"FBC" (space) message & send to 7575

بھارتی مسلمانوں کی مسلسل بڑھتی مشکلات

11 اپریل کو بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع کھرگون میں ہندوئوں کا ایک جلوس نکلتا ہے۔ تلواروں اور خنجروں سے مسلح جلوس کے شرکا ایک مسجد کے سامنے جا کر ساؤنڈ سسٹم پر بلند آواز میں مذہبی گیت بجانے لگتے ہیں۔ اگرچہ جلوس کے ساتھ سکیورٹی اہلکار بھی موجود ہوتے ہیں لیکن اُن کی طرف سے مسجد کے سامنے یہ سلسلہ روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً کشیدگی میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اسی دوران پتھراؤ کے سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ پتھراؤ علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے کیا گیا جس کے باعث نہ صرف جلوس کے شرکا زخمی ہوئے بلکہ ایک ڈی آئی جی اور ایس پی کو بھی زخم آئے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے واقعے میں مبینہ ملوث 77افراد‘ جو سب کے سب مسلمان ہیں‘ کو اِس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پھر ریاستی وزیرداخلہ نرتم مشرا کا بیان سامنے آتا ہے کہ یہ سب مسلمانوں کا کیا دھرا ہے جس کی اُنہیں سزا ملے گی۔ اس اعلان کے فوراً بعد علاقے میں بھاری مشینری پہنچا دی جاتی ہے اوراعلان کیا جاتا ہے کہ گھروں اور دکانوں میں موجود افراد یہ مقامات چھوڑ دیں‘ ورنہ اُن کی جانوں کی بھی کوئی پروا نہیں کی جائے گی۔ اعلان کے فوراً بعد مسلمانوں کے مکانات اور دکانیں مسمارکرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی طرز پر‘ آن کی آن میں مسلمانوں کے 16مکانات اور29دکانوں کو ملبے کاڈھیر بنا دیا جاتا ہے۔ مسلمان پاس کھڑے خاموشی سے اپنی بربادی کا تماشا دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی عمر بھر کی کمائی لٹتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں لیکن خود کو کچھ کرنے سے قاصر پاتے ہیں۔کارروائی کے فوراً بعد بی جے پی کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی طرف سے بیان سامنے آتا
ہے کہ قصور واروں کو سزا دے دی گئی ہے اور ایسے کسی بھی واقعے کی صورت میں آئندہ بھی یہی کیا جائے گا۔اُن کے پورے بیان میں ہندو شرپسندوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اِس واقعے سے چند پہلے قبل‘ 6اپریل کو بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع کرولی میں ایک انتہائی خوفناک واقعہ پیش آتا ہے۔ اِس علاقے میں ہندو انتہا پسندوں کا ایک جتھہ جمع ہوکر مسلمانوں کو 'جے شری رام‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کرتا ہے اور انکار کی صورت میں اُنہیں تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ پولیس خاموش تماشائی بنی پاس کھڑی رہتی ہے۔ اداروں کی خاموشی سے انتہا پسندوں کو مزید حوصلہ ملتا ہے اور و ہ یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے گھرجلانا شروع کردیتے ہیں۔ مسلمانوں کے چالیس گھروں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا جاتا ہے جس کے بعد علاقے میں دو روز کے لیے کرفیو نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حالات تو قابو میں آجاتے ہیں لیکن چالیس مسلم خاندان اپنے گھروں سے محروم ہوچکے ہوتے ہیں۔ اب کسی کو نہیں معلوم کہ محروم ہونے والوں کو دوبارہ کبھی چھت نصیب ہوبھی سکے گی یا نہیں۔اِن کی تمام عمر اب اِسی خوف میں گزرے گی کہ معلوم نہیں وہ پھر کب انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ جائیں۔
اِس واقعے سے اگلے روز‘ 7اپریل کو بھارت کی ریاست اُتر پردیش کے علاقے غازی پور کے گہمار گاؤں میں نوراتری کے موقع پر ہندوؤں کا ایک جلوس نکلتا ہے۔جلوس کی قیادت بھارتیہ جتنا پارٹی کی ایک سابق رکن پارلیمنٹ سنیتا سنگھ کررہی ہوتی ہیں۔ جلوس کے شرکا جب ایک مسجد کے سامنے پہنچتے ہیں تو اُن کی طرف سے انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سنیتا سنگھ اپنے ورکروں کی بھرپورحوصلہ افزائی کرتی ہیں جس کے نتیجے میں انتہاپسند اپنے زعفرانی جھنڈے لے کر مسجد کے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ وہ مسجد کے احاطے اور چھت پر زعفرانی جھنڈے لہراتے ہیںاور اشتعال انگیز نعرے لگاتے رہتے ہیں جبکہ اس دوران رقص کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔گہمار گاؤں میں بسنے والے مسلمان اِس واقعے کے بعد اتنے خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ پولیس کے پاس شکایت تک درج کرانے کے لیے نہیں جاتے۔ سوشل میڈیا پر اِس واقعے کی وڈیو وائرل ہوتی ہے تو پولیس کی طرف سے چند ''نامعلوم افراد‘‘ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔
9اپریل کو بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے علاقے سیتا پور کے حوالے سے ایک وڈیو وائرل ہوتی ہے۔ زعفرانی لباس میں ملبوس بجرنگ مُنی نامی ایک شخص مسجد کے سامنے گاڑی میں بیٹھ کر اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتا ہے۔ ایک ہندو تہوار کے موقع پر نکلنے والے جلوس سے اپنے خطاب کے دوران وہ ببانگ دہل یہ کہتا ہوا سنائی دیتا ہے کہ وہ مسلمان لڑکیوں کو اُن کے گھروں سے نکال کر سرعام اُن کا ریپ کرے گا۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اُسے ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس دوران وہاں موجود مجمع کی طرف سے بہت جوش کے ساتھ نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ مجمع کا جوش وخروش بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے رہنما کی باتوں سے پوری طرح متفق ہے۔ وڈیو وائرل ہونے کے بعد اس پر شور بلند ہوتا ہے ۔ ردعمل سامنے آنے کے بعد بجرنگ منی اپنے بیان پر معافی مانگتا ہے جبکہ عوامی رد عمل کو دیکھتے ہوئے پولیس اُس کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیتی ہے۔
ماہِ اپریل میں‘ رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کے خلاف پیش آنے والے اِن واقعات کے ساتھ ساتھ مساجد سے لاؤڈ سپیکر اُتارنے کی مہم بھی زور و شور سے چلتی رہتی ہے۔ اِس حوالے سے ریاست مہاراشٹر دوسری ریاستوں سے بازی لے جاتی ہے۔ ریاست میں نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ مساجد سے لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی بہر صورت روک تھام کی جائے گی۔ راج ٹھاکرے کے اعلان کے بعد اب مساجد کے سامنے لاؤڈ سپیکروں پر ''ہنومان چالیسا‘‘ بجائی جارہی ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ یا تو مساجد سے لاؤڈ سپیکر اُتارے جائیں یا پھر اِسی طرح مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا بجانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انتہا پسند رہنماکی شہ پا کر بی جے پی کے ایک متمول رہنما موہت کموج کی طرف سے ٹویٹ کیا جاتا ہے کہ جس ہندو کو بھی مندر کے لیے لاؤڈ سپیکر کی ضرورت ہو تو وہ اُن سے رابطہ کرے‘ اسے مفت لاؤڈ سپیکر دیا جائے گا، سبھی ہندوؤں کی ایک آواز ہونی چاہیے۔
یہ صرف ماہ اپریل کے دوران بھارت میں مسلمانوں کے خلاف پیش آنے والے واقعات کی معمولی سی جھلک ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجموعی طور پر ایسے واقعات کی تعداد کتنی زیادہ ہوگی۔ حال ہی میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات سے پہلے یہ تخمینے لگائے گئے تھے کہ شاید یہ سب کچھ انتخابی سٹنٹ کے طور پر کیا جارہا ہے۔ اب یہ واضح ہونے لگا ہے کہ یہ سب کچھ بھارت میں ''رام راج‘‘ کے لیے ہورہا ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ سب کیا جارہا ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ اب بی جے پی کی حکومت کھل کر ہندوانتہا پسندوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ اِس صورت حال پر امریکا کی طرف سے ایک مرتبہ پھر شدید اظہارِ تشویش کیا گیا ہے جس پر بھارتی حکومت نے خاصا برا منایا ہے اور کہا ہے کہ اگر امریکا کو بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش ہے تو بھارت کو بھی امریکا میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر تشویش ہے۔ سوال یہ ہے کہ کہیں روہنگیا مسلمانوں کی طرح اُمت مسلمہ نے بھارتی مسلمانوں کو بھی تو فراموش نہیں کردیا؟کرناٹک میں حجاب کے تنازع پر اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے ایک بیان سامنے آیا تھا کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کے لیے صورت حال میں بہتری لائے۔ اُس کے بعد سے مسلسل خاموشی اختیار کرلی گئی حالانکہ بھارتی مسلمانوں کے لیے حالات کہیں زیادہ تکلیف دہ صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔ او آئی سی کے بیان پر بھارت نے واضح طور پر قرار دے دیا تھا کہ اوآئی سی کا ہمارے اندرونی معاملات سے کوئی تعلق نہیں جس کے بعد سے ایسی ڈھیلی ڈھالی مذمت بھی سامنے نہیں آسکی۔ مختصراً یہ کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے حالات انتہائی تشویش ناک سطح پر پہنچ چکے ہیں۔جو مسلم ممالک بھارت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں‘وہ صرف اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں اور بھارتی مسلمانوں کے لیے ہرگزرتا دن نئی مصیبتیں لا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں