"FBC" (space) message & send to 7575

فارن فنڈنگ کیس اور اخلاقی ساکھ

2014ء میں تحریک انصاف کے ایک بانی رکن اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگز کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کرتے ہیں۔ اپنی درخواست میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اورغیرملکیوں سے فنڈز حاصل کیے ہیں جو خلافِ قانون ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ ممنوعہ طور پر فنڈز حاصل کرنے کے لیے کمپنیاں بنائی گئیں جن میں آنے والی رقوم پی ٹی آئی نے حاصل کیں۔ پیشتر اِس کے کہ درخواست پر کوئی کارروائی شروع ہوتی‘ تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائرکردی کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اِس حوالے سے ایک بار نہیں‘ چھ بار اسلام آباد ہائیکورٹ کا رخ کیا گیا۔ ساتویں بار جب ہائیکورٹ حکم امتناعی دینے سے انکار کرتی ہے تو پھردرخواست پر تحقیقات کرنے والی الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کے دائرۂ کار کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جاتا ہے۔ 2016ء میں مسلم لیگ نون کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست پر سپریم کورٹ یہ فیصلہ سناتی ہے کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار حاصل ہے۔ اتنی طویل قانونی جنگ کے بعدبھی معاملہ ختم نہیں ہوتا بلکہ 2018ء تک مختلف عدالتی فورمز پر چلتا رہتا ہے۔ اِس دوران حکومت میں آنے کے بعد‘ پی ٹی آئی کی طرف سے بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ معاملے کو ہرممکن حد تک طول دیا جائے۔ اُس وقت کے رکن قومی اسمبلی اور آج کے وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب کا یہ بیان سامنے آتا ہے کہ کوئی بھی کسی سیاسی جماعت کو حاصل قانونی آپشنز استعمال کرنے سے نہیں روک سکتا۔ اس کے بعد وہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی فنڈنگز کا کیس بھی الیکشن کمیشن میں دائر کر دیتے ہیں۔ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود بالآخرطویل عرصے کے بعد اب تحریک انصاف کی فنڈنگز کے حوالے سے کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ یہاں بھی عجیب صورت حال دیکھنے میں آئی کہ جو یہ تمام معاملہ رکوانے کی کوشش کرتے رہے‘ اب اُن کی طرف سے قرار دیا جارہا ہے کہ سامنے آنے والی تحقیقات کے نتیجے میں اُن کے مؤقف کی فتح ہوئی ہے۔ فتح کی بابت جاننے سے پہلے مختصراً الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی تحقیقات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
سکروٹنی کمیٹی کی تحقیقات کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جانے والے سالانہ گوشواروں میں پارٹی کے 22اکاؤنٹس اور 31 کروڑ روپے چھپائے‘ عطیات سے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئیں جبکہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس میں شامل کیش رسیدیں بینک سٹیٹمنٹ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ایک دستاویز کہتی ہے کہ 2010ء سے 2013ء کے درمیان پی ٹی آئی کو دوسو تیس کمپنیوں نے ایک لاکھ ڈالر سے زائدجبکہ 41 غیرملکیوں نے 19 ہزار ڈالرکے عطیات دیے۔ تحقیقات کے نتیجے میں دیگر متعدد تفصیلات بھی طشت ازبام ہوئی ہیں۔ اِس کے بعداب پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن کمیشن سے درخواست کی گئی ہے کہ فارن فنڈنگ رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے حیرت انگیز طور پر ایسے مطالبات بھی سامنے آئے کہ اُن کی رپورٹ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کی رپورٹس کے ساتھ پبلک کی جائے۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اسد عمرکی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ جب رپورٹ پبلک ہوگی تو اِس کی شفافیت دنیا دیکھے گی۔ رپورٹ کے کچھ مندرجات سامنے آنے پر وزیراعظم صاحب کہتے ہیں کہ وہ فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ محترم وزیراعظم نے اِس توقع کا اظہار بھی کیا کہ اِس سے قوم کو باضابطہ سیاسی فنڈریزنگ اور قوم کی قیمت پرمفادپرست گروہوں سے مال اینٹھنے کے فرق کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ دیگر وزرا کی طرف سے بھی رد عمل سامنے آیا جس کے مطابق فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کوسرخروقرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اِس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا کہ اچھی بات یہ ہوگی کہ رپورٹ کا مواد میڈیا پرنہیں جانا چاہیے۔ مطلب حساب کتاب بالکل شفاف ہے لیکن پھر بھی اِسے پبلک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ الیکشن کمیشن میں جو رپورٹ پیش ہوئی وہ پی ٹی آئی کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے کے معاملات ہیں، گویا تحقیقات پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ حکومت کے خلاف ہو رہی ہیں۔
یہ ہے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا مختصر سا احوال‘ جسے گزشتہ سات سالوں سے لٹکایا جارہا ہے۔ ایک موقع پرتوخود چیئرمین پی ٹی آئی یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ کیس کو التوا کا شکارکراتے رہے۔ مطلب تمام حساب کتاب شفاف ہونے کے باوجود اِس کی تحقیقات میں ہرطریقے سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ تحقیقات سے بچنے کے لیے ہر وہ آپشن استعمال کیا گیاجو استعمال کیا جا سکتا تھا اور اب جب کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں توحیرت انگیز طور پر تمام معاملے میں خود کوانتہائی شفاف قرار دیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ناقابل فہم طو ر پر یہ موقف اپنایاگیا کہ پی ٹی آئی کے حوالے سے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ تب تک پبلک نہ کی جائے جب تک دیگر جماعتوں کی رپورٹ تیار نہ ہوجائے۔ مطلب انہیں یہ حق ملنا چاہیے کہ جب تک اسی طرح کے کیس میں دیگر لوگوں کے خلاف فیصلہ نہیں سنایا جاتا‘ تب تک ان کے خلاف بھی فیصلہ نہ سنایا جائے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس قانون کے تحت ممکن ہو سکے گا کہ ایک کیس کو چھوڑکر پہلے دوسرے مقدمات سنے جائیں‘ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب انہیں اپنی بے گناہی کا بھرپوریقین ہے۔
اگر پی ٹی آئی کایہ دعویٰ مان لیا جائے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں کچھ بھی غلط نہیں ‘تب تو اُسے خود الیکشن کمیشن سے یہ درخواست کرنی چاہیے کہ رپورٹ کوجلدسے جلد پبلک کیا جائے۔ مگر حد یہ ہے کہ رپورٹ کے مندرجات سامنے آنے کے باوجود اِس کا دفاع کیا جارہا ہے۔ رپورٹ واضح طور پر کہتی ہے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے اہم تفصیلات چھپائی ہیں۔ اِس کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کو اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے۔ اِس بات کو کتنی مرتبہ دہرایا جائے کہ جب سب کچھ صاف ہے تو پھر اِس کی راہ میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جاتی رہیں؟ کیوں الیکشن کمیشن سے رپورٹ پبلک نہ کرنے کی درخواست کی گئی؟ کیوں اِسے پبلک کرنے کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی رپورٹوں کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے؟
اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کے گوشواروں میں کوئی گڑبڑہے تو ان کے خلاف بھی ضرور فیصلہ آنا چاہیے مگر پی ٹی آئی کامعاملہ اِس لیے الگ ہوجاتا ہے کہ یہ تو اقتدارمیں آئی ہی شفافیت کے دعووں کے ساتھ ہے۔ اِس جماعت نے جس طرح دوسرے ممالک رقوم اکٹھی کی ہیں، دوسری جماعتیں اِس حوالے سے اس سے کافی پیچھے دکھائی دیتی ہیں۔ انہیں شایداب بھی یہ اندازہ نہیں ہوپایا کہ الیکشن کمیشن کوتنقید کانشانہ بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کا یہ واضح کرتا ہے کہ کوئی بھی غیرملکی ادارہ، تنظیم یا شخصیت پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کی فنڈنگ نہیں کر سکتی۔ الیکشن ایکٹ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ اگر کسی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا الزام ثابت ہوجائے تو الیکشن کمیشن یہ فنڈزضبط کر سکتا ہے۔ اِس پاداش میں الیکشن کمیشن مذکورہ سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے لیے حکومت کو خط بھی لکھ سکتا ہے۔ اِس پر حکومت 15 روز کے دوران مزید کارروائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔ اب جب الیکشن کمیشن سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر عدالتی کارروائی شرو ع کرے گاتو اندازہ کر لیجئے کہ پی ٹی آئی کوکس طرح کے حالات کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اِن حالات میں پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی کی رکنیت پر بھی بڑا سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ معاملہ پوائنٹ آف نوریٹرن تک نہ جائے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو اس صورت میں پی ٹی آئی کی اخلاقی ساکھ کیا رہ جائے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں