"FBC" (space) message & send to 7575

ہم رہیں اپنی دھن میں مگن

ہمیں افغانستان کے کوئلے کی ضرورت کیا پڑی‘ طالبان کی عبوری حکومت نے یکدم آنکھیں ہی ماتھے پر رکھ لیں۔ نہ صرف افغانستان نے منہ پھیر لیا بلکہ ایک وزیر کی طرف سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے‘ وہ بھی ہمارے لیے چشم کشا ہونا چاہیے۔یہ سب کچھ اُس حکومت کے دور میں ہوا ہے جسے ہم ''اپنی حکومت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی کہ کوئلے کی بے تحاشا بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کو ترجیح دی جائے۔ اُن کی طرف سے قرار دیا گیا کہ افغانستان سے نکلنے والا کوئلہ بہت اچھی کوالٹی کا ہے اور اِس کی درآمد سے ملک کو لگ بھگ دوارب ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی۔ یہ سننا تھا کہ افغان حکومت نے راتوں رات کوئلے کے نرخ نوے ڈالر فی ٹن سے بڑھا کر دوسو ڈالرفی ٹن کردیے۔ اِس کے ساتھ ہی افغانستان کی وزارتِ پٹرولیم کے ترجمان عصمت اللہ برہان کی طرف سے ان خیالات کا اظہار کیا گیا کہ ''افغان طالبان حکومت کا پاکستان کے ساتھ کوئلے کی برآمد کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، ہم کوئلہ اپنے مقامی صنعتکاروں کو بیچتے ہیں جو اِسے برآمد کرتے ہیں اور ہماری طرف سے اُن پر ایسا نہ کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے‘‘۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اِس سے آگے موصوف فرماتے ہیں: ''پاکستان کو ہمارے اور ہمارے عوام کی طرف سے سامنے آنے والے ردعمل سے اندازہ تو ہوگیا ہوگاکہ ہم کیا سوچ رہے ہیں، ہم نے انتقاماً کوئلے کے نرخ 90 ڈالر فی ٹن سے بڑھا کر 200 ڈالر فی ٹن کیے ہیں‘‘۔ موصوف کا مزید کہنا تھا کہ پڑوسی ملک کی اقتصادی قمیص اِس قدر زیادہ پھٹی ہوئی ہے کہ افغانستان سے کوئلہ ملنے سے چند ملین ڈالرز کی بچت اسے رفو نہیں کر سکتی۔ اندازہ لگا لیجئے کہ یہ افغانستان جیسے ملک کی طرف سے سامنے آنے والا بیا ن ہے۔
ہم شروع ہی سے یہ گردان سنتے آ رہے ہیں کہ فلاں ملک ہمار ابہترین دوست ہے‘ فلاں کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے ہیں کہ دنیا میں اِس کی مثال نہیں ملتی‘ فلاں ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات مذہبی اور تاریخی طور پر استوار ہیں۔ کون سا ملک ہے جس کے بارے میں ہم نے یکطرفہ طور پر ایسے دعوے نہیں کیے لیکن سچی بات ہے کہ جب اعتماد کی یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے تو دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ اِن دنوں ہم جس طرح امداد اور کچھ ریلیف حاصل کرنے کے چکر میں اپنے برادر اور دوست ممالک کے آگے بچھے بچھے جا رہے ہیں‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کوئی سچی بات کرنے یا سمجھنے کے لیے ہم تیار ہی نہیں۔ ہمیشہ مصیبت کو دیکھ کر سر ریت میں چھپا لینے‘ گند کو قالین کے نیچے دھکیل دینے یا بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے والی پالیسیوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ دور دراز کے ممالک کی بات تو ایک طرف‘ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان تک ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جسے سوویت یونین کے پنجوں سے آزاد کرانے کے لیے ہم نے اپنی سلامتی تک کو داؤ پر لگا دیا تھا۔ یہ وہ ملک ہے جس کے چالیس لاکھ سے زائد باشندے دہائیوں سے ہمارے ہاں پناہ گزین کے طور پر مقیم ہیں۔ اِن پناہ گزینوں کو ملک بھر میں کہیں بھی کاروبار کرنے تک کی اجازت دی گئی۔ یہ وہ ملک ہے جس کے بے شمار باشندے آج ہمارے کرپٹ سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے ملک کا شناختی کارڈ تک حاصل کرچکے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جسے کسی زمانے ہمارے پالیسی ساز ''سٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ یا تزویراتی گہرائی قرار دیا کرتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ بھی ویسا ہی واہمہ تھا جیسے دوسرے واہموں کا ہم بحیثیت قوم شکار ہیں۔
دنیا اپنے مفادات کو دیکھ کر اپنے تعلقات کا تعین کرتی ہے اور ہم ہیں کہ اب تک اپنی دھن میں مگن چلے جا رہے ہیں۔ ان حالا ت میں اندازہ لگا لیجئے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ افغانستان کے لیے کون سی قربانی ہے جو ہم نے نہیں دی۔ ضیاء الحق دور میں افغان جہاد کے نام پر پورے ملک کو بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا گیا تھا۔ ملک میں آئے روز دھماکے معمول بن گئے تھے۔ دہشت گردی نے پوری طرح سے ہمارے ملک میں پنجے گاڑ لیے تھے۔ امریکا کی افغانستان میں جنگ کے بعد ہم نے اپنے 80 ہزار سے زیادہ شہریوں کی جانیں قربان کیں۔ معیشت کو پہنچنے والے تقریباً 150 ارب ڈالر کے نقصان کا معاملہ الگ ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جس ملک کو سوویت یونین سے بچاتے ہوئے ہم نے اتنی قربانیاں دیں، آج اُس کا ہمارے ساتھ رویہ کیا ہے۔ عملاً حالات یہ ہو چکے ہیں کہ گزشتہ ماہ ہی افغانستان کے وزیردفاع ملا یعقوب کا یہ بیان سامنے آیا کہ اُن کا ملک بھارت کے ساتھ معمول کے عسکری تعلقات چاہتا ہے۔ اُن کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر دونوں ممالک کے مابین تعلقات معمول پر آ جائیں تو افغان فوجیوں کو تربیت کے لیے بھارت بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ یہ انتہائی حیرت انگیز بیان ہے جو افغانستان کے وزیر دفاع کی طرف سے سامنے آیا۔ مطلب وہ ایک ایسے ملک کے ساتھ سفارتی اور فوجی تعلقات استوار کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں جو اس سے قبل کی (بقول طالبان امریکا کی کٹھ پتلی) حکومتوں کے دوران بھی افغان فوجوں کو عسکری تربیت دیتا رہا ہے۔
ایک بھارتی وفد افغانستان کا دورۂ ''خیر سگالی‘‘ بھی کر چکا ہے۔ بظاہر تو یہ وفد انسانی بنیادوں پر افغانستان کو دی جانے والی امداد کا جائزہ لینے گیا تھا لیکن واقفانِ حال خوب جانتے ہیں کہ اندرون خانہ کیا کچھ چل رہا ہے۔ افغان حکومت بھارت سے اِس بات کی متمنی ہے کہ وہ اُن منصوبوںپر دوبارہ کام شروع کرے جو سابقہ حکومت کے دور میں شروع کیے گئے تھے مگر طالبان حکومت آنے کے بعد انہیں ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔ اقتصادی پابندیوں کے باعث افغان حکومت کہیں نہ کہیں سے ریلیف حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ طالبان جانتے ہیں کہ اگر بھارت اِن منصوبوں پر کام دوبارہ شروع کردیتا ہے تو بہت سے افغانوں کو معاشی سہارا مل سکتا ہے۔
افغانستان یقینا اُنہی ممالک کی طرف مدد کے لیے دیکھے گا جن کی معاشی حالت بہتر ہے۔ موجودہ حالات میں کم از کم پاکستان سے تو وہ کسی معاشی مدد کی اُمید نہیں رکھ سکتا۔ جب اپنی پڑی ہو تو پھر کچھ یاد نہیں رہتا کہ کب کس نے کسی کے لیے کیا کیا تھا۔ افغان حکومت کی بھی اِس وقت یہی صورت حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ہماری طرف سے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کی بات ہوئی تو سرحد کے اُس پار والوں نے کوئلے کے نرخوں کی برآمدی قیمت میں یکدم دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ کر دیا۔ افغان حکومت کے پاس اگرچہ ڈالرز تو نہیں ہیں لیکن وہ حقائق کا ادراک تو کر ہی سکتی ہے۔ اسے خوب علم ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کا ستر فیصد کے قریب کوئلہ جنوبی افریقہ سے درآمد کر رہا تھا لیکن وہاں کے سیاسی حالات کوئلے کی درآمد پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اب وہاں کوئلے کی قیمت 285 ڈالر فی ٹن تک جا پہنچی ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان افغانستان سے کوئلہ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے تو افغان اِسے 90 ڈالر فی ٹن کی قیمت پر ہرگز نہیں بیچیں گے۔ یہ تو کاروباری معاملہ ہو سکتا ہے اور اس میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے لیکن پاکستان کی معاشی حالت پر جو تبصرہ افغانستان کے اعلیٰ عہدیدار نے کیا ہے وہ نہ صرف کسی بھی طور مناسب نہیں بلکہ دل دکھانے والا ہے۔ طالبان حکومت ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے یہ اندازہ وہاں کالعدم ٹی ٹی پی کے کارکنوں کو پناہ دیے جانے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر تحریک طالبان پاکستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں‘ لگ بھگ چھ ماہ سے مذاکرات بھی چل رہے ہیں۔ افغان حکومت اِن مذاکرات میں سہولت کاری تو کر رہی ہے لیکن وہ ٹی ٹی پی کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کرنے یا اِنہیں پاکستان کے حوالے کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ افغانستان کے باب میں یہ حقیقت ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں