"FBC" (space) message & send to 7575

زندہ باد‘ مردہ باد

25 مئی کو پھر وہی افراتفری اور ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی۔ قوم کو حقیقی آزادی دلانے کے نام پر پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اور حکومت کی طرف سے مارچ کو فتنہ قرار دے کر سخت کارروائی۔ کراچی سے اٹک تک ماردھاڑ کا بھرپور کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنان اور اِن کے مخالفین کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ تمام دن پورا شہر یرغمال بنا رہا۔ میٹروبس اور اورنج ٹرین بند رہیں‘ دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی بری طرح متاثر رہا۔ کچھ امتحانات بھی ملتوی کرنا پڑے۔ ایک کانسٹیبل اور پی ٹی آئی کا ایک کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب صورت حال معمول پر آگئی ہے مگر ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔پی ٹی آئی والے جاں بحق ہونے والے اپنے کارکن کے گھر جا کر حکومت کے لتے لے رہے ہیں اور حکومتی رہنمامرحوم کانسٹیبل کے گھر کو اپنا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو جھوٹا اور غلط قرار دینے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے مسلسل گونج رہے ہیں۔ چند دن گزریں گے اور رہی سہی تلخی بھی دور ہوجائے گی جس کے بعد معاملات پوری طرح سے معمول پر آجائیں گے۔ سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا لیکن اس کے کچھ عرصے بعد پھر اِسی طرح کا کوئی اور معاملہ اُٹھ کھڑا ہوگا اور پوری قوم ایک بار پھر محو تماشا ہوجائے گی‘ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ 74سالوں سے جاری اِس مسلسل تماشے سے آج تک حاصل حصول کیا ہوا ہے؟کیسے بے سدھ اور سُن ہوگئے ہیں ہم بھی کہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں سے باہر ہی نہیں نکل رہے۔ ڈنڈے برسائے اور ڈنڈے کھائے جاتے ہیں لیکن یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ اِس سب کا فائدہ کیا ہے۔ جو خواب ہمیں دکھائے جاتے ہیں‘ آج تک کبھی ہمیں اُن کی کوئی عملی تعبیرملی بھی ہے یا نہیں۔ملک کی آزادی کے بعد سے آدھا عرصہ سویلین حکمران رہے تو باقی کا آدھا عرصہ ڈکٹیٹرز نے حکمرانی کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ خراب سے خراب تر ہوچکا ہے۔
عالم یہ ہے کہ عوام کو درپیش مسائل سنگین تر ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ ملک کے بے شمار حصوں میں آج بھی پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ غیرملکی قرضوں کے بوجھ سے ہماری سانسیں رک رہی ہیں۔ معاشرتی لحاظ سے ہم پسماندہ ترین اقوام میں شمار ہو رہے ہیں لیکن اگر کوئی بازگشت ہماری فضائوں میں گونج رہی ہے تو وہ یہی زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے ہیں۔ اِنہی نعروں میں الجھے رہنے کے باعث بدعنوانی کے اعتبار سے ہم دنیا کے 180 ممالک میں سے 140ویں نمبر پر پہنچ چکے ہیں۔ اندازہ لگا لیں کہ جائز و ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کی روش معاشرے میں کس حد تک سرایت کر چکی ہے‘ وہ الگ بات کہ کوئی بھی اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ جس سے بھی بات کی جائے‘ وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر دامن کی شفافیت کے سو دعوے کرے گا۔ بھارت اِس فہرست میں 85ویں نمبرپر ہے۔ گویا ہماری پوزیشن اُس سے بھی نیچے ہے۔ صورتحال تب زیادہ افسوس ناک دکھائی دیتی ہے جب ہم بات بے بات دینِ اسلام سے اپنی وابستگی پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ پیسہ کمانے کے چکر میں ہم نے خود کو بیچ ڈالا ہے۔ کسی سرکاری ادارے میں کوئی کام پڑ جائے تو بھلے وہ کام ہرلحاظ سے قانون کے مطابق ہو‘ سب سے پہلے اس کام کے حل کے لیے کوئی سفارش ڈھونڈی جاتی ہے۔ سفارش کے بعد ''طے شدہ ریٹ‘‘ کے مطابق ادائیگی کی جاتی ہے جس کے بعد جا کر کہیں کام ہوپاتا ہے۔ جان لیجئے کہ دھڑلے سے لیے جانے والے یہ پیسے اوپر سے نیچے تک تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اِسی لیے رشوت لینے والوں کو کسی کا کوئی ڈر اور خوف نہیں رہا۔ بدقسمتی سے کوئی ایسا ادارہ نہیں نظر آتا جہاں یہ قباحت پوری طرح سے اپنے پنجے نہیں گاڑ چکی لیکن زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کی گونج ہے کہ کم ہونے ہی میں نہیں آرہی کہ کسی دوسرے معاملے کی طرف بھی توجہ دی جاسکی۔ جھوٹ، سفارش اور رشوت کے بل پر یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ کوئی ایک تو ایسا آجاتا جو عملاً کرپشن کے خلاف مناسب اقدامات کرتا لیکن ایسا آج تک ہوسکا ہے نہ ہی ہونے کے آثار دکھائی دیتے ہیں کیونکہ سب کچھ مفادات کو مدنظر رکھ کرکیا جاتا ہے۔
یہ تسلیم کہ بہت سے معاملات کا تعلق بین الاقوامی حالات و واقعات سے بھی ہوتا ہے۔ ایسے کئی معاملات میں حکومتیں بھی مجبور ہوتی ہیں لیکن کیا آج تک کسی نے بھی نظامِ عدل میں بہتری لانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے ہیں؟کیا نظامِ عدل کو ٹھیک کرنے کا تعلق بھی بین الاقوامی حالات و واقعات سے ہے؟ مقدمات کے فیصلوں کا انتظارکرتے کرتے سائلین کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں مگر فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ ہر حکومت‘ ہر سیاستدان وعدے اور دعوے کرتا ہے بروقت فراہمیٔ انصاف کے۔ اگر نظام عدل کے بارے میں ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ پڑھ لیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں کہ ہم فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے 128ممالک میں سے 122ویں نمبر پر آچکے ہیں۔ اگر اِس پر یقین نہ ہو توامریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ پڑھ لیں‘ اندازہ ہوجائے گا کہ آٹے اور دال کا بھاؤ کیا ہے۔ یہ رپورٹ کہتی ہے کہ بدعنوانی کے اعتبار سے پولیس کے بعد نظامِ عدل دوسرے نمبر پر ہے لیکن اِس حوالے سے محکمۂ پولیس کاتو کوئی جواب ہی نہیں۔ جھوٹی ایف آئی آر درج کرانی ہو، کسی کو ناجائز طور پر خوفزدہ کرنا ہویا ایسا کوئی بھی غیر قانونی کام کرنا ہو‘ طے شدہ ریٹس کے مطابق سب کام بخوبی انجام دیے جاتے ہیں۔ گو استثنا ہر جگہ موجود ہوتا ہے مگر عوامی تشخص ان اداروں کا ایسا ہی ہے۔ اِن دونوں اہم اداروں کی حالتِ زار میں بہتری لانے کے لیے ہمیں کسی بیرونی ملک نے روکا ہوا ہے یا غیر ملکی سازش نے؟اِسی طرح محکمہ تعلیم،محکمہ صحت یا پھر کسی بھی دوسرے ادارے کے حالات کو دیکھ لیں‘ سب کے سب ایک جیسے دکھائی دیں گے۔ اگر اداروں کی بہتری اور محکمانہ اصلاحات سے ہمیں کسی نے روکا ہے تو صرف اِس بات نے کہ قانون کی یہی کسمپرسی طاقتوروں کو راس آتی ہے۔ اگر قانون کا ہاتھ ہرکسی پر یکساں طور پر پڑنے لگے گا تو طاقتوروں کی طاقت کا کیا بنے گا؟ اِس تناظر میں وہ چاہتے ہی نہیں کہ صورتِ حال میں بہتری لائی جائے۔ یہ اِسی رویے کا سبب ہے کہ محکمانہ اصلاحات کے دعوے آج تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے اور بظاہر یہی محسوس ہورہا ہے کہ یہ دعوے دعوے ہی رہیں گے اور ہم زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگا کر خوشی حاصل کرتے رہیں گے۔
جو کچھ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی نے کیا یا جو کچھ ان کے ساتھ ہوا‘ وہ اپنی جگہ لیکن جب یہ اقتدار میں تھے‘ کم از کم تب ہی اداروں کی بہتری کے لیے کچھ کر جاتے‘ پھر شاید انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ مان لیا کہ ملکی حالات بالخصوص معاشی حالات کی خرابی کی ایک بڑی وجہ بین الاقوامی حالات و واقعات ہیں لیکن اداروں کے حالات کی خرابی کی کیا وجہ ہے؟صرف اور صرف ہماری کوتاہیاں‘ ہمارے مفادات یا پھر نااہلی۔ دوسری طرف جو مارچ والوں کو فتنہ قرار دے رہے ہیں‘ اس سے قبل بھی یہ طویل عرصے تک ملک کے حکمران رہے ہیں‘ تب یہی اگر ملکی حالات میں کچھ سدھار لے آتے، عوام کی بہتری کے لیے کچھ کر جاتے تو عوام کسی اور کی طرف دیکھتے ہی کیوں؟ اگر تب نہیں کرسکے تھے تو اب ہی کرلیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کی ترجیحات میں نہیں۔ عوامی مسائل ایک طرف‘ قانون سازی کی جا رہی ہے نیب اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ سے روکنے کے لیے۔ حالات یہ ہوچکے ہیں کہ اب صورتِ حال میں بہتری کی کوئی اُمید تک باقی نہیں رہی۔ ہم سب کو یہ حقیقت اب قبول کرلینی چاہیے کہ یہاں ہمیشہ طاقتور کا بول ہی بالا رہے گا اور غریب ہمیشہ دھکے کھاتا رہے گا۔اوپر کی سطح پر موجود برائیاں اب اپنی پوری شدت کے ساتھ نیچے تک در آئی ہیں جن کا کوئی علاج دکھائی نہیں دے رہا۔ جب ہم ہی کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں تو پھر حکمرانوں کو کیا ضرورت ہے کہ ہماری بہتری کے لیے سوچتے رہیں۔ اگر برا نہ لگے تو کہنے دیجئے کہ اب ہماری کہانی ختم ہوچکی ہے۔ اب بس خاموشی سے زندگی گزارتے رہیں اور زندہ باد‘ مردہ باد کے نعروں سے دل بہلاتے رہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں