"FBC" (space) message & send to 7575

پریشانی کی بات تو ہے

اگست 2021‘ کابل طالبان کے سامنے سرنگوں ہو چکا تھا۔ کابل پر حکومت قائم کرنے والے خوشی میں ہوائی فائرنگ کر رہے تھے اور افغانیوں کو نوید سنا رہے تھے کہ اب افغانستان کے مشکلات کے دن ختم ہوگئے ہیں۔ یہ دعوے اپنی جگہ لیکن ملک سے نکلنے کی کوششوں میں جانیں دینے والے یہ بتا رہے تھے کہ افغانوں کی اکثریت کیا سوچ رہی ہے۔ ملک سے باہر نکلنے کی کوشش میں جہازوں سے لٹکے ہوئے لوگ پوری دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ وہ اِس تبدیلی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ شاید وہ جانتے تھے کہ ایک مرتبہ پھر اُن کے مشکل دن شروع ہوگئے ہیں۔ یوں تو طالبان کی حکومت آنے سے پہلے بھی اُن کے حالات بہت اچھے نہیں تھے لیکن عالمی برادری‘ خصوصاً بڑی طاقتوں کی مالی امداد کے باعث صورتحال کافی بہتر تھی۔ کاروبارِ زندگی کسی نہ کسی صورت چل رہا تھا اور افغان معیشت بھی رواں دواں تھی۔ یہ سچ ہے کہ غیر ملکی امداد کا بڑا حصہ کرپٹ عناصر کی جیبوں میں جا رہا تھا لیکن ظاہری سی بات ہے کہ اِس میں قصوروار امداد دینے والے نہیں تھے۔ اِس کے لیے قصوروار وہ تھے جو اِس امداد کو اپنے لوگوں تک پہنچنے نہیں دے رہے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے افغان جنگ کے دوران ہمارے ملک پر بھی ڈالروں کی بارش ہوئی تھی لیکن اِس بارش کا بڑا حصہ کہاں گیا‘ یہ اب کوئی راز نہیں رہا۔ اندازہ لگائیے کہ ڈالروں کی بارش ہونے کے باوجود آج ایک مرتبہ پھر ہم کشکول لے کر پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں اور اب تو ہمارے انتہائی قریبی اور دوست ممالک نے بھی ہماری امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ شاید اِس میں ہمارے لیے کچھ بہتری ہی ہو کہ ہمیں خودداری اور خودمختاری کا کچھ احساس ہو جائے جس کے بظاہر کوئی امکانات د کھائی نہیں دے رہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جن سے ہم ڈالرز لیتے رہے ہیں‘ برا بھلا بھی اُنہیں ہی کہتے رہے ہیں۔ ایسے ہی جیسے طالبان امریکا کو ''شکست‘‘ دینے کے بعد اُسی کی طرف امداد طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
وہ مناظر خوب اچھی طرح یاد ہیں جو کابل کی فتح کے بعد دیکھنے میں آئے تھے۔ سرحد کے اِس پار بھی طالبان کے حامی بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ اُن کے نزدیک تو گویا طالبان کے آنے کے بعد افغانستان دنیا پر جنت نظیر خطہ بن جانے والا تھا۔ یہ الگ بات کہ تعریفیں کرنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی اس جنت میں منتقل ہونے کی کوئی کوشش نہ کی۔ پتا نہیں ہماری عقل پر کیسے پردے پڑ چکے ہیں کہ کسی بھی چیز کو اپنے زاویے سے ہٹ کر دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ کچھ طبقات تو طالبان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ گیارہ ماہ کے طالبان کے ''عبوری‘‘ دور میں افغانوں پر کیا گزری‘ یہ بہت تلخ موضوع ہے۔ آج وہاں یہ ہو رہا ہے کہ لوگوں نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے اپنے بچے تک بیچنا شروع کر دیے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی چند ہفتے پرانی ایک رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ''ایک افغان خاتون کی طرف سے بتایا گیا کہ اُن کے شوہر نے اسے بتائے بغیر ہی اپنی دس سالہ بچی شادی کے نام پر فروخت کر دی تاکہ اپنا اور باقی کے پانچ بچوں کا پیٹ پالا جا سکے۔ خاتون کے مطابق اُس کا شوہر کہتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو باقی بچے بھوک سے مر جاتے‘‘۔ اس رپورٹ کے مطابق اس خاتون نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنی بچی کو اِس جہنم میں نہیں جانے دے گی۔ اُس نے گاؤں کے بزرگوں کی مدد سے اپنی بیٹی کی طلاق کا مطالبہ تو منوا لیا لیکن اِس شرط پرکہ لڑکی سے شادی کرنے والے نوجوان سے لی گئی ایک لاکھ افغانی کی رقم واپس کی جائے گی۔ ایسی متعدد دیگر رپورٹیں کئی دیگر ذرائع سے بھی سامنے آئی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ حقائق جانے بغیر ایسی باتوں کو یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ یہ سب رپورٹیں مغربی میڈیا کی طرف سے جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہیں۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ بلکہ المیہ ہے کہ ہم اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔
ہماری سمجھ سے تو یہ بالاتر ہے کہ اقتدار میں آنے والے یہ سوچ کر کیوں نہیں آئے تھے کہ اگر غیر ملکی امداد بند ہو گئی تو کیا ہو گا؟ اب کابل پر تو تسلط جمایا جا چکا ہے اور طاغوتی طاقتوں کو شکست بھی دی جا چکی ہے۔ اب آگے کیا؟ اربوں ڈالر کی امداد رک جانے اور افغانستان کے اثاثے منجمد ہونے سے حالات انتہائی دگرگوں ہو چکے ہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرح سے کاروبارِ مملکت چلایا جائے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ شام میں ایسی صورت حال وہاں خانہ جنگی شروع ہونے کے پانچ سالوں بعد سامنے آئی تھی لیکن افغانستان میں یہ حالات چند ماہ کے بعد ہی پیدا ہو چکے تھے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ مستقبل میں بھی اندھیرے ہی اندھیرے دکھائی دے رہے ہیں۔ نہ اب تک طالبان حکومت کو کسی نے تسلیم کیا ہے اور نہ ہی مستقبل کے حوالے سے ایسے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔ جب تک اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا‘ اس کی امداد بحال نہیں ہو سکتی۔ اس سب کا خمیازہ بے چارے افغان عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اب وہ دعوے یاد کریں اور اُن خوشیوں کو ذہن میں تازہ کریں جو امریکا اور نیٹو اتحادیوں کو شکست دینے کے بعد منائی گئی تھیں۔ اب سر پر پڑی ہے تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کیا جائے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب اِس سے پہلے طالبان اقتدار میں آئے تھے‘ تب بھی ہمارے بے شمار دانشوروں نے اِس تبدیلی کو دنیا کی امامت اور عالمی امن کا پیش خیمہ قرار دیا تھا۔ ایک صاحب کے نزدیک تب افغانستان دنیا کا سب سے پُرامن اور شاندار ملک بن گیا تھا۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ آپ وہاں منتقل کیوں نہیں ہو جاتے تو اُن کا آئیں بائیں شائیں کرنا ہمیں آج بھی یاد ہے۔ اب جو وہاں دوبارہ ''تبدیلی‘‘ آئی ہے تو رواں سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران صرف 30 افغان خاندانوں نے پاکستان سے اپنے وطن کی راہ لی ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ سال پہلے جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی تھی تو بڑی تعداد میں افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔
اس سارے قضیے میں افغانوں کو تو جو نقصان ہوا ہے‘ سو ہوا ہے خود ہمارے لیے بھی ملکی و عالمی سطح پر کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی وہاں قید کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کارکنوں کو رہا کر دیا تھا۔ ہم کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں کہ اِن مجرموں کو ہمارے حوالے کیا جائے لیکن اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ طالبان ہی کی سہولت کاری پر گزشتہ چھ ماہ سے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا دور چل رہا رکھا ہے۔ ہم نے ایک مرتبہ پھر اِنہیں قومی دھارے میں واپس لانے کا عزم کر رکھا ہے۔ وزیر خارجہ صاحب مطالبہ کر رہے ہیں کہ مذاکرات کے حوالے سے انہیں بھی آگاہ کیا جائے۔ طالبان سے پہلے‘ حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ خراب ہی رہے۔ اب جو ہمارے ''دوست‘‘ برسر اقتدار آئے ہیں تو اِن سے بھی ہماری نہیں بن رہی بلکہ طالبان حکومت کا بھارت کی جانب واضح جھکائو ہمارے لیے مزید پریشانیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ پوری دنیا میں طالبان کے باعث ملامت اور پابندیاں ہم نے برداشت کیں اور اب پکا پکایا پھل بھارت کی جھولی میں گر رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں پر کچھ تو غلط ہو رہا ہے جو حالات سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ حقائق سے نظریں چرائے جانے کا نتیجہ ہمیشہ غلط ہی نکلتا ہے۔ طالبا ن کی فتح پر خوشیاں منانے والوں کو ضرور سامنے آنا چاہیے اور اب افغان عوام جن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، اُن پر بھی بات کرنی چاہیے۔ ہمارے پاس صرف دعوے ہی رہ گئے ہیں کہ ہم نے فلاں کو شکست دی، فلاں کو ناکوں چنے چبوا دیے‘ بات یہ ہے کہ حاصل حصول کیا ہے؟ اِس کا کوئی جواب سامنے نہیں آتا۔ ہمیں تو افغان عوام سے ہمدردی ہے جن کی مشکلات ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ایک طرف افغان عوام کی مشکلات ختم ہونے میں نہیں آ رہیں اور دوسری طرف سرحد کے اُس پار سے ہمارے لیے بھی کوئی خیر کی خبر آنے کا نام نہیں لے رہی کہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں