"FBC" (space) message & send to 7575

سوچ بچار

افغانستان میں طالبان کی فتح کی بنیاداُس معاہدے نے رکھ دی تھی جوقطر میں امریکا کے ساتھ طے پایا تھا۔ 29 فروری 2020ء کو طے پانے والا یہ معاہدہ چار مرکزی حصوں پر مبنی تھا۔ معاہدے کے یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا کہ اگر طالبان معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے تو امریکا اور اُس کے اتحادی 14ماہ کے اندراپنی تمام افواج افغانستان سے نکال لیںگے۔ اگست 2021ء تک واضح ہوچکا تھا کہ اب افغانستان پر طالبان کا اقتدار قائم ہونے میں صرف وقت حائل ہے۔ طالبان ایک کے بعد ایک شہروں پر قابض ہوتے جارہے تھے حتیٰ کہ وہ امریکی افواج کے مکمل انخلا سے دوہفتے قبل ہی کابل میں داخل ہوگئے۔ ایک طرف طالبان کابل پر اپنا تسلط مضبوط کررہے تھے اور دوسری طرف امریکی افواج کے انخلا کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ امریکہ‘ طالبان معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ افغانستان میںوسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے گی لیکن یہ نکتہ افغانوں کے روایتی خلفشار کا شکار ہوگیا۔ تب کے افغان صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار نے رہی سہی کسر پوری کردی اور افغانستان پر طالبان کا تسلط مکمل ہوگیا۔
طالبان ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آئے۔ اُن کی طرف سے مسلسل اِس بات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ وہ ماضی کی غلطیوںکو نہیں دہرائیں گے۔ یہ الگ بات کہ افغانوں کی اکثریت اُن پر اعتماد کرنے کے لیے تیارنہیں تھی اور یوں پورے ملک میں افراتفری پھیل گئی۔ بیشتر افغانوں کی کوشش اور خواہش رہی کہ وہ کسی طرح ملک سے فرار ہو جائیں۔ اِس کوشش میں متعدد افراد نے اپنی جانیں بھی گنوا دیں۔ اب طالبان ملک میں پھیلی ہوئی افراتفری پر قابو پانے میں کسی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں لیکن اُمور ِریاست مکمل طور پر ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ افغانوں کی اکثریت دوا‘دارو اور روٹی کے لیے ترس رہی ہے۔ ڈالروں کے انخلا اور ریاستی ڈھانچے کے یکدم انہدام نے مالیاتی نظام کو زمین سے لگا دیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ عالمی مالیاتی ناکہ بندی کب تک جاری رہے گی جس کے اثرات سے افغان عوام سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اب افغانستان کے حکمران فقط یہی سوچ رہے ہیں کہ ملک کو چلائیں کیسے؟
2018ء میں ہمارے ملک میں بھی ایک تبدیلی آئی تھی۔ اِس تبدیلی سے قبل‘ 2014ء میں 126 دنوں کے لیے وفاقی دارالحکومت کومفلوج بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ نہ قانون کی پاسداری اور نہ ہی اخلاقیات کو دھیان میں رکھا گیا۔ سیاسی اخلاقیات کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اوئے توئے کے کلچر کے ساتھ جھوٹ بولنے کی روایات کو مضبوط کیا گیا۔ وعدہ کیا گیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد 90دنوں کے اندر بدعنوانی کاخاتمہ کردیا جائے گا‘ گورنرہاؤسز کو پبلک پارک اور وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جائے گا۔ بیرونِ ملک پڑے ہوئے پاکستانیوں کے دوسو ارب ڈالر واپس لا کر مالیاتی اداروں کے منہ پر مارے جائیں گے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے۔ ایسی ترقی ہوگی کہ بیرونِ ممالک سے لوگ نوکریوں کے لیے پاکستان میں آیا کریں گے۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کو لوٹنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ آخر کار 2018ء میں اقتدار کا ہما ان کے سر پر آن بیٹھا۔ نوے دن تو کیا‘ اب تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے لیکن حاصل حصول کیا ہوا؟گورنرہائوسز نہ صرف قائم ہیں بلکہ اُن کے اخراجات بھی پہلے کی طرح ہیں۔ بیرونِ ملک پڑے ہوئے پاکستانیوں کے ''دو سو ارب ڈالرز‘‘ کے بارے میں تو اب خود حکومتی زعما یہ تسلیم کررہے ہیں کہ وہ ایک سیاسی سٹنٹ تھا۔ غربت کو تو کیا ختم کرنا تھا کہ مزید دوکروڑ پاکستانیوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا گیا۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والوں نے لاکھوں لوگوں کو نوکریوں سے محروم کردیا۔ جن بدعنوانوں کو عبرت کا نشان بنایا جانا تھا‘ اُنہیں اپنے اردگرد جگہ دی گئی۔ اِس تمام صورت حال کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ بظاہر حالات یہی بتا رہے ہیں کہ یہ امتحان جلد ختم ہونے والا نہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ مہنگائی 22ماہ کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی ہے۔ ڈالر کے نرخ دیکھ لیجیے کہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران تجارتی خسارے میں سوفیصد تک اضافہ ہوا‘ وہ بھی ایسے وقت میں جب ہمارا ملک ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسی باتیں سننے میں آئیں کہ سب سے بڑے صوبے میں کروڑوں روپے لے کر افسران کو پوسٹنگز دی گئیں۔ جنہیں پنجاب کا ڈاکوقرار دیا جاتا تھا‘ آج اس صوبے میں حکومت اُنہی کی مرہونِ منت ہے۔ چینی سکینڈلز کی تحقیقات تو ضرور ہوئیں لیکن مجال ہے کہ کسی کو سزا ملی ہو۔ ادویات سکینڈل سامنے آیا تو اِس پر بھی مٹی ڈال دی گئی۔ ساڑھے تین سال ہونے کو ہیں لیکن حکومت ابھی تک اپنی ٹیم ہی تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ پنجاب کی صورت حال دیکھ لیں جہاں چیف سیکرٹریز اور آئی جیز چھ‘ چھ بار تبدیل کیے جاچکے ہیں۔ ایسا اِس لیے نہیں ہورہا کہ یہ تبدیل کیے جانے والے افسران نااہل تھے بلکہ جو بھی افسر کسی مرحلے پر موصول ہونے والے خلافِ قانون احکامات پر عمل کرنے میں لیت ولعل سے کام لیتا ہے‘ وہ ناپسندیدہ ٹھہرتا ہے۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ تبدیل کردیے جانے والے تمام کے تمام اعلیٰ افسران نااہل تھے؟عجیب با ت ہے کہ جو ہروقت دوسروں پر اظہارِ برہمی کرتے رہتے ہیں، وہ اپنی کارکردگی کی بات کرنے کے لیے تیاردکھائی نہیں دیتے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اُنہیں ایسے کمزور افسران درکار ہیں جو ہروقت ''یس سر‘‘ کرتے رہیں۔ ڈیمانڈ یہ ہے کہ چاہے مہنگائی تاریخ کی بلندترین سطح پر پہنچ جائے مگر کوئی سوال نہ کرے۔ گیس دوسو فیصد سے بھی زیادہ بڑھا دیں‘ کوئی چوں بھی نہ کرے۔ یہ کہہ کر زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے کہ پاکستان دنیاکا سستا ترین ملک ہے اور یہ کہ ملک تیزی سے ترقی کررہا ہے۔
یوں بظاہر یہ لگتا ہے کہ ایک طرف جہاں افغان حکمران سوچ رہے ہیں کہ ملک کو کیسے چلایا جائے‘ ویسے ہی ہمارے حکمران بھی دانتوں تلے انگلیاں دابے بیٹھے ہیں کہ اب کیا کریں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک بندوق کے زور پر اقتدار میں آیا اور دوسری طرف بیلٹ کا سہارا لیا گیا۔ معاملہ یہ ہے کہ جہاں بھی طاقت کے زور پر فیصلے کیے جاتے ہیں‘ وہاں ایسی ہی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ افغانستان کو چھوڑیں‘ ہمیں خود سے غرض ہونی چاہیے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم نے اپنے کون سے راستے کا انتخاب کرلیا ہے۔ ایک بار نہیں‘ ہزار بار مان لیا کہ سابق حکمران بدعنوان تھے لیکن آپ تو کچھ اچھا کرکے دکھائیں۔ اگر لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ چوروں کے دور میں چینی 55روپے کلو تھی اور اب یہ سور رپے تک پہنچ چکی ہے تو اِس میں غلط کیا ہے؟ اُن کے دورمیںہسپتالوں میں تمام ٹیسٹ مفت ہوتے تھے اور آج اِن کے اچھے خاصے پیسے وصول کیے جاتے ہیں تو کیا یہ غلط ہے۔ پچھلوں اور موجودگان کے مابین تقابل کے حوالے سے درجنوں مثالیں دی جاتی ہیںلیکن مجال ہے جو حکمران کوئی صاف بات بھی کرلیں۔ آج یہ کہا جا رہا ہے کہ سبزیاں بیچ کر ملک ترقی نہیں کرسکتا‘ حالانکہ یہی احباب مرغیاں بیچ کر ترقی کے منصوبے بنایا کرتے تھے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اپنی غلطیوں پر یہ کہہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت چلانے کے لیے ہماری تیاری نہیں تھی۔ تیاری آپ کی نہیں تھی اور خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ چہروں کی تبدیلی میں تو کامیابی حاصل کرلی گئی لیکن شاید یہ اندازہ کسی کو نہیں تھا کہ نئے آنے والے حالات کے آگے اس قدر بے بس ہوں گے۔ اب اگر حکومت یہ سوچ بچار کررہی ہے کہ ملک کو چلانا کیسے ہے تو ہم بھی اِسی سوچ بچار میں غلطاں ہیںکہ زندگی کیسے گزارنی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں