظاہر ایسا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ کوئی ذی ہوش یہ تسلیم کرہی نہیں سکتا کہ اتنی بڑی آبادی کے مذہب کو اُن کے اپنے ہی ملک میں خطرہ لاحق ہو۔ پھر یہ صورتحال کیوں پیدا کی گئی ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ سب یہ جانتے ہیں کہ کسی طور بھی مسلمانوں کوبھارت سے نکالا نہیں جاسکتا۔ ہندومت کی حفاظت کی آڑ لے کر برسرپیکار انتہاپسند تنظیموں کے کارکن بخوبی یہ بات سمجھتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ جب کوئی حکومت اپنی ترجیحات طے کرتی ہے تو اُس کے اثرات انتہائی نچلی سطح تک بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بھارت میں مذہبی رواداری کی صورتحال کبھی بھی مثالی نہیں رہی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسے حالات پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ اب کے مذہبی انتہا پسندی کو ارادی طور پر فروغ دیا جارہا ہے۔ وجہ سیدھی اور بہت صاف ہے کہ اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے 2022ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے لیے صرف یہی ایک راستہ بچا ہے۔ بی جے پی کے رہنما بخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ جو وعدے کرکے برسراقتدار آئے تھے‘ اُن کا چند فیصد حصہ بھی وہ پورا نہیں کرسکے۔ کسانوں کی تحریک، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل نے بھارت کو ادھ موا کررکھا ہے۔ کئی ریاستوں کی اسمبلیوں کے انتخابات یہ واضح کرچکے ہیں کہ 2022ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اِن حالات میں اُس کے لیے اِس کے سوا کیا راستہ بچتا ہے کہ وہ اکثریتی آبادی کے مذہبی جذبات کو اُبھارے۔ جب ایسے کاموں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو جائے تو پھر ویسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں جو اِس وقت بھارت میں پیدا ہوچکے ہیں۔ صرف بھارت کی حدتک ہی کیا موقوف‘ ترقی پذیرممالک میں سے بیشتر اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاں جذباتیت اور تقدس کی بات آجاتی ہے تو ہمارے خطے کے لوگوں کی اکثریت زیادہ گہرائی میں جانے کا تردد نہیں کرتی۔ عقیدت اور تقدس کے نام پر اُن سے کچھ بھی کروا لیں‘ یہ اُسے کارِثواب سمجھ کر انجام دیں گے۔ بدعنوان حکمران ایسے ہی پُرکشش نعروں کی آڑ میں اکثریت کو خوش کرنے کے لیے ایسے ایسے اقدامات کرتے ہیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔ عوام کی اکثریت کسی بھی اقدام کا مقصد جانے بغیر ہی زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کردیتی ہے۔ اگر کوئی ایسے کسی اقدام کا مقصد سمجھ رہا ہوتو وہ اپنی جان و مال کی حفاظت کی خاطر خاموشی اختیار کرتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ بس ایک الزام لگنے کی دیر ہے اور پھر سب کچھ ختم ہوکر رہ جائے گا۔ جب حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے تو ایسی متشدد تنظیمیں اور گروہ خودروپودوں کی طرح اُگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ آپ بغور جائزہ لیں تو ایسی ہر تنظیم کے اجتماعات کا اپنا اپنا ایجنڈا ہوتاہے لیکن یہ اجتماعات ہمیشہ مقدس ناموں سے ہی منعقد کیے جاتے ہیں۔ ایسے اجتماعات میں مکمل طور پر سیاسی گفتگو ہوتی ہے لیکن نام ایسا رکھا جاتا ہے کہ لوگ اِس میں شرکت کو کارِ ثواب سمجھیں۔ اِن دنوں بھارت اس سب کی بہترین مثال پیش کر رہا ہے۔ تمام تر مفادات کے باوجود اب اِس کی تپش عالمی سطح پر بھی محسوس کی جارہی ہے۔ امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی کی رپورٹ واضح طور پر بتاتی ہے کہ بھارت میں اقلیتوں پر حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایسے حکمرانوں کے نزدیک مذہب زیادہ اہمیت نہیں رکھتا‘ بیشتر صورتوں میں وہ طوالتِ اقتدار کے لیے اِس کا صرف استعمال کرتے ہیں۔ اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملک کی اکثریتی آبادی کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔ یہ کوئی نیا کھیل نہیں بلکہ صدیوں سے کھیلا جارہا ہے۔ اٹلی کے ایک سیاسی مفکر میکاولی نے تو اِس بابت 1512ء میں اتنی تفصیل سے بیان کردیا تھا کہ آج بھی اُس کی تحریریں پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اِس تناظر میں میکاولی کی کتاب ''دی پرنس‘‘ حقائق کو بہت تفصیل سے بیان کرتی ہے۔
اگرچہ ہمارے ہاں بھارت والی صورتحال نہیں ہے لیکن تقدس کے لبادے میں اشتعال دلانا یہاں بھی بہت عام ہو چکا ہے؛ تاہم ایک واضح فرق عوام اور ریاست کا ردعمل ہے۔ گزشتہ دنوں جو کچھ سیالکوٹ میں ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ مرنے والے پر یہی الزام لگایا گیا کہ اُس نے بے حرمتی کی ہے‘ آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ لوگ اُس پر پل پڑے اور اُس کی جان لے کر ہی ٹلے۔ کسی نے یہ تک نہ سوچاکہ اِس ایک واقعے کی وجہ سے دنیا بھر میں ہمارے ملک کا کیا امیج جائے گا‘بس ایک شخص نے آواز بلند کی کہ اور سب عقل و خرد سے عاری ہو گئے۔ بقول فواد چوہدری‘ ہم نے معاشرے میں انتہاپسندی کے ٹائم بم لگا رکھے ہیں جنہیں ڈی فیوزکرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بھارت کے ساتھ اس صورتحال کا موازنہ کریں تو ریاست کا کردار اس ضمن میں بالکل مختلف نظر آئے گا۔ بھارت میں اقلیتوں پر حملوں کے وقت ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے، ایسے واقعات کا مقدمہ درج کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، اگر مقدمہ درج ہو بھی تو اکثر مرنے والوں کو ہی قصوروار ٹھہرا کر فائل بند کر دی جاتی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بھارت میں گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر بے شمار لوگوں پر تشدد ہوا‘ درجنوں افراد کو قتل تک کر دیا گیا مگر کوئی ایک شخص بھی قانونی گرفت میں نہیں آیا۔ پاکستان میں سیالکوٹ کا سانحہ پیش آیا تو نہ صرف عوام کے کثیر طبقے نے کھل کر اس کی مذمت کی بلکہ ریاست نے کسی رو رعایت کے بغیر ایسے افراد سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور محض ایک‘ دو دنوں میں تمام مرکزی ملزموں اور اشتعال دلانے والے افراد کو گرفتار کر لیا۔ ایسے واقعات کے بعد سامنے آنے والے ریاستی و معاشرتی ردعمل سے ہی کسی سماج کی منزل کی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں