"FBC" (space) message & send to 7575

صرف تقریریں

یہ بات ایک مرتبہ پھر بھرپور سنگینی کے ساتھ ثابت ہوگئی ہے کہ اقتدار کی خاطر کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ کرسی بچانا مقصود ہوتو پھر کوئی اصول، کوئی قانون، کوئی ضابطہ اور کوئی اخلاقیات آڑے نہیں آسکتیں۔ مرکز اور پنجاب میں جو کچھ ہوا‘ اُس نے سب کی کھلی ہوئی آنکھوں کو مزید کھول دیا ہے۔ مرکز میں نمبر گیم تو کافی دیر سے ظاہر ہوچکی تھی سو جیسے ہی تحریک عدم اعتمادپر رائے شماری کی بات آئی تو تحریک ہی مسترد کر دی گئی۔ قرار دیا گیا کہ تحریک عدم اعتماد غیرملکی سازش کے تحت غیرآئینی طور پر پیش کی گئی ہے لہٰذا اِس پر رائے شمار ی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ سب کچھ اُن کی طرف سے ہوا جو چند روز پہلے تک اِس بات پر شکر ادا کررہے تھے کہ اپوزیشن نے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے۔ وزیراعظم صاحب کی طرف سے قرار دیا جارہا تھا کہ تحریک آنے کے بعد اب وہ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں کو ایک ہی گیند سے کلین بولڈ کردیں گے۔ فیصلے کی گھڑی آئی تو راہِ فرار اختیار کرلی گئی۔ اِس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی کال دی گئی کہ وہ ملک کے خلاف غیرملکی سازش کو ناکام بنانے کے لیے سڑکوں پر نکلیں۔ کہا گیا کہ نوجوانوں وزیراعظم یا حکومت کیلئے نہیں بلکہ اپنے بہتر مستقبل کیلئے سڑکوں پر نکلیں اور عالمی سازش کو ناکام بنانے کیلئے حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں۔ اپنی اِس جنگ کو نیکی اور بدی کامعرکہ بنانے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔ یعنی جو حکومت کا ساتھ دے گا وہ دراصل حق کے ساتھ ہوگا وگرنہ دوسری صورت میں وہ باطل قوتوں کا نمائندہ گردانا جائے گا۔ جب یہ تمام حربے ناکام ہو گئے تو پھر تحریک عدم اعتماد کو ہی غیرآئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا۔
یہ اُن کا طرزِ عمل ہے جو مخالفین کو طرح طرح کے القابات سے نوازنے کے ساتھ ساتھ قوم کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ جس طرح کے پھول ان رہنمائوں کے منہ سے جھڑتے رہے‘ ویسے ہی گل اُس کے حواری بھی کھلاتے رہے۔ اوئے، توئے کے کلچرکو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ملک کو ریاستِ مدینہ بنانے کے دعوے بھی زوروشور سے جاری رہے ۔ البتہ یہاں پر یہ سوال بجا طور پر کیا جاسکتا ہے کہ کیا سب خرابیاں صرف موجودہ حکومت میں ہیں؟اِس کا بہت سادہ سا جواب ہے کہ ایسی بات بالکل بھی
نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے اگر کسی غلطی‘ کسی عیب کے حوالے سے ایک عاصی و خاطی کا مقابلہ ہمیشہ خود کو پاک صاف قرار دینے والے کسی شخص سے کیا جائے تو کس پر زیادہ تنقید ہو گی۔ یقینا وہی زیادہ تنقید کی زد میں آئے گا جو ہمیشہ خودکو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن اپنے عمل سے یہ بات ثابت نہ کرسکا۔ یہاں تو معاملہ اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ اپنے اقتدار کی خاطر انتہائی اہم سفارتی معاملات کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے یہ تک سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ اِس کے ملک کے حوالے سے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ وہ خط جو 27مارچ کے جلسے میں لہرایا گیا تھا‘وہ بعد میں ایک غیر ملک میں تعینات ایک پاکستانی سفیر کی رپورٹ نکلی لیکن اِس پر ایک طوفان کھڑاکرنے کی بھرپورکوشش کی گئی۔ کون سا کارڈ ہے جسے اقتدار بچانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا لیکن بات پھر بھی نہ بن سکی۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے اِس بات کا بھی احساس نہیں کیا گیا کہ عوام کی بڑی تعداد کے جذبات کو بری طرح ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ جنہوں نے اِن کی باتوں اور وعدوں پر اعتبار کیا تھا‘ اُن کے اعتماد کو‘عوام کو تو چھوڑیں، برطرف کیے جانے والے گورنرپنجاب چودھری محمد سرور اور منحرف رہنما علیم خان کی باتیں بھی بہت سی کہانیاں بیان کررہی ہیں۔ چودھری سرور کی ایک بات نے میری ایک سٹوری کی بھی تائید کردی کہ جمعہ کے روز کو اچانک پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ حکومت کے خیال میں اپوزیشن بروقت اپنے اراکین اجلاس میں نہیں لاسکے گی۔ اِسی سوچ کے تحت اچانک اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا لیکن اپوزیشن کو پہلے ہی بھنک پڑ چکی تھی کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اِسی خدشے کے پیشِ نظر اپوزیشن نے پہلے سے تیاری کررکھی تھی جو بروقت اپنے نمبر پورے کرنے میں کامیاب ہوگئی‘ سو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہر طرف بے یقینی چھائی ہوئی ہے۔ اِن سطور کی تحریر تک ملکی سیاسی صورت حال بدستور کنفیوژن کا شکار ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟بات صرف اتنی سی ہے کہ آخر ہم کیوں آئین اور قانون پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے؟کیوں ہمیں ہرصورت میں صرف اقتدار ہی چاہیے ہوتا ہے؟ایک توقع پیدا ہوئی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت میں شاید آئین اور قانون کی بالادستی کا خواب پورا ہوجائے گا۔ کچھ توقع پیدا ہوئی تھی کہ شاید واقعتاً دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ کی عزت بحال ہو گی۔ عوام نے خواب دیکھنا شروع
کردیے تھے کہ جلد ہی دوسرے ممالک سے لوگ نوکریوں کے لیے ہمارے ملک میں آیا کریں گے۔ بہت جلد بیرونِ ملک پڑے ہوئے ملک کے اربوں ڈالر وطن واپس آجائیں گے۔ بس تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کی دیر ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی لیکن اب صورت حال پر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً چار سالوں کے دوران صرف بیانات سے ہی کام چلانے کی کوششیں کی جاتی رہی۔ عملاً صورت حال پہلے سے زیادہ خراب ہوئی ہے۔ کسی ایک بھی شعبے کی مثال نہیں دی جاسکتی کہ جس کی حالت میں بہتر ی آئی ہو۔ کرپشن کے حوالے سے علیم خان اور چودھری سرور‘ دونوں نے ایسی باتوں کی تصدیق کی ہے کہ بھاری رقوم لے کر سرکاری اہلکار لگائے جاتے رہے۔ ملکی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہوگا جب اِس سطح پر کرپشن کی باتیں اتنے بڑے پیمانے پر سامنے آئیں۔ کل تک جنہیں ملنا بھی پسند نہیں کرتے تھے‘ وقت پڑنے پر اُنہیں ہی وزارتِ اعلیٰ کا اُمیدوار نامزد کردیا گیا۔ بقول سابق گورنر پنجاب‘ تحریک انصاف کے 186 اراکینِ اسمبلی ہیں لیکن اِن میں سے وزیراعلیٰ پنجاب کے اُمیدوار کے طور پر کوئی ایک بھی رکن پسند نہیں آیا۔
لگے ہاتھوں غداری کے الزامات کے حوالے سے بھی کچھ بات کرلیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا پتا ہے جسے کسی بھی وقت‘ کسی کے بھی خلاف کھیلا جاسکتا ہے۔ عمومی طور پر ہمارے جیسے نیم خواندہ معاشروں میں اِس کے ''بہت اچھے نتائج‘‘ سامنے آتے ہیں۔ جسے غدار قرار دینا مقصود ہو‘ سب سے پہلے اُسے غیر ملکی ایجنٹ قرار دینا شروع کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کچھ سچی‘ کچھ جھوٹی کہانیوں کو مسالا لگا کر اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ان الزامات میں حقیقت کا عنصر نمایاں ہونے لگتا ہے۔ آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے گا کہ پچھلے چند سالوں کے دوران کس کس پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے جاتے رہے اور اِن کا مقصد کیا تھا۔ یہاں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ اپوزیشن کی نظر میں حکومت اور حکومت کی نظر میں اپوزیشن والے غدار ہوتے ہیں۔ فلاں کی غیر ملکی وزیراعظم سے دوستی ہے اور فلاں فلاں غیر ملکی ایجنسی کے پے رول پر ہے۔ عوام کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ غداری کے الزامات صرف حصولِ مقاصد کے لیے عائد کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم غداری کی آئینی تشریح پڑھیں تو ہماری آنکھیں کھل جائیں لیکن ہم ٹھہرے باتوں کا چسکا لینے والے۔ ہمیں کیا پڑی ہے کہ کسی کے حوالے سے سامنے آنے والے الزامات یا باتوں کا گہرائی سے جائزہ لیں۔ ہمیں تو بس زندہ باد‘ مردہ باد کے نعروں کی حد تک ہی دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ ہمارے اِسی طرزِ عمل کا نتیجہ ہے کہ مفادات حاصل کرنے والے ہمیشہ ہمیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جب ہماری آنکھیں کھلتی ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر ان کے جھانسے میں آ چکے ہیں جس کے بعد ہم کسی نئے معرکے کے لیے تیار ہونے لگتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہی کچھ ہمارے ساتھ موجودہ دور میں بھی ہوا اور اب سب ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور صرف بھاشنوں اور تقریروں سے کام چلانے والے نئے ٹارگٹ پر کام کرنا شروع ہوچکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں