"FBC" (space) message & send to 7575

اُسی ڈگر پر …(آخری حصہ)

اپنے ملکی بالخصوص معاشی حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ خدا نخواستہ ہم تیزی سے سری لنکن ماڈل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سری لنکا کے حالات ہمیں یہ بھی بتا رہے ہیںکہ جب کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو اُسے کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بے تحاشا قرضے، غیرموزوں پالیسیاں، پالیسیوں کا عدم تسلسل اور سیاسی مفادات کو ترجیح دیے جانے جیسے عوامل نے ہمیں بھی جیسے سری لنکا کے قریب قریب پہنچا دیا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ اگر دیوالیہ ہوبھی گئے تو کیا فرق پڑے گا‘ اُن کے لیے سری لنکا کے حالات میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اِس تناظر میں ہم مستقبل کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ آج وہاں کے شہری انتہائی بنیادی اشیائے ضروریہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہاں بھی حکومت یہ معاملہ حکومت کے گلے پڑا ہوا ہے کہ کس طرح آٹے اور چینی کی وافرمقدار میں فراہمی شہریوں کے لیے یقینی بنائے۔ اگر کبھی موقع ملے تو یوٹیلٹی سٹورز کا چکر لگائیے‘ جہاں مختلف اشیا پر معمولی سی رعایت پانے کے لیے مردوخواتین گھنٹوں چلچلاتی دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں کہ کسی طرح سے اُنہیں مطلوبہ اشیا رعایتی نرخوں پر مل سکیں۔ حالات کے پیشِ نظر اب حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز پر بھی ایسی اشیا کی تعداد میں کمی کردی ہے جن پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ حالات یہ ہوچکے ہیں کہ چینی کی قلت سے بچنے کے اِس کی برآمد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ چینی اور آٹے کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے بھی تمام ممکنہ اقدامات کرنے کی ہدایت دی جاچکی ہیں۔ اِن دونوں اشیا کی قلت کا خدشہ اُس ملک میں محسوس کیا جارہا ہے جو بنیادی طورپر زرعی ملک گردانا جاتا ہے‘ جہاں زراعت کو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قراردیا جاتا ہے؛ تاہم اب یہاں آٹے تک کی قلت کا خدشہ پوری شدت سے سر اُٹھا چکا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی صورتِ حال میں بہتری کی کوئی اُمید دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ مصیبتیں ہرطرف سے اُمڈی چلی آرہی ہیں۔
اِن تمام حالات میں بہتری کا امکان تبھی پیدا ہوسکتا ہے جب ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔ اِس حوالے سے ہماری کچھ ماہرینِ اقتصادیات سے بات بھی ہوتی رہتی ہے مگر وہ حالات کی جو تصویر دکھا رہے ہیں‘ وہ تو پیروں تلے سے زمین کھسک جانے کے مترادف قرار دی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اِس وقت سٹیٹ بینک کے پاس 10 اعشاریہ پانچ ارب ڈالر موجود ہیں۔ جن میں سے چار ارب ڈالر چین، تین ارب ڈالر سعودی عرب، اور2اعشاریہ پانچ ارب ڈالر متحدہ امارات کے ہیں۔ مارچ تک زرمبادلہ کے ذخائرقدرے زیادہ تھے لیکن تب دواعشاریہ تین ارب ڈالر چین کو واپس کردیے گئے تھے۔ واپسی کے وقت اِس اُمید کا اظہار کیا گیا تھا کہ جلد ہی چین یہ رقم دوبارہ ہمیں اپنے ذخائر میں رکھنے کے لیے فراہم کردے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ مشکل حالات میں ہم ہمیشہ سے سعودی عرب کی طرف دیکھتے رہے ہیں لیکن بوجوہ اب وہاں سے بھی ہمیں مطلوبہ رسپانس نہیں مل رہا۔ شاید دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اِس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جب ہمیشہ ایک ہی فرد سے مانگا جائے تو بالآخر ایک دن دینے والا بھی تھک جاتا ہے۔ اب ہم سعودی عرب سے یہ توقع لگائے ہوئے ہیں کہ کم از کم وہ اپنے تین ارب ڈالر واپس نہ مانگ لے جو اُس نے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے ہمیں فراہم کررکھے ہیں۔ برادر ملک سے ایک توقع اُدھار پر تیل ملنے کی تھی لیکن بظاہراب وہ بھی پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ متحدہ عرب امارات بھی آڑے وقتوں میں ہمیشہ ہمارا ہاتھ تھامتا رہا ہے۔ اب وہاں سے بھی کسی بیل آؤٹ پیکیج ملنے کی کوئی توقع نظر نہیں آرہی۔ گویا مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس وقت ہمارے تینوں دوست ممالک بھی ہمارا ہاتھ تھامنے کے لیے تیار نہیں ۔یہی قانونِ قدرت ہے کہ جب کسی قوم کو خود اپنی حالت سنوارنے کی فکر نہ ہوتو پھر دوسروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اُس کا ساتھ دیں۔ ہمارے ساتھ اِس وقت کچھ ایسا ہی سلسلہ درپیش ہے۔
اب آ جا کے آئی ایم ایف کی طرف ہی اُمید کی کرن نظر آرہی ہے کہ شاید وہ8ارب ڈالر کے پروگرام پر آمادہ ہوجائے۔ اُس کی طرف سے پالیسی مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی کا اظہار بھی کردیا گیا ہے جو ممکنہ طور پر 18مئی سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوں گے۔ اس وقت دِقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے شرط رکھی گئی ہے کہ اگر مذاکرات کرنا ہیں تو پہلے پٹرولیم مصنوعات پر دی جارہی سبسڈی کو 15مئی تک ختم کریں‘ ورنہ ہماری طرف سے بھی صاف جواب ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف اپنی اِس شرط میں نرمی کردے لیکن اِس کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ دوسری جانب حکومت اگر اس سبسڈی کو ختم کرتی ہے تو پٹرول کی قیمت 200 روپے کے قریب پہنچ جائے گی جس پر اُسے عوامی سطح پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر سبسڈی ختم نہیں کرتی تو آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج پر مذاکرات سے انکار کر دے گا۔
دیکھا جائے تو سابق حکومت جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی ایسی بارودی سرنگ بچھا کر گئی ہے جو موجودہ حکومت کے لیے انتہائی مصیبت کا باعث بنا ہوئی ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ عوامی فلاح کے نام پر یہ کام صرف سیاسی مفاد حاصل کرنے اور آنے والی حکومت کو زیربار کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اندازہ لگائیے کہ اِس وقت حکومت کو پٹرول پر29اور ہائی سپیڈ ڈیزل پر 73روپے فی لیٹر سبسڈی دینا پڑرہی ہے۔ اِس کے نتیجے میں ہرماہ تقریباً 118ارب روپے حکومت کو اپنے پلے سے ڈالنا پڑ رہے ہیں۔ اب ایک طرف حکومت کے پاس ڈالرز نہیں ہیں تو دوسری طرف اُسے پٹرولیم مصنوعات پر اتنی خطیر رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔ کیا جانے والے یہ نہیں جانتے تھے کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود اُن کی طرف سے ملک میں نرخ کم کیے جانے سے معاشی طور پر کیا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے؟وہ اِس بات سے بخوبی آگاہ تھے لیکن سیاسی مفادات کا تقاضا تھا کہ ایسا کرگزرا جائے‘ سو یہ کردیا گیا۔ اب موجودہ حکومت شدید گومگو کی کیفیت کا شکار ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرے یا نہ کرے‘اور اس معاملے پر حکومت کے اندر بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
دیکھا جائے تو سری لنکا کے لیے مسائل کا آغاز بھی ڈالرز ختم ہونے سے ہوا تھا اور اب ہمارے پاس بھی ڈالرز کے ذخائر ختم ہوچکے ہیں۔ تھوڑا سا توازن اِدھر سے اُدھر ہوا تو شاید ہمارے پاس ادائیگی کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ اِس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے‘ سری لنکا کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس سوال کا جواب ہمیں بہت آسانی سے مل سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ بے تحاشا غیرملکی قرضوں کو قرار دیا جارہا ہے۔ویسے تو ہمیں ہمارے ایک مرحوم عالم دین نے غیرملکی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کا بہت آسان نسخہ بتایا تھاکہ عالمی اداروں سے کہہ دیا جائے کہ اگر تم ہماری بات نہیں مانو گے تو پھر...آیا جے غوری! لو ہوگیا قرضوں کا مسئلہ حل۔ قرضوں کے بارے میں اتنا شاندارنسخہ بتانے پر سامعین کی طرف سے دادوتحسین کے وہ ڈونگرے برسائے گئے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ اِس بیان پر کافی اطراف سے اچھی خاصی تنقید بھی ہوئی تھی لیکن محسوس یہ ہورہا ہے کہ اب شاید ہمیں کوئی ایسا ہی حربہ استعمال کرنا پڑئے گا کیونکہ بظاہر غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی اور مزید قرضے بھی نہیں مل رہے۔ اِن حالات میں فکرمند تو وہ بھی رہے ہوں گے جنہوں نے 2018ء کے معاملات میں کردار ادا کیا تھا۔ وہ بھی اس ساری صورتحال کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے کہ کہیں سے کوئی راستہ نکلے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں