"FBC" (space) message & send to 7575

انتہا پسندی کی آگ میں سب جلتے ہیں

27دسمبر کو بھارتی شہر ہری دوار کے ''دھرم سنسد‘‘ میں کٹر ہندوؤں کا ایک اجتماع منعقد ہوتا ہے۔ اجتماع کے آغاز پر شاید کسی کو اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ یہاں سے کیا وبال پھوٹنے والا ہے جو پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دے گا۔ اجتماع میں بڑی تعداد میں سادھوؤں کے چولوں میں ملبوس انتہا پسند افراد سٹیج پر بیٹھے تھے جہاں سے مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلا جارہا تھا۔ وہی زہر جو بھارتیہ جنتا پارٹی نے پورے بھارت میں پھیلا دیا ہے۔ وہی زہر جسے پھیلا کرہی اقتدار کا راستہ ہموار کیا گیا اور اب اِسے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اجتماع میں تقاریر کرنے والے ببانگ دہل اہل اسلام کو قتل کیے جانے کی باتیں کرتے رہے۔ ہندوسوابھیمان کے رہنما نرسنگھا نند کی زبان سب سے زیادہ زہریلی تھی جس نے کہا کہ مسلمانوں کو تلوار سے نہیں بلکہ جدید ہتھیاروں سے ختم کرنا ہو گا۔ یہ وہی انتہا پسند ہے جس کے انتہا پسندانہ تعصب پر مبنی بیانات کی وڈیوز منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں لیکن آج تک اِ س کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ گویا اُس کے لیے کھلی چھوٹ ہے کہ جو چاہو کرتے رہو۔ اجتماع میں ایک کے بعد ایک مقرر اپنا خبث باطن ظاہر کرتا رہا لیکن جب کالی چرن کی باری آئی تو وہ سب سے آگے نکل گیا۔ اُس نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی غلیظ زبان استعمال کی اور پھر یکایک جیسے بم پھوڑ دیا۔ سادھو کے چولے میں ملبوس اِس رہنما نے پہلے تو بھارتی قوم کے ''باپو‘‘ سمجھے جانے والے موہن داس گاندھی کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے اور پھر کہا کہ گاندھی نے کبھی بھی ہندوؤں کے لیے کچھ نہیں کیا‘ اس نے گاندھی کے قاتل ''ناتھو رام گوڈسے‘‘ کو زبردست الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ کالی چرن کی اِس گفتگو پر اجتماع میں بھنبھناہٹ شروع ہوجاتی ہے لیکن یہ جاری رہتا ہے جس میں ہرکوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق ''مسلمانوں کو ختم کرنے‘‘ کی تجاویز پیش کرتا ہے۔
انتہا پسندی کی راہ پر چلتے چلتے بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب بھارتیوں کے باپو سمجھے جانے والے کرم چند گاندھی بھی گالیوں کی زد میں آگئے۔ وہ گھڑی آن پہنچی جب ان کے قاتل کی تحسین کا آغاز ہوگیا۔ جب ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو قتل کردینے کا کھلے عام پرچار شروع ہوگیا۔ مسلمانوں اور مسیحیوں سے بھارتی شہریت چھین لینے کے مطالبات بھی شدت اختیار کرگئے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اقتدار کی خاطر بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتہا پسندی کا جو کھیل شروع کیا تھا‘ وہ کہاں جا کر رکے گا۔ جب آگ سے کھیلا جاتا ہے کہ تو اکثر ایسے ہی ہوتا ہے کہ بیشتر صورتوں میں معاملات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ یہی سب کچھ اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے کے لیے جو آگ گجرات میں جلائی تھی، اب اُس سے پورا بھارت سلگتا ہوئی دکھائی دے رہا ہے۔
بھارت میں گلی گلی، قریہ قریہ مار دو، جلا دو کے نعرے بلند ہورہے ہیں اور اقلیتیں ہیں کہ سہمی بیٹھی ہیں۔ گیروے رنگ کے کپڑے پہنے انتہا پسند ہندو کہیں بھی اجتماع کی شکل اختیار کرکے مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی شروع کردیتے ہیں۔ جلوس کی شکل میں مسلمانوں کی آبادیوں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کھلے عام نمازِ جمعہ کے اجتماعات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ساری صورتحال سے مسلمانوں کے لیے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں‘ اِس کا اندازہ اِس امر سے لگا لیجئے کہ دہلی کے قریب گڑگاؤں میں مسلمان باقاعدہ اجازت ناموں کے تحت 38 مقامات پر سڑکوں اور پارکس میں نمازِ جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ انتہاپسند ہندؤں اور اِن کی پشت پر موجود حکومتی طاقت کے باعث اب وہ کم از 18 سے 23 مقامات سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ یوگی دورِ حکومت میں‘ ریاست اُترپردیش میں صورت حال اِس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود ادتیہ ناتھ یوگی ہندوؤں کے اجتماعات میں برملا مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتا ہے جو دراصل انتہا پسند ہندوؤں کے لیے'' گوآہیڈ‘‘ کا اشارہ ہوتا ہے۔
ایک طرف بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی سرگرمیاں زور پکڑتی جارہی ہیں تو دوسری طرف اِن کے خلاف ری ایکشن آنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ پہلے کالی چرن کے بیان پر آنے والے ری ایکشن کی کچھ بات کرلیتے ہیں۔ اِس پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اِس پروگرام کے منتظم سنت داس نے خود کو اِن بیانات سے لاتعلق ظاہر کیا ہے۔ ریاستی وزیراعلیٰ بھوپیش بھیگیل کی طرف سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے جس کے نتیجے میں انتہا پسندی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا ہے۔ یہ وارننگ بھی دی گئی کہ اِس طرح کی اشتعال انگیزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ہندوؤں کی کچھ تنظیموں کی طرف سے بھی اِس صورت حال کی مذمت کی گئی ہے لیکن بر سر اقتدار بی جے پی کے رہنماؤں کی زبانیں اپنے 'باپو‘ کی توہین پر بھی خاموش ہیں۔ سب کو علم ہے کہ یہ زبانیں آئندہ انتخابات تک خاموش ہی رہیں گی۔ دراصل یہ تمام صورت حال خود بی جے پی کی پیدا کردہ ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ بھارت میں 80فیصد ہندو ہیں۔ وزیراعظم، صدر، سپریم کورٹ کا چیف جسٹس، آرمی چیف‘ سب کے سب ہندو ہیں۔ 28میں سے 21ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہندو ہیں مگر پھر بھی انہیں 14‘ پندرہ فیصد مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے اور ہندوازم مسلسل خطرے میں نظر آ رہا ہے‘ بلکہ اس کے خطرے میں ہونے کے پروپیگنڈے کو فروغ دیا جارہا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے ''مرنے اور مارنے‘‘ پر حلف لیے جا رہے ہیں۔ کوئی عقل کا اندھا بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ بھارت میں ایک ارب سے زائد ہندوئوں کے دھرم کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے؟ ایسی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی لیکن پھر بھی بی جے پی اِس راستے پر بگٹٹ بھاگی چلی جارہی ہے۔ اب بھارت میں یہ کھیل تو شروع ہوہی چکا ہے‘ دیکھیے کہاں جا کر رکتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک یہ رکے گا‘ تب تک بہت کچھ اِس کی زد میں آکر خاکستر ہو چکا ہو گا۔ اقلیتوں کے حوالے سے تو اِس کی بہت سی جھلکیاں منظرعام پر آچکی ہیں لیکن اب خود قدرے معتدل بھارتی بھی اس کی زد میں آ گئے ہیں‘ جو کوئی اس طرزِ عمل کی مخالفت کرتا ہے‘ اسے گالیوں‘ دھمکیوں اور بعض صورتوں میں حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس نے اب خود اکثریت کو بھی تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔
کافی عرصہ پہلے موہن داس گاندھی کی چند تحریریں نظر سے گزری تھیں‘ اِن میں سے چند ایک ذہن میں کہیں محفوظ رہ گئیں‘ ایک تحریر تھی: ''اگر ہندوستان تشدد کے نظریے کو قبول کرلیتا ہے تو یہ میرے لیے آزمائش کی گھڑی ہوگی، جس دن ہندوستان تشددکا راستہ اپنا لے گا تو اُس دن سے مجھے ہندوستان پر کوئی فخر نہیں ہوگا‘‘۔ تب اُنہیں یہ یقین ہو گا کہ بھارت کبھی سیکولر ازم کی راہ نہیں چھوڑے گا لیکن یہ اقتدار بہت ظالم ہوتا ہے۔ اقتدار کے لیے تو اورنگزیب عالمگیر نے اپنے سگے بھائی داراشکوہ کے ٹکڑے کروا دیے تھے۔ اقتدار کے لیے تو عثمانی حکومت میں بادشاہ بننے والے کے تمام بھائیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا تھا تاکہ تخت کا کوئی اور حقدار نہ پیدا ہو جائے۔ ایسی اَن گنت مثالیں ملتی ہیں‘ پھر اقلیتوں کی لاشوں پر پاؤں رکھ کر اقتدار تک پہنچنے میں کیا امر مانع ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ سب کچھ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنی غلطیوں کا خراج تو بہرحال ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیا یہ بی جے پی کی انتہاپسندانہ سوچ کا نتیجہ نہیں ہے کہ بھارت میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان خلیج تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے‘ نفرتوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے‘ خود اکثریت کے اندر متصادم آرا پنپ چکی ہیں۔ انتہاپسندی کا حتمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب اِس کی آگ پھیلتی ہے تو پھر کسی کے بارے میں یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اِس سے محفوظ رہ سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن پر پہنچ جائیں گے ‘تب واپسی کی کیا صورت ہوگی؟کوئی صورت ہوگی بھی یا اتنا بڑا ملک اپنوں کی لگائی ہوئی آگ میں ہی جل کر بھسم ہوجائے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں