"FBC" (space) message & send to 7575

بھارتی سیاست میں مذہبی کارڈ

ہمارے خطے کی سیاست میں مذہبی کا رڈ کے استعمال کی روایت نئی نہیں۔ سرحد کے دونوں اطراف سے ایسی مثالیں مل جاتی ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اِس حوالے سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بھارتی سیاست کے موجودہ حالات کی بات کی جائے توبھارت کی پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے ایک مرتبہ پھر مذہبی کارڈ کے استعمال سے بہترین نتائج حاصل کیے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک کی پانچ ریاستوں؛ منی پور، گوا، اُتراکھنڈ، پنجاب اور اُترپردیش کی ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے ووٹنگ کا عمل سات مارچ کو مکمل ہواتھا۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد دس مارچ کو نتائج کا اعلان کیا گیا تو سوائے پنجاب کے‘ باقی چاروں ریاستوں میں بی جے پی میدان مارنے میں کامیاب رہی۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے حیران کن طور پر بی جے پی، اکالی دَل اور کانگریس کو شکست دے کر کلین سویپ کیا۔ عام آدمی پارٹی (عاپ) کی کامیابی سے پہلے پنجاب میں کانگریس کی حکومت تھی جس کے وزیراعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی تھے جو حالیہ انتخابات میں اپنے حلقے سے بھی ہارگئے۔ دوسری جانب کانگریس کی طرف سے مشرقی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدوار‘ نامور کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو بھی انتخابات میں شکست کھا گئے۔ سدھونے دوحلقوںسے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن دونوں میں ہی اُنہیں شکست کا سامناکرنا پڑا۔ سابق وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ بھی پٹیالہ سے اپنی روایتی نشست گنوا بیٹھے۔ کانگریس کو بھرپورتوقع تھی کہ وہ یہاں ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن اُس کی یہ توقع پوری نہ ہوسکی اور میدان عام آدمی پارٹی نے مارلیا۔ حالیہ بھارتی انتخابات میں پنجاب واحد ریاست تھی جہاں عوامی مسائل کے مدعے پر انتخابی مہم چلائی گئی اور مذہب کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر یا بہت کم دکھائی دیا۔ سوائے بی جے پی کے‘ کسی دوسری جماعت نے انتخابات میں مذہب کارڈ کو استعمال نہیں کیا۔ اگرچہ بی جے پی کی طرف سے مذہبی کارڈ کھیلنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن عوامی سطح پر اِسے پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ مشرقی پنجاب کے انتخابی نتائج سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ پنجاب کا ووٹر مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے کے خلاف ہے۔
پنجاب کے علاوہ باقی چاروں ریاستوں میں بی جے پی مذہبی کارڈ کے استعمال سے بھرپورنتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست‘ اُترپردیش کے انتخابات میں سب سے زیادہ دلچسپی دیکھنے میں آئی۔ یہ وہی ریاست ہے جہاں بھارتی مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد آبادہے اور یہی وہ ریاست ہے جہاں انتہائی سخت گیر ہندو رہنما یوگی ادتیہ ناتھ وزیراعلیٰ تھا۔ وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے اپنے دورِ حکومت میں اکثریتی ہندو آبادی کے مذہبی جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے ہروہ حربہ استعمال کیا‘ جو وہ کرسکتا تھا۔ ایسے ریستوران تک بند کرا دیے گئے جہاں گوشت سے بنی ڈشز فروخت ہوتی تھیں، اِن میں سے بیشتر ریستورانوں کے مالکان مسلمان تھے مگر مسلمانوں کے گوشت کھانے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ اسی طرح ایک ایسا متنازع قانون پاس کیا گیا کہ جس کے تحت گوشت فروخت کرنے والی دکانیں بھی بند کرادی گئیں۔ اِن اقدامات سے جہاں مسلمانوں کو معاشی طور پر زیربار کیا گیا‘ وہیں ہندو اکثریت کو اپنا ہمنوا بنانے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔ اِسی ریاست میں بین المذاہب شادیوں کے خلاف متنازع قانون متعارف کرایا گیا۔ یوگی ادتیہ ناتھ کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر تشدد اور ان کی ہلاکتوں کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔ یوگی بخوبی جانتا تھا کہ اپنی کارکردگی کی بنا پر وہ کبھی بھی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا اسی لیے وہ ایسے متنازع بیانات دیتا اور اقدامات کرتا رہاتاکہ ہندو ووٹروں کو لبھایا جا سکے۔ اس کی دیکھا دیکھی اُس کی جماعت کے دیگر انتہاپسند رہنماؤں نے بھی اُس کی پیروی شروع کر دی۔ اپنی انتخابی مہم میں یوگی ادتیہ ناتھ نے اسّی (ہندو) بمقابلہ بیس (مسلمان) کا نعرہ لگایا تھا۔ اِس نعرے نے ہندوؤں میں اتنی مقبولیت حاصل کی کہ بی جے پی ایک مرتبہ پھرریاستی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کر کے کامیاب ٹھہری۔ گزشتہ پچیس سالوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی جماعت مسلسل دوسری بار ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کر پائی ہو۔
آبادی کے لحاظ سے بھارت کی اِس سب سے بڑی ریاست کے حوالے سے ایک اور بات بہت اہم ہے‘ وہ یہ کہ عوامی مسائل کے حوالے سے بھارت کی یہ ریاست بدترین حالات اور بدحالی کا شکار ہے۔ اِس کی معیشت میں ابتری آئی ہے اور بیروزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اشیائے خور و نوش کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہ ریاست خواتین کے ساتھ پیش آنے والے ظالمانہ واقعات کی بناپر بھی ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہتی ہے۔ کورونا کی شدت کے دِنو ں میں یہاں ہزاروں افراد آکسیجن اور علاج معالجے کی مناسب سہولتیں نہ ملنے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔ اِس دوران ہندوئوںکے نزدیک مذہبی اہمیت کا حامل دریائے گنگا انسانی لاشوں سے بھر گیا تھا۔ تب ریاست کے شمشان گھاٹوں میں دن رات چتائیں جلتی رہتی تھیں جبکہ کورونا کی آڑ میں مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کو معتوب کرنے کا سلسلہ بھی سب سے زیادہ یہیں دیکھنے میں آیا۔ اِس ناقص کارکردگی کے باوجود بی جے پی مذہبی جذبات کو برانگیختہ کر کے ریکارڈ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ یوگی نے اپنی گزشتہ انتخابی مہم کے دوران نئی نوکریاں دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ نئی نوکریاں توکیا دی جاتیں‘ اُلٹا ہزاروں کی تعدادمیں نوجوان بیروزگارہوگئے۔ دیگر انتخابی وعدوں کا بھی ایسا ہی حال ہوا۔ اِسی باعث یوگی نے حالیہ انتخابی مہم کے دوران صرف اور صرف مذہبی کارڈ استعمال کرنے پر زور رکھا۔ یوگی انتہا پسند ہندوئوں میں اس قدر مقبولیت حاصل کر چکا ہے کہ اب اسے اگلے بھارتی وزیراعظم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ریاست اُترا کھنڈ میںبھی صورت حال اُترپردیش جیسی ہی رہی۔ اِسی ریاست کے شہر ہری دوار میں علی الاعلان بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی باتیں ہوتی رہیں۔ ان باتوں کی عالمی سطح پر سخت مذمت کی گئی اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے خدشات تک ظاہر کیے گئے لیکن معاملات میں زیادہ سدھار نہیں آسکا اور حالات اب بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں بلکہ بی جے پی کی مسلسل دوسری کامیابی کے بعد ان میں مزید ابتری کا خدشہ پیدا ہو چلا ہے۔ دیگر دو ریاستوں‘ منی پور اور گوا میں کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی کوشش تو بہت کی لیکن سب کوششیں رائیگاں گئیں۔ اِس دونوں ریاستوں میں بھی بی جے پی نے میدان مارلیا۔ اِن انتخابات کو بھارت کے 2024ء کے عام انتخابات کی ریہرسل بھی قرار دیا جارہا تھا۔ ان انتخابی نتائج کے تناظر میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی حکمت عملی کیا ہوگی اور ووٹرز کا زیادہ رجحان کس طرف رہے گا۔ ایسے میں یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ آنے والا وقت مسلمانوں سمیت وہاں بسنے والی دیگر اقلیتوں کے لیے خاصا مشکل رہے گا کیونکہ جب ایک مرتبہ انتہا پسندانہ سوچوں کو آزادی مل جائے توپھر اُنہیں قابو میں لانا ناممکن نہیں رہتا۔ اِس وقت بھارت میں کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ اُترپردیش کے سابق گورنرعزیز قریشی کے نزدیک یہ صورتحال بھارت میں خانہ جنگی جیسے حالات پیدا کررہی ہے۔ اِس تبصرے کی پاداش میں اب وہ بغاوت کا مقدمہ بھگت رہے ہیں۔ مطلب جس مخالف کی آوازپسندنہ آئے‘ اُسے باغی قراردیا جا رہا ہے۔ بھارت کے برعکس ہمارے ہاں سیاست میں جزوی طور پر تو مذہبی کارڈ ضرور استعمال ہوا لیکن اِسے کبھی عوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔ بھارت میں صورتحال یکسر مختلف دکھائی دے رہی ہے کہ جہاں پانچ میں سے چار ریاستوں میں بی جے پی نے میدان مار کر ظاہر کردیا ہے کہ ہندو اکثریت کیا سوچ رہی ہے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے اس کے خیالات کیا ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں