"FBC" (space) message & send to 7575

یہ سب پہلی مرتبہ تو نہیں ہورہا

ہرلحظہ نئی صورتِ حال، ہر آن نئی ہلچل‘ ایک کے بعد ایک فارمولے کی بازگشت؛ گویا 74سالوں بعد بھی وطن عزیزاُسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے جس نے اِسے اِس کے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کوئی ایسا لمحہ‘ کوئی ایسا دن دیکھنے کی توقع سراب ہی رہی کہ جب ثبات کی اُمید پوری ہونے کا یقین غالب ہو۔ ایک جارہا ہے تو دوسرا آرہا ہے۔ ایک وقت کے 'غدار‘ جب پسندیدہ ٹھہرے تو بلاجھجک اقتدار کے حق دار قرار دے دیے گئے۔ انا کو ٹھیس پہنچی تو اقتدار کے مزے لوٹنے والے مسندِ شاہی سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے۔ یہی سب کچھ چلتا چلاآرہا ہے اور اب ایک مرتبہ پھر کچھ ایسے ہی حالات پیدا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پھر گردآلود ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ فارمولے بنانے والے اُن سے مدد حاصل کرنے آئے تھے کہ ملک کو کسی طرح گرداب سے نکالا جاسکے۔ زرداری صاحب کے مطابق‘ اُن کی طرف سے رابطہ کرنے والوں کو یہ جواب دیا گیا کہ پہلے موجودہ والوں کی چھٹی کرو‘باقی بات بعد میں ہوگی کہ نت نئے تجربات سے سسٹم کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو ملک کی موجودہ صورت حال کے دگرگوں ہونے کی حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔ کچھ ایسی کھچڑی پکی ہوئی ہے کہ کسی کے پلے کچھ نہیں پڑرہا کہ آخر ہوکیا رہا ہے۔ پھر خیال آتا ہے کہ کون سا ایسا پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی مثال ہی لے لیں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ89سیٹوں والا160سیٹوں والے سے کہنے لگا کہ وزارتِ عظمیٰ تمہارا نہیں‘ میرا حق ہے۔ ایک طرف اس کا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں برآمد ہوا تو دوسری طرف یہ بات کہنے والے کو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا۔ بعد کے ادوار میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ غلام اسحاق خان صاحب کو ملک کا صدر بنانے جیسے سمجھوتے ہوئے اور طاقتوروں کو تمغۂ جمہوریت سے نوازا گیا۔ مسلم لیگ نون کی تاریخ بھی تو ایسے ہی سمجھوتوں اور فارمولوں سے عبارت ہے جن کا تذکرہ پھر کسی وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ اِس وقت اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی بھی یہی کہانی ہے۔
اب ایک بار پھر تبدیلی کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے تو اِس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ غلغلہ مچا ہوا ہے کہ نواز شریف جلد وطن واپس آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے رہنما ایاز صادق کہتے ہیںکہ شاید میاں نواز شریف اُن کے دوسری مرتبہ لندن جانے سے پہلے ہی وطن واپس لوٹ آئیں۔ محترمہ مریم اورنگ زیب قرار دیتی ہیں کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی خبروں سے حکومت کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔ حکومتی زعما کہتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف وطن واپس آئے تو سیدھے جیل جائیں گے۔ ایک خبر یہ بھی گردش کررہی ہے کہ ''پلان‘‘ کے مطابق میاں نواز شریف وطن واپسی پر جیل ہی جائیں گے‘ اس کے بعد انہیں ریلیف دلانے کا عمل شروع ہوگا۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب اِس فارمولے پر مطمئن ہیں۔ جنابِ وزیراعظم حیران ہیں کہ سزا یافتہ فرد کیسے چوتھی مرتبہ ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے۔ گویا''میاں نواز شریف واپس آئیں گے؍ نہیں آئیں گے‘‘ کی ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے لیکن صورت حال واضح نہیں ہوپارہی۔ دیکھا جائے تو اب کے بھی وہی سب کچھ ہورہا ہے جو کسی بھی ''تبدیلی‘‘ سے پہلے ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔
ایک نئی بحث کا آغاز کردیا گیا ہے جس پر ردعمل بھی سامنے آرہا ہے اور ایک مخصوص فضا بھی بنائی جا رہی ہے۔ رہی بات یہ کہ ممکنہ طور پر میاں نواز شریف وطن واپس کیسے آئیں گے تو جواب بہت ہی سیدھا ہے کہ وہ ویسے ہی وطن واپس آئیں گے جیسے وطن سے باہر گئے تھے۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے جب اُنہیں طبی بنیادوں پر جیل سے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا اور بتایا گیا کہ اُن کی طبیعت بہت خراب ہے۔ مریم نواز صاحبہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ انہیں دل کا دورہ پڑا ہے، پھر کئی ہفتوں تک اُن کی ہسپتال میں موجودگی اور بیماری کی خبریں چھائی رہیں۔ ہم خود کئی روز تک سروسز ہسپتال کے باہر ڈیرے ڈالے رہے تھے۔ ہرلمحہ اُن کی بیماری کے حوالے سے کوئی نہ کوئی نئی خبر سنائی جاتی تھی۔ پریس کانفرنسز ہوتی تھیں‘ سامنے آنے والی ہرنئی بات میں یہی بتایا جاتا تھاکہ میاں صاحب کی حالت بہت تشویش ناک ہے اور پھر ایک دن وہ علاج کی غرض سے عازمِ لندن ہوگئے۔
یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔ حکومت نے یہ گردان شروع کردی کہ میاں صاحب جھوٹ بول کر لندن گئے ہیں۔ جب پوچھا جاتا کہ حکومت آپ کی‘ ادارے آپ کے ماتحت تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جائے؟کوئی بھی یہ بات تسلیم نہیں کرسکتا تھا کہ اِس تمام کارروائی کے بارے میں حکومت کو علم نہیں تھا۔ خود وزیراعظم صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اُنہیں نواز شریف کی حالت دیکھ کر رحم آگیا تھا۔ پنجاب کی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ بھی میاں صاحب کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتی رہتی تھیں۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی اور دیرینہ ساتھی ڈاکٹر فیصل کی طرف سے بھی یہی بتایا گیا تھا کہ میاں صاحب کی رپورٹس ٹھیک نہیں ہیں۔ اب یہ تو ماہرین ہی بتا سکتے تھے کہ رپورٹس کس حد تک ٹھیک تھیں۔ میاں صاحب کے بیرونِ ملک جانے کی ذمہ داری بھی اُنہی پر عائد ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پرمیاں نواز شریف کے لندن جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد حکومتی رہنماؤں نے یہ بیانیہ اپنا لیا تھاکہ میاں صاحب غلط بیانی کرکے بیرونِ ملک گئے۔ شہباز گل تودنیا نیوز کے پروگرام ''آن دی فرنٹ‘‘ میں میڈیا کو بھی اِس حوالے سے ذمہ دار ٹھہرایا۔ فرمایا کہ میڈیا نے اِس حوالے سے رپورٹس چلاچلا کر حکومت پر دباؤ میں اضافہ کیا۔ پروگرام کے میزبان کامران شاہد کی طرف سے بجا طور پر جواب دیا گیا کہ میڈیا تو وہی رپورٹس چلاتا تھاجو اُسے حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی تھیں۔ ہم نے خود بھی کئی ایسی رپورٹس بریک کی تھیں جو حکومت کے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈز کی طرف سے مرتب کی گئی تھیں۔ شہباز گل کا یہ الزام سن کر ہمیں کافی حیرت ہوئی‘ دوسرے الفاظ میں یہ حکومتی نااہلی کا اعتراف تھا کہ ایک شخص پوری حکومتی مشینری کو بے وقوف بنا گیا۔
اب اگر بقول ایاز صادق صاحب '' جلد کچھ بڑا ہونے والا ہے اور جو ہوگا وہ دھماکا ہوگا‘‘ تو اِس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک کایہی دستور ہے۔ ہم ہرلمحہ کچھ نیا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ اگر تین مرتبہ کا وزیراعظم اقامے کی بنیاد پر وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہو کر سزایافتہ ہوسکتا ہے تو اُس کی سزا ختم ہونے پر کیسی حیرت؟ اب انتظار اِسی بات کا ہے کہ پردہ کب اُٹھتا ہے۔ کب چیزیں واضح ہونا شروع ہوتی ہیں کیونکہ ابھی تک کسی بھی طرف سے واضح طور پر کچھ نہیں بتایا جارہا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب مدد مانگنے والوں کا نام بتانے کے لیے تیار ہیں نہ ہی ایاز صادق صاحب پردہ اُٹھا رہے ہیں کہ لند ن میں کون میاں صاحب سے ملاقاتیں کررہا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی کھل کر کچھ نہیں بتایا جارہا لیکن اُن کی طرف سے ملنے والے اشارے یہ ضرور بتا رہے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہو ضرور رہا ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور بھی کہہ چکے ہیں کہ تبدیلی کے حوالے سے لندن اور رائیونڈ میں منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ اگر واقعتاً یہ سب کچھ چل رہا ہے تو یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہوگا کہ اب کی بار کون سا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ عوام کو کس طرح شیشے میں اُتارا جائے گا ؟ کس طرح ماضی قریب کے اقدامات کو غلط ثابت کیا جائے گا اور نئے اقدامات کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہونے کا یقین دلایا جائے گا۔ رہی بات ملک کو درپیش مسائل اور عوام کی تو پہلے کون سی اِن کی پروا تھی جو اب کی جائیگی۔ بات تو ساری اپنے اپنے مفادات کی ہے جن کی حفاظت ہرصورت میں مقدم ٹھہرتی ہے‘ سو اِس مرتبہ بھی یہی سب کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے اگر پہلے ہی سب سوچ سمجھ کر کیا جاتا تو یقینا حالات آج اِس نہج پر نہ ہوتے جہاں پہنچ چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں