"FBC" (space) message & send to 7575

نئی حکومت‘ نئے چیلنجز

بس ایک معمولی سی چوک ہوئی اور آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پوری کی پوری سیاسی صورت حال تبدیل ہوکر رہ گئی۔ یہ اِسی چُوک کا نتیجہ ہے‘ وگرنہ شاید آج حمزہ شہباز کی جگہ چودھری پرویزالٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتے۔ کہاں تو میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ طشتری میں سجا کر چودھری برادران کی رہائش گاہ پر پہنچے تھے‘ کہاں اندازے کی معمولی سی غلطی نے وہ وقت دکھا دیا کہ چودھری پرویز الٰہی مبینہ طور پر ٹوٹے ہوئے بازو کے ساتھ اپنی مظلومیت ثابت کرنے کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے رہے۔ یہ انداز زبانِ زد خاص وعام بھی رہا لیکن سیاستدانوں کے اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سیاسی حکمت عملیاں ہوتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا کرکے چودھری صاحب کوکچھ حاصل ہونے کی توقع ہو۔ اِسی دوران پوری دنیا نے پنجاب اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کا مشاہدہ بھی کیا جس میں ہروہ حربہ استعمال کیا گیا جس کے تحت نئے قائدِ ایوان کا انتخاب تاخیر کا شکار ہوسکے۔ اب ایسے سوالات بھی شدت کے ساتھ اُٹھائے جارہے ہیں کہ تاخیری حربے استعمال کرنے والوںکو کیا حاصل ہوا؟ سوائے اِس کے کہ وہ پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
جن دِنوں پنجاب اسمبلی مچھلی منڈی بنی ہوئی تھی‘ اُس وقت پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے لیے ہم بھی وہاں موجود رہے۔ یوں تو پنجاب اسمبلی کی کارروائی کی کوریج کے لیے وہاں جانے کا عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن جو کچھ اِس مرتبہ دیکھنے کو ملا‘ وہ اپنی مثال آپ رہا۔ ایسی وڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن میں لوٹوں سے بھرے ہوئے بنڈل اہم شخصیات کی نگرانی میں اسمبلی کے اندر پہنچائے جارہے ہیں۔ ایک وڈیو میں ایک اہم شخصیت 'آئوٹ سائڈرز‘ کو اسمبلی کے اندر داخل کرنے میں پیش پیش دکھائی دیتی ہے۔ یہ سب کچھ اسی اصول کے تحت ہورہا تھا کہ اگر ہمیں باری نہ ملی تو ہم وکٹ ہی اُکھاڑ دیں گے۔ تقریباً ایک ماہ تک 12کروڑ کی آبادی کا صوبہ کسی چیف ایگزیکٹو کے بغیر چلتا رہا؛ البتہ اب حالات قدرے پُرسکون ہو چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صورتِ حال مستقبل میں بھی اِسی طرح پُرسکون رہے گی؟افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِس کا جواب نفی میں ہے۔
جہاں یہ رویہ رہا ہو کہ جانے والوں کی طرف سے ہرصورت اقتدار سے چمٹے رہنے کی حکمت عملی کے تحت کئی مواقع پر آئین کی پاسداری سے گریز کا رویہ اپنایا گیا ہو‘ آئینی عمل کو تاخیر کا شکار بنانے کے لیے ہرممکن حربے استعمال کیے گئے ہوں‘ وہاں کچھ بھی ہونے کے خدشات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ہماری یادداشت میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ کسی صدرِمملکت نے کسی وزیراعظم کا حلف لینے ہی سے انکار کر دیا ہو۔ بادی النظر میں صدرِمملکت نے اپنے رہنما کی ہدایات پر عمل کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ صدرِ مملکت نے رخصت لی تو قائم مقام صدر‘ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ملک کے 23ویں وزیراعظم سے حلف لیا اور یوں اُمورِ مملکت کی گاڑی پٹڑی پر چڑھ گئی۔ پنجاب میں تو اِس سے بھی زیادہ غیرمناسب صورت حال پیدا ہوئی۔ پہلے تو صوبے کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اسمبلی اجلاس بلانے میں ہی تاخیر کا رویہ اپنایا گیا۔ اجلاس ہوا تووہاں شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ اِسی ہنگامہ آرائی کے دوران چودھری پرویز الٰہی نے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ چند ہی روز میں وہ صحت یاب ہو کر پہلے کی طرح بھلے چنگے ہوگئے۔ بہرحال لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر بالآخر قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نئے وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے لیے لاہور پہنچے۔ یہ تما م مراحل طے کرنے کے بعد جاکر صوبے کو نیا چیف ایگزیکٹو نصیب ہوا۔ اب بظاہر تو معاملہ کسی حد تک پُرسکون ہوچکا ہے لیکن نئی حکومت کو مختلف چیلنجز درپیش رہیں گے۔
حکومت کھونے والی پی ٹی آئی کے وزارتِ اعلیٰ کے لیے گرم سرد چشیدہ امیدوار چودھری پرویز الٰہی کی ہرممکن کوشش رہے گی کہ نئی حکومت کو مشکل حالات سے دوچار رکھا جائے۔ جانے والوں کی طرف سے ابھی تک تو شکست کی وجوہات کا جائزہ لیا جارہا ہے لیکن اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں کہ قدرے سستانے کے بعد نئی حکومت پر یکے بعد دیگرے سیاسی حملے کرنے کی حکمت عملی بنا ئی جائے گی۔ اِن حالات میں حمزہ شہباز کے لیے وزارتِ اعلیٰ کا منصب پھولوں کی سیج تو ہرگز ثابت ہونے والا نہیں۔
حمزہ شہباز کے لیے ایک بڑی مشکل یہ بھی ہوگی کہ بیشتر صورتوں میں عوام اُن کی کارکردگی کا موازنہ شہباز شریف کی کارکردگی سے کریں گے۔ وہ دیکھیں گے کہ کیا وہ بھی اپنے والد کی طرح ہی متحرک ہیں یا نہیں؟کیا انتظامی اُمور پر اُن کی گرفت ویسی ہی ہے جیسی شہباز شریف کی ہوا کرتی تھی۔ اب یہ الگ بات کہ شہباز شریف کی طرح متحرک رہنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ جب 2011ء میں پہلی مرتبہ ڈینگی کے عفریت نے سر اُٹھایا تھا تو تب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کس طرح رپورٹرز کی بھی دوڑیں لگوائے رکھی تھیں۔ صبح کے چھ بجے پیغام موصول ہوتا کہ وزیراعلیٰ اتنے بجے لبرٹی چوک میں انسدادِ ڈینگی مہم کے پمفلٹ تقسیم کریں گے۔ ہرروز ایسی ہی صورتحال ہوتی تھی۔ تب اکثر جھنجھلاہٹ بھی ہونے لگتی تھی کہ آخر ڈینگی نے کون سا یکدم ختم ہوجانا ہے‘ لیکن اب لگتا ہے کہ اُنہوں نے بالکل ٹھیک کیا تھا۔ ڈینگی کے پہلے سال تین سو کے قریب ہلاکتیں ہوئی تھیں لیکن اُس سے اگلے سال ڈینگی سے کوئی ہلاکت نہ ہونااُن کا بڑا کارنامہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اِس سے پہلے جب 2010ء میں سیلاب آیا تو تب بھی جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہمیں اُن کے ساتھ دن رات دوڑیں لگانا پڑی تھیں۔ اِس دوران ایک موقع پر ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے ایک موٹرسائیکل سوار کے پیچھے بیٹھ کر جاتے بھی دیکھا۔ صوبے کے کم و بیش تمام لیگی ارکانِ اسمبلی کی مختلف علاقوں میں ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم کا یہی انداز رہا۔ ناقدین اعتراض کرتے رہے کہ قومیں شاہراہوں سے نہیں بنتیں لیکن اب خیال آتا ہے کہ اگر لاہور میں نئے انڈرپاسز اور فلائی اوور نہ بنے ہوتے‘ شاہراہوں کو توسیع نہ دی گئی ہوتی تو آج لاہور کی ٹریفک کا کیا حال ہوتا۔
اب مسلم لیگ (ن) اوراُس کے اتحادیوں کی حکومت پنجاب میں زمامِ اقتدار سنبھال چکی ہے۔ کابینہ میں اتحادیوں کو بھی نمائندگی دی گئی ہے لیکن کارکردگی کے حوالے سے سب سے زیادہ نظریں حمزہ شہباز پر ہی مرکوز رہیں گی۔ بظاہر تو اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے کہ وہ خود بھی حالات سے پوری طرح آگاہی رکھتے ہیں لیکن آگاہ ہونے اور عمل کرنے میں کافی فرق ہوتا ہے۔ شاید اِسی تناظر میں وہ منصب سنبھالتے ہی متحرک ہونے کا بھرپور تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلی سرکاری مصروفیت کے طور پر امن و امان کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرنا اُن کی اولین ترجیح کو ظاہر کررہا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف حصوں میں امن و امان کی صورت حال واقعتاً ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ گزشتہ دور میںپیسے لے کر ڈی سیز اور ڈی پی اوز لگانے کی باتیںسامنے آ رہی ہیں‘ غالباً اِسی باعث حالات مزید خرابی سے دوچار ہوئے۔ اللہ کرے کہ موجودہ دورِ حکومت میں ایسا کچھ نہ ہو اور'' رائٹ پرسن فار رائٹ جاب‘‘ کے فارمولے پر عمل کیا جائے۔
اِس وقت عام آدمی مہنگائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے بھی شدید پریشانی کا شکار ہے۔ یہ تمام اتنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں کہ جن سے نمٹنا پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کے لیے بہت مشکل ہوگا۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب سیاسی مخالفین بھی گھوڑوں پر کاٹھیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ پھر ''شہباز سپیڈ‘‘ کا جو چیلنج حمزہ شہباز کے سامنے ہے‘ اُسے '' میٹ‘‘ کرنا ہرگز آسان نہیں ہوگا لیکن بات تو ڈِلیور کرنے سے ہی بنے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں