"FBC" (space) message & send to 7575

نیا وزیراعلیٰ‘ نئی توقعات

تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد پنجاب میں سیاست نے ایک بار پھر کروٹ لی ہے۔ اِس مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کا قرعہ فال چودھری پرویز الٰہی کے نام نکلا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی عمومی طور پر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ 2002ء میں اُن کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں ایسے مظاہر بہت کثرت سے دیکھنے کو ملا کرتے تھے۔ اُنہوں نے صوبے کے معاملات پر اپنی گرفت خاصی مضبوط رکھی تھی۔ اُس دور میں اُنہوں نے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام بھی کرائے تھے۔ اُن کا شروع کیا ہوا ریسکیو 1122 کا منصوبہ آج بھی اس دور کے سنہری کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا منفرد سرکاری ادارہ ہے جو بلا رنگ و نسل سب کی خدمت کرنے اور لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مصروف ہے۔ اِس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اِس کے عوض یہ عوام سے کسی ''خدمت‘‘ کا طلبگار نہیں ہوتا۔ خود چودھری پرویز الٰہی بھی اکثر اوقات فخریہ انداز میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے اُس دورِ حکومت میں یہ بات نمایاں طور پر نظر آئی کہ بیورو کریسی اُن سے کافی خوش تھی۔ اِس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بیشتر صورتوں میں درشتی چودھری صاحب کے مزاج کا حصہ نہیں۔ اِسی لیے اعلیٰ افسران اُن کے ساتھ میٹنگز کے دوران کافی ریلکس رہتے تھے۔ اکثر اوقات تو وہ وزیراعلیٰ کی رائے سے اختلاف بھی کر جاتے تھے لیکن اِس سے کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اِس کے برعکس ہم نے شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں سرکار ی افسران کو زیادہ تر اِسی کوشش میں دیکھا کہ وزیراعلیٰ سے نہ ملنا پڑے تو ہی بہتر ہے۔ پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ قدرے مختلف مزاج کے حامل ہیں۔ ہماری اُن سے زیادہ ملاقات تو نہیں رہی لیکن جب کبھی آمنا سامنا ہوا‘ اُن سے مل کر اچھا محسوس ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس مرتبہ وہ ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کر سکیں گے؟ وہ بھی اِس صورت میں کہ جب تناؤ بھرے سیاسی ماحول میں اُن کے پاس وقت بہت محددو ہے اور مشکلات کافی زیادہ۔ دراصل حصولِ وزارتِ اعلیٰ کے کھیل میں اتنے داؤ پیچ کھیلے گئے ہیں کہ اب فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔
پہلے بطور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ کی راہ میں حائل رہے۔ اللہ اللہ کر کے حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو پی ٹی آئی کے نو منتخب گورنر عمر سرفراز چیمہ نے اُن سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ تب پنجاب کی کابینہ حلف اُٹھانے کے لیے دربدر پھرتی رہی۔ معاملہ پھر لاہور ہائیکورٹ میں چلا گیا جس کے احکامات کی روشنی میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حمزہ شہباز سے حلف لیا۔ اِس سے پہلے جب گورنر پنجاب حمزہ شہباز سے حلف نہیں لے رہے تھے تو اُنہیں عہدے سے ہٹانے کی سمری صدرِ مملکت کو بھیجی گئی جو مسترد کر دی گئی۔ گویا ہر وہ قدم اُٹھایا جاتا رہا جس سے نئی حکومت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں۔ آخر کار حلف کا مرحلہ طے پایا تو حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے پچیس اراکین پنجاب اسمبلی کا معاملہ عدالت میں جا پہنچا۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے یہ اراکین ڈی سیٹ ہو گئے تو نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ضمنی انتخابات کے نتائج سے منسلک ہوگیا۔ 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ کی تمام تر اُمیدوں کے برعکس 20 میں سے 15 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے وزارتِ اعلیٰ کے لیے پنجاب اسمبلی میں اپنے نمبرز پورے کر لیے۔ اس وقت یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اب پی ٹی آئی کے اُمیدوار چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے سے نہیں روکا جا سکتا لیکن ... ہمارے سیاستدانوں نے شاید ابھی تک عملاً آئین کی پاسداری کا سبق سیکھا ہی نہیں۔ اب کی بار رکاوٹیں کھڑی کرنے کی باری حکومتی اتحاد کی تھی۔ ایک اہم مشن زرداری صاحب کو سونپا گیا جنہوں نے چودھری شجاعت حسین کو شیشے میں اُتار کر قاف لیگ کے اراکین اسمبلی کو ایک خط لکھوایا جس میں پرویز الٰہی کو ووٹ دینے سے منع کیا گیا تھا۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے اِسی خط کو بنیاد بنا کر چودھری پرویز الٰہی کے حق میں ڈالے گئے قاف لیگ کے 10 ووٹ شمار ہی نہ کیے اور یوں حمزہ شہباز چند مزید دنوں کے لیے وزارتِ اعلیٰ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا جس کے فیصلے کے نتیجے میں آخرِ کار چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ بن گئے۔
یہ تھی پنجاب میں حصولِ اقتدار کے لیے کھیلے جانے والے کھیل کی مختصر سی روداد۔ اِس تمام عرصے کے دوران پورا صوبہ نہ صرف سیاسی بلکہ انتظامی طور پر بھی شدید بحران کا شکار رہا۔ سیاسی تنائو کے باعث صوبے کے انتظامی افسران میں شدید بے چینی پھیلی رہی اور تمام تر ریاستی مشینری جام رہی۔ حیرت کی بات ہے کہ طرفین کی جانب سے کسی ایک نے بھی اِس بات کو ملحوظ خاطر نہ رکھا کہ اِس کشمکش کے باعث عوام کا کس قدر نقصان ہو رہا ہے۔ کسی نے بھی آئین کی پاسداری کا نہ سوچا۔ عوامی اور ملکی مفاد کے نام پر ایک ہی مقصد نظروں کے سامنے تھا کہ کسی طرح پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ حاصل کی جائے۔ اِس دوران ایک دوسرے پر شدید لفظی گولہ باری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اخلاقیات نامی چڑیا تو دور کہیں اپنا منہ چھپا کر بیٹھی رہی۔ یہ بھی ہوتا رہا کہ طرفین کی جانب سے اداروں کو بھی دباؤ میں لانے کی بھرپور کوششیں ہوتی رہیں۔ اب جب فیصلہ ایک فریق کے خلاف آیا ہے تو اسے خرابیاں ہی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ اِس سے پہلے جن کیسز میں فیصلے اِس فریق کے حق میں آئے‘ تب عدالتیں بہت اچھی تھیں۔ اب فل بینچ نہ بنائے جانے کے فیصلے پر تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے تو یہ معاملہ بہت سیدھا تھا اور اِسی تناظر میں غالباً فل بینچ بنانے سے گریز کیا گیا۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ نہ تو پی ٹی آئی کے 25 اراکین کو ساتھ ملانے کا اقدام قابلِ تحسین تھا اور نہ ہی قاف لیگ کے دس ووٹوں کو شمار نہ کرنے کی کوئی توضیح پیش کی جا سکتی ہے۔ انہی دو اقدامات کے باعث صوبے میں انتشار اور سیاسی تفریق کا آغاز ہوا۔ اب بھی اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ صوبے میں پائی جانے والی افراتفری کا جلد خاتمہ ہو سکے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ چودھری پرویز الٰہی انتظامی صلاحیتوں کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتے ہیں لیکن اب معاملات اتنے آسان نہیں رہے۔
نئی حکومت کے آتے ہی تبادلوں کے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ سابق آئی جی پنجاب راؤ سردار نے چند روز پہلے ہی کام کرنے سے معذرت کر لی تھی جس کے بعد اُنہیں آئی جی ریلویز تعینات کیا جا چکا ہے۔ لاہور کے سی سی پی او بھی عہدے سے ہٹائے جا چکے ہیں۔ ڈی جی اینٹی کرپشن کو بھی پنجاب سے ریلیو کر دیا گیا ہے۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی کو وزیراعلیٰ کا نیا پرنسپل سیکرٹری تعینات کیا جا چکا ہے۔ کچھ مزید تقرر و تبادلے بھی ہوئے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ مزید چلنے کے بھرپور امکانات ہیں۔ یہ بات تو طے تھی کہ اگر پنجاب میں سیاسی تبدیلی آئی تو پولیس میں بڑے پیمارے پر تقرر و تبادلے ہوں گے۔ اِس کی بڑی وجوہات 25 مئی کو تحریک انصاف کے احتجاج پر پولیس کا تشدد اور پھر پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پولیس کی مداخلت تھی۔ پی ٹی آئی اور اتحادی سمجھتے ہیں کہ پولیس نے اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کرکے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کی راہ ہموار کی۔ 17جولائی کو جب پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی‘ تب سوشل میڈیا پر متعدد پولیس افسران کے خلاف ٹرینڈز چلتے رہے۔ قرار دیا جاتا رہا کہ اب یہ پی ٹی آئی حکومت پر لازم ہے کہ وہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے۔ خود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی اعلان کیا کہ وہ 25 مئی کو تحریک انصاف کے کارکنوں پر تشدد کرنے والوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ''جزا و سزا‘‘ کے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے‘ جس سے معاملات کے مزید بگڑنے کی خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کے باوجود یہ توقع ہے کہ نئے وزیراعلیٰ صورتحال کو نارمل رکھنے میں اپنا کردار ضرور ادا کریں گے۔ اپنی شہرت کے عین مطابق وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں