"FBC" (space) message & send to 7575

نظامِ عدل

10 سال پہلے ایک 62 سالہ شخص کے خلاف لڑکی سے زیادتی کی کوشش کا مقدمہ درج ہوتا ہے۔ پولیس تفتیش کرتی ہے تو معلوم ہوتا کہ یہ کوئی لین دین کا تنازع تھا جس پر لڑکی کے والد کی طرف سے جھوٹا مقدمہ درج کرایا گیا۔ پولیس اپنی تفتیش میں ملزم کو بے گناہ قرار دے دیتی ہے لیکن اِس کے باوجود ٹرائل کورٹ میں ملزم کو پانچ سال قید کی سزا کا حکم سنایا جاتا ہے۔ چلتے چلتے مقدمہ لاہور ہائیکورٹ تک جا پہنچتا ہے جہاں اِس کی سماعت مکمل ہونے پر فاضل عدالت ملزم کو باعزت بری کردیتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک لڑکی 24 اور ملزم 72 سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا۔ اب اِس شخص کو باعزت طور پر بری تو کردیا گیا لیکن اِس کی زندگی بلکہ بڑھاپے کے دس سال خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں صرف ہوگئے۔ وہ بھی اِس صورت میں کہ ابتدا میں ہی پولیس تفتیش میں اُسے بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ چند روز پہلے ہی آیا ہے۔ یہ بہت سے ایسے کیسز میں سے ایک ہے جو آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایک بار بس مقدمہ کورٹ‘ کچہری تک چلا جائے توپھر اُس کے بعد کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کب ختم ہوگا۔
ایسی کئی مزید مثالیں موجود ہیں کہ بااثر افراد کی طرف سے کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرایا گیا۔ پولیس تفتیش میں پرچہ جھوٹا ثابت ہوجانے کے باوجود ایسے مقدمات کئی کئی سالوں تک چلتے رہے۔ کہنے کوتو ہمیشہ قانون کی بالادستی کی باتیں سننے میں آتی ہیں مگر حیرانی ہوتی ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی دل جلانے والی باتیں کی جاتی ہیں۔ دیکھا جائے تو ماتحت عدلیہ میں معاملات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ بادی النظر میں‘ بسا اوقات دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اکثر صورتوں میں چاہنے کے باوجود انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ اسی باعث نظامِ عدل کے حوالے سے کافی شکوک و شہبات پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائلین اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں اور نظامِ عدل پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں 'دنیا نیوز‘ کے دفتر کے باہر ایک نوجوان بہتے آنسوؤں کے ساتھ خود پر بیتنے والی ایسی ہی بپتا سنا رہا تھا۔ ہاتھ میں تمام ثبوتوںکا پلندہ لیے ہوئے اُس نوجوان کا کہنا تھا کہ جائیداد کے تنازع پر قصور کے ایک تھانے میں اُس کے خلاف جھوٹا پرچہ درج کرایا گیا۔ اُس کے پاس موجود ایف آئی آر کے مطابق‘ اُس پراپنے ایک کزن کے ساتھ مل کر ہوائی فائرنگ کرنے، ڈیڑھ لاکھ روپے کا موبائل اور نقدی چھیننے اور جاتے جاتے مدعی کے سسر کو اغوا کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ کتنی خوفناک دفعات کے تحت اس پر پرچہ درج کرایا گیا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ مدعی اور ملزمان کا جائیداد کا کوئی تنازع تھا۔ اور مقصد اس مقدمے کا یہ تھا کہ پولیس دونوں افراد کو گرفتار کرے گی تو یہ گھبرا کر مخالف فریق کی بات مان لیں گے۔ معاملہ اعلیٰ پولیس حکام کے نوٹس میں لایا گیا تو فوری طور پر یہ بات سامنے آگئی کہ ایسا کوئی وقوعہ سرے سے رونما ہی نہیں ہوا۔ اِس پر پہلے تو جھوٹا پرچہ درج کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی گئی۔ تحقیقات ہوئیں تو پوری طرح سے واضح ہوگیا کہ ایسا کوئی معاملہ پیش ہی نہیں آیا۔نوجوان کے بقول یہ سب کچھ مینج کرنے میں ایک مقامی وکیل کا کردار اہم تھا۔ حد تو یہ تھی کہ جس شخص کے اغوا کا الزام دونوں ملزموں پر عائد کیا جا رہا تھا‘ وہ پولیس کی کارروائی کے دوران خود مدعی کے گھر سے برآمد ہوا‘جس کے ثبوت بھی موجود تھے۔ جائیداد کے لالچ میں 75 سالہ سسر نے بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ وہ اِس عمر میں کیا گل کھلا رہے ہیں۔ بعد میں مدعی مقدمہ کے خلاف دفعہ 182 کے تحت کارروائی کی گئی اور قلندرہ کاٹا گیا۔ اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اعلیٰ پولیس حکام فوری طور پر مداخلت نہ کرتے تو دونوں بے گناہوں پر کیا بیتتی۔ یہ ایک طویل عرصے تک جیل میں رہتے‘ مغوی نے تو برآمد ہونا نہیں تھا ‘ سو یہ دونوں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتے رہتے۔ معاملہ یہیں تک رہتا تو شاید سہہ لیا جاتا۔ اس نوجوان نے جو مزید تفصیلات بتائیں وہ ایک الگ کہانی ہے۔ پولیس نے تحقیقات مکمل کرکے اخراجِ مقدمہ کی رپورٹ قصور کے متعلقہ مجسٹریٹ کو جمع کرادی۔ اب دونوں ملزمان ہردوسرے تیسرے روز لاہور سے قصور جاتے اور مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کرتے۔ آج کل کے چکر میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر کسی بااثر شخص کے مبینہ دباؤ کی وجہ سے پرچہ خارج نہ ہوسکا۔ ایک سال تک معاملہ لٹکانے کے بعد پولیس کی پوری تفتیش کو ہی disagree کر دیا گیا۔ نوجوان کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ مینج کیا گیا۔ اب یہ دونوں ایک مرتبہ پھر تھانوں‘ کچہریوں کے چکر لگانا شروع کریں گے اور معلوم نہیں اِس میں اُن کا کتنا عرصہ صرف ہوجائے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے مقدمے میں ہورہا ہے جو ابتدائی تفتیش میں ہی جھوٹا ثابت ہو چکا۔
ہم پہلے ہی عرض کرچکے کہ یہ تو بس نمونے کے طور پر دیگ کے چند دانے ہیں ورنہ پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران ایسے کتنے ہی معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔ جب کثرت سے سامنے آنے والے ایسے معاملات کو دیکھتے ہیں اور پھر قانون کی بالادستی کی باتیں سنتے ہیں تو بہت عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ یہ بھی سننے میں آتا رہتا ہے کہ فراہمیٔ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے بار اور بینچ کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ جب سب سائلین کو جلد انصاف فراہمی کرنے کا درد رکھتے ہیں تو پھر اِس کے عملی نتائج سامنے کیوں نہیں آرہے؟ یقینا اعلیٰ عدلیہ میں پہنچ کرسائل کو انصاف مل جاتا ہے لیکن تب تک وہ بیچارہ اپنا آپ بھی بھول چکا ہوتا ہے۔ کیا اِس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ماتحت عدلیہ کو دباؤ سے نکالنے کے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ کہنے کو یہ کہا جاتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت کسی دباؤ کو قبول مت کریں لیکن زمینی صورتحال کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر مجسٹریٹس صاحبان کو تشدد کا نشانہ بنانا یا عدالتوںکو تالے لگا دینا اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔
کیا یہ ایسے ہی عوامل نہیں کہ فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے ہمارا ملک 128 ممالک میں 120ویں نمبر پرآچکا ہے۔ یہ اعداد و شمارگزشتہ سال ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی سالانہ رپورٹ کی صورت میں سامنے آئے تھے۔ ہمارے تو دین نے بھی انصاف پر بہت زور دیا ہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اِس حوالے سے ہماری حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ نیپال، سری لنکا اور بھارت جیسے ممالک بھی فراہمیٔ انصاف میں ہم سے آگے ہیں۔ گزشتہ سال کی مذکورہ فہرست میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے نیپال کی عدلیہ 61ویں، سری لنکاکی عدلیہ 66ویں اوربھارت کی عدلیہ 69ویں نمبر پر رہی۔ وہ توبھلا ہو افغانستان کا کہ جس نے ہم سے کم نمبر لے کر ہماری کچھ عزت رکھ لی ورنہ ہم تو کسی قابل نہ رہتے۔ ایک طرف یہ حالات ہیں تو دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی معاملات کے حوالے سے اتنی زیادہ پٹیشنز دائر کی جاتی ہیں کہ بیشتر وقت اِنہیں نمٹانے میں صرف ہو جاتا ہے۔ سیاستدان ہرمعاملہ عدالت میں لے جاتے ہیں اورعام سائلین کے مقدمات قطار میں لگ جاتے ہیں۔ بلاشبہ ہماری اعلیٰ عدلیہ سائلین کو انصاف کی فراہمی کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کررہی ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی کے نوٹس پر لاہور کے علاقے شاد باغ سے اغوا ہونے والی ایک طالبہ کو دس گھنٹوں کے اندر اندر بازیاب کرالیا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے لیے گئے بے شمار ایسے نوٹسز ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سائلین کا کتنا درد رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ماتحت عدلیہ ہرطرح کے دباؤسے آزاد ہوجائے تو اعلیٰ عدلیہ پر بوجھ بہت کم ہو جائے گا ورنہ موجودہ صورت حال میں بہتری کے زیادہ امکانات موجود نہیں ہیں۔ اُمید رکھی جانی چاہیے کہ نظامِ عدل کے ذمہ داران اِس حوالے سے جو اقدامات کررہے ہیں‘ اُن میں مزید تیزی لائی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں