"FBC" (space) message & send to 7575

وقت پڑنے پر

کم و بیش چھ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط یوکرین کی حالت ہرگزرتے دن کے ساتھ پتلی ہوتی جارہی ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہاں ایک کروڑ 70 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر مشتمل روس اور کہاں اُس کے مقابلے میں چھوٹا سا یوکرین۔ دونوں کا کسی بھی لحاظ سے کوئی مقابلہ نہیں لیکن یوکرین کی افواج اور عوام‘24فروری سے جاری روسی حملے کی سخت مزاحمت کررہے ہیں۔ اُنہیں آس اور اُمید ہے کہ شاید نیٹو اُن کی مدد کو آجائے اگرچہ اِس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کی طرف سے ایک سے زائدمواقع پر واضح کیا جاچکا ہے کہ وہ یوکرین میں افواج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اِن حالات میں یوکرین کو وہ ایٹمی ہتھیار ضرور یاد آ رہے ہوں گے جو ایک معاہدے کے نتیجے میں روس کو لوٹا دیے گئے تھے۔ یہ بات شاید بہت سے قارئین کیلئے حیرانی کا باعث ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ 1991ء سے 1996ء تک ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے یوکرین دنیا کی تیسری سب سے بڑی طاقت تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جب 1991ء میں یوکرین نے آزادی حاصل کی تو اِ س کے پاس کم از کم تین ہزار ایٹمی ہتھیار موجود تھے (اندازہ ہے کہ چین کے پاس 350، پاکستان کے پاس 160 اور بھارت کے پاس 150 ایٹمی ہتھیار ہیں) جو سوویت یونین نے وہاں رکھے ہوئے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کے باعث یورپی ممالک سخت تشویش میں مبتلا رہے۔ امریکا سمیت یورپ کے تمام ممالک کی بھرپورکوشش رہی کہ کسی طرح یوکرین کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے لیکن کافی عرصے تک یوکرین اِس کے لیے تیار نہ ہوا۔ اِن کوششوں میں روس بھی شامل رہا کہ سوویت دور کے اُس کے ایٹمی ہتھیار اسے واپس مل جائیں۔ بالآخر سب ممالک کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں 1994ء میں ایک معاہدہ طے پایا۔ ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں طے پانے والے اِس معاہدے کے نتیجے میں یوکرین نے اپنے تمام ہتھیار بتدریج روس کو واپس کر دیے لیکن اِس کے عوض اپنے تحفظ کی یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد۔ معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر تمام ممالک (برطانیہ، امریکا، فرانس اور چین) کی طرف سے بھی یوکرین کو اُس کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی تھی۔
اب ہم اپنی بات کو یہیں روکتے ہیں اور 1998ء کے دوران اپنے ملک کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ 11 مئی 1998ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے جس کے بعد ہمارا ملک شدید دباؤ محسوس کررہا تھا۔ بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کیے جانے کے فوراًبعد بھارتی رہنماؤں کی طرف سے انتہائی اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ عالمی طاقتیں بھرپور کوششیں کررہی تھیں کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکا جائے۔ ملک کی اعلیٰ ترین قیادت مسلسل اِس بات پر سوچ بچار کررہی تھی کہ دھماکے کیے جائیں یا نہیں؟تب کے وزیراعظم میاں نواز شریف پر دھماکے کرنے کے لیے کافی عوامی دباؤ تھا لیکن دوسری طرف وہ دھماکے نہ کرنے کے لیے عالمی دباؤ بھی برداشت کررہے تھے۔ 16مئی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کافی تفصیل سے خود پر موجود دباؤ کے حوالے سے بات کی۔ ملک میں یہ رائے مضبوط تر ہوچکی تھی کہ پاکستان کو بہرصورت ایٹمی دھماکے کرنے چاہئیں۔ اہم بات یہ تھی کہ جب اُس وقت کے وزیرخارجہ گوہر ایوب نے اِس معاملے پر اپوزیشن رہنما محترمہ بینظیر بھٹو سے حمایت طلب کی تو اُن کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کیا گیا۔ اسی دوران پاکستان کو عالمی طاقتوں کی طرف سے تحفظ کی تمام ''ضمانتیں‘‘ فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی۔ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض بھاری مالی امداد دیے جانے کے وعدے بھی کیے گئے۔ 11مئی سے 28مئی تک‘ اٹھارہ دنوں میں تب کے امریکی صدر بل کلنٹن نے نواز شریف کو پانچ بار فون کیا۔ فون پر بات نہ بنی تو بل کلنٹن نے اپنے خصوصی نمائندے سٹروب ٹالبوٹ کو پاکستان بھیجا۔ دنیا میں ایٹمی حملے کا نشانہ بننے والے واحد ملک جاپان کا ایک وفد بھی اِس درخواست کے ساتھ پاکستان آیا کہ ایٹمی دھماکے نہ کیے جائیں۔ بالآخر ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اِس مقصد کیلئے بلوچستان کے علاقے چاغی کا انتخاب کیا گیا‘ جہاں یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کے ساتھ حساب چکتا کردیا۔ اِن دھماکوں کے ساتھ ہی بھارتی رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات کاسلسلہ تھم گیا؛ اگرچہ بعد ازاں ملک کوبہت سی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اب ذرا اندازہ لگائیے کہ جیسی کوششیں پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے کی گئی تھیں‘ ویسی ہی کوششیں یوکرین کو اِس بات پر آمادہ کرنے کے لیے کی گئی تھیں کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار روس کو واپس کردے۔ اُسے اس کے تحفظ اور سلامتی کی بھرپورضمانت فراہم کی گئی تھی لیکن نتیجہ کیانکلا؟ ذاتی طور پر میں ہمیشہ ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف رہا ہوںلیکن آج یہ سوال ذہن میں بار بار اٹھ رہا ہے کہ اگر پاکستان بھی اپنے تحفظ کی عالمی ضمانتیں قبول کرلیتا تو کیا وقت پڑنے پر عالمی طاقتیں پاکستان کی حفاظت کرتیں؟اگر ایسا ہی تھا تو پھرا ٓج یوکرین کو تحفظ کی ضمانت دینے والی طاقتیں کیا کررہی ہیں؟سوال یہ بھی ہے کہ اگر یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہوتے تو کیا روس 2014ء میں یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو سکتا تھا؟بیشتر صورتوں میں اِس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کیلئے نہیں مگر اِن کی موجودگی تحفظ کی ضمانت ضرور فراہم کرتی ہے۔ رواں سال کے اوائل میں جب یوکرین پر روسی حملے آثار پیدا ہونا شروع ہوئے تھے‘ تب یوکرین کے صدر نے ایک سے زائد مواقع پر بڈاپسٹ معاہدے کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسری طرف روس نے یہ الزام لگایا کہ دراصل یوکرین دوبارہ سے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ روس کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی معاملہ ہے کہ جب دوبھائیوں نے گاؤں سے باہر کماد لگانے کا فیصلہ کیا اور دونوں اِس حوالے سے گفتگو کرہی رہے تھے کہ ایک تیسرا شخص بولا کہ جہاں آپ لوگ کماد لگانا چاہتے ہیں، وہاں خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں ہیں‘ وہ کمادکے کھیت اُجاڑ دیں گے۔ اِس پر دونوں بھائیوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ اپنے ساتھیوں سمیت جاکر خانہ بدوشوں کو مارنا شروع کردیا۔ مار کھاتے کھاتے وہ بس یہی پوچھتے رہے کہ ہمارا قصور تو بتا دو۔
روسی حملے کے دوران بہت سے یوکرینی رہنماؤں کے ایسے بیانات سامنے آچکے ہیں کہ اُن کے ملک کو کچھ وارڈ ہیڈز اپنے پاس رکھنے کی اشد ضرورت تھی۔ خیر! اب وہ وقت گزر چکا‘ البتہ اِس سارے معاملے میں امریکا اور مغربی اقوام کا کردار نہایت افسوسناک رہا۔ رواں سال کے آغاز پر ہی یوکرین پر روسی حملے کے آثار دکھائی دینا شروع ہوچکے تھے لیکن یوکرین کو تحفظ کی ضمانت دینے والے تمام ممالک خاموش تماشائی بنے رہے۔ تحفظ کی ضمانت دینے والا ایک ملک‘ روس تو جارح بن چکا ہے۔ اِس تمام تر صورت حال کانتیجہ یہ ہے کہ یوکرین اپنے سے کہیں بڑے پڑوسی ملک کا مقابلہ کرتے کرتے کھنڈر بنتا جارہا ہے۔ اس تناظر میں آج پاکستان کا ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ ایک لمحے کوسوچیں کہ اگر پاکستان عالمی یقین دہانیوں پر اپنے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کر دیتا تو کیا بھارت کی جارحیت کے نتیجے میں دنیا پاکستان کے دفاع کے لیے سامنے آتی؟ ہرگز نہیں! جنگی جنون میں مبتلا بھارت کی بالادستی کی خواہش کے سبب اب بھی جنگ کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں ایٹمی ہتھیار ہی پاکستان کو تحفظ کی ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ وقت پڑنے پر دیگر ممالک کی طرف سے فراہم کی گئی تحفظ کی ضمانتیں کچھ کام نہیں آتیں۔ اِس بات کو یوکرین پر روسی حملے اور امریکا سمیت نیٹو کے رویے نے پوری طرح سے ثابت کردیا ہے۔ البتہ فوجی قوت ہونے کے ساتھ معاشی لحاظ سے مضبوط ہونا بھی بہت ضرور ی ہے۔ یوکرین کی صورتِ حال نے یہ بات تو ثابت کر دی ہے کہ جب مفادات کا رخ بدل جاتا ہے تو وقت پڑنے پر تحفظ کی ضمانتیں دینے والے بھی منہ موڑ لیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں