"FBC" (space) message & send to 7575

شاید ہمارا ہی قصور ہے

لاہور کی ریلوے ورکشاپس کے اردگردبڑی تعداد میں مختلف اشیا کی دکانیں قائم ہیں۔ عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں سبزیاں، پھل اور دیگر اشیائے ضروریہ عام مارکیٹ کی نسبت قدرے کم نرخوں پر مل جاتی ہیں۔ اِسی تاثر کی وجہ سے دن کے بیشتر اوقات میں یہاں خریدار بڑی تعداد میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ رپورٹرزکو اگر پھلوں اورسبزیوں وغیرہ پر کوئی پیکیج بنانا ہو تو بیشتر یہیں کا رخ کرتے ہیں۔ واقفانِ حال کا بتانا ہے کہ انگریز دورمیں یہاں بڑی تعداد میں ریلوے ورکشاپس قائم کی گئی تھیں‘کام کرنے والوں کی سہولت کے لیے تبھی یہاں دکانیں قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ تب یہاں کافی جگہ دستیاب تھی جس کے آثار بڑی حد تک آج بھی ملتے ہیں۔ چند روز قبل ایک رپورٹ کے سلسلے میں ہم بھی وہاں موجود تھے‘ دیکھا کہ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک صاحب ایک دکاندار سے بحث کرنے میں مصروف تھے۔ یکایک بحث میں تلخی کا عنصر نمایاں ہونے لگا۔ آن کی آن میں وہاں کافی ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ اِسی دوران اُن صاحب کی نظر ہمارے کیمرہ مین پر پڑی تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑہماری طرف آگئے۔ معلوم ہوا کہ گزشتہ روز وہ کچھ اشیا خرید کرلے گئے تھے جن کی دوبارہ خریداری کے لیے وہ پھر آئے ہیں مگر اب اِن اشیا کے نرخوں میں کئی روپوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔ یہی بات بحث کا باعث بنی تھی اور اب وہ ہمارے پاس کھڑے ہو کر اپنا دل ہلکا کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک اچھی خاصی ملازمت کرتے ہیں لیکن اب اُن کے لیے گزارہ کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ اُن کی دیکھا دیکھی متعدد دیگر مردوخواتین بھی وہاں آن موجود ہوئے۔ ہرکسی کی اپنی باتیں تھیں‘ ہرکسی کی اپنی کہانی تھی لیکن درد سب کا مشترک تھا کہ خدا کے لیے کسی بھی طرح مہنگائی سے نجات دلا دی جائے۔ بعض خواتین کے دل کا درد آنکھوں سے بھی بہہ رہا تھا لیکن ہم اُنہیں کیا بتاتے کہ آج ہرکوئی حکومت کو یہی باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ بہت مشکل میں ہیں مگر کیا کیا جائے کہ جب بھی کوئی ایسی بات ہوتی ہے تو کچھ گھسے پٹے بیانات سامنے آجاتے ہیں کہ مہنگائی پوری دنیا کا مسئلہ ہے یا یہ کہ پاکستان آج بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔
سچی بات ہے کہ اِن احباب کے حالات دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے اُن کی سمجھ میں یہ بات نہ آرہی ہو کہ آخر حکومت کن پیمانوں کے مطابق پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک قرار دے رہی ہے۔ دعووں اورحقیقت کے درمیان اتنا واضح فرق یقینا سب کو کنفیوز کردینے کے لیے کافی ہے۔ ایک کے بعد ایک سامنے آنے والی رپورٹس کچھ کہہ رہی ہیں اور حکومت کا موقف یکسر مختلف ہے۔ عوامی سطح پر کوئی رائے پائی جاتی ہے اور حکومتی سطح سے متضاد آرا کا اظہار سامنے آ جاتا ہے۔ ساڑھے تین سالوں کے دوران اندازاً ڈیڑھ کروڑ کے قریب افرادخطِ غربت سے نیچے جاچکے ہیں۔ ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 181روپے کی سطح کو چھو رہا ہے۔ فی کس آمدنی کے تناسب سے ہم دنیا بھر میں 159ویں نمبر پر آچکے ہیں۔ مہنگائی کی شرح لگ بھگ ساڑھے نوفیصد تک جاپہنچی ہے اور حکومت پھر بھی یہی کہہ رہی ہے کہ پاکستان دنیا کے سستے ترین ممالک میں شامل ہے۔ بین الاقوامی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر براجمان ہے لیکن حکومت کا موقف ہے کہ حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے۔ بخدا جس طرح آج عوام کومہنگائی پر چیخ وپکار کرتے دیکھ رہے ہیں‘ ماضی میں اِس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ فخراِس بات پرکیا جارہا ہے کہ ڈیڑھ سو روپے کلو تک پہنچ جانے والی چینی کے نرخ واپس 90روپے کی سطح پر لانے میں کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ ساڑھے تین سال پہلے چینی 55روپے فی کلو میں دستیاب تھی۔ حد تو یہ ہے کہ کوکنگ آئل، گھی، صابن، پٹرول، دالیں، آٹا یا کسی بھی دوسری چیز کا نام لیں‘ سب کے نرخوں میں ناقابلِ برداشت حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ اب بھی ہمارے ہاں باقی دنیا کی نسبت مہنگائی بہت کم ہے۔
کوئی شعبہ ایسانہیں بچا جس سے تعلق رکھنے والے چیخ وپکار نہ کررہے ہوں۔ کسانوں کو دیکھیں تو وہ سب سے زیادہ پریشان نظرآرہے ہیں۔ پانچ ہزار روپے میں ملنے والی کھاد کی بوری آج 10ہزار روپے میں بھی بمشکل مل رہی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث کسانوں کے لیے ٹیوب ویل چلانا مشکل ہوچکا ہے۔ زرعی ادویات کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ آخر کسان کس طرح سے اپنے اخراجات پورے کرتا ہوگا لیکن پھر بھی پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک کہا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے دعوے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔ حالات قابو میں نہیں آرہے تو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے کہ معاملات درست سمت میں نہیں جارہے۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبرزیدی نے حکومت کو صائب مشورہ دیا ہے کہ آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے یہ تسلیم کریں کہ ملک عملی طور پر بینک کرپٹ ہوچکا ہے۔حقیقت کا سامنا کرنے پر کم از کم آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینے میں آسانی ہوگی۔ اگرچہ اُن کا یہ بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ اُن کے الفاظ کو غلط رپورٹ کیا گیا ہے لیکن یہ وڈیو بہرحال موجود ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ ہم نے سعودی عرب سے خزانے میں رکھنے کے لیے تین ارب ڈالرز لیے۔ ہاتھی کے یہ دانت صرف دکھانے کے لیے ہیں کیونکہ ہم اِنہیں خرچ نہیں کرسکتے‘ اِس کے باوجود ہمیں اِس پر چار فیصد سود ادا کرنا ہوگا۔ 72گھنٹوں کے نوٹس پر یہ رقم ہمیں بلاچون وچرا واپس کرنا ہوگی ورنہ ہمیں دیوالیہ ڈکلیئر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی شاید ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ حیرت اِس بات پر ہوتی ہے کہ گورنر پنجاب یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ صرف چھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف نے ہم سے سب کچھ لکھوا لیا ہے لیکن بے نیازی کی انتہاہے کہ اعلیٰ ترین سطح سے اب بھی سبز باغ دکھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تحریک انصاف کے دوستوں کو اکثر ہم سے یہ گلہ رہتا ہے کہ ہم حکومت پر ضرورت سے زیادہ تنقید کر دیتے ہیں۔ اُنہیں کون یہ سمجھائے کہ بیشتر صورتوں میں کسی بھی طرح کے حالات کی زیادہ تر ذمہ داری حکومتوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اب اگر حکومت بھی ایسی ہو جو ہرمعاملے میں یوٹرن لے لیتی ہو تو پھر کیا کیا جائے؟معلوم نہیں اِن دوستوں کو وہ وقت کیوں بھول جاتا ہے جب ہرکوئی اِن باتوں پر یقین کررہا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی، پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جایا جائے گا، بیرونی ملکوں کے بینکوں میں رکھے پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر واپس لاکر مالیاتی اداروں کے منہ پر مارے جائیں گے۔ نوے دنوں کے اندر کرپشن کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ جب یہ سب باتیں سن کرہر طرف سے دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے تھے توتب انہیں سب ٹھیک معلوم ہوتا تھا۔ اب کارکردگی کا ذکر کرنے پر گلے شکوے کیوں؟ اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حالات اِس نہج پر آچکے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی قوت اپنا کندھا دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اب کون باقی ماندہ ایک‘ ڈیڑھ سال کے لیے عوامی غضب کا سامنا کرے؟ پشاور کا بلدیاتی الیکشن ایک واضح مثال ہے۔ کچھ وزرا نے دبے دبے لفظوں میں مہنگائی کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور کچھ مبصرین اسے آئندہ الیکشن کا ٹریلر قرار دے رہے ہیں۔ بعض اتحادیوں کی طرف سے کچھ شرائط سامنے آنے کی باتیں بھی ہورہی ہیں کہ اگر اُن کے مطالبات پر عملدرآمد نہ ہوا تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ اِن سب حالات کے باوجود اگر حکومت کی نظر میں سب اچھا ہے تو پھر شاید ہمارا ہی قصور ہے‘ ہم میں ہی وہ بصیرت نہیں کہ حالات کو صحیح طور پر سمجھ اور پرکھ سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں