"FBC" (space) message & send to 7575

شائننگ و گرین لاہور

گزشتہ دنوں ایک خبر میری نظر سے گزری جس کے مطابق لاہور کی انتظامیہ نے لاہور کی شاہراہوں کو صاف ستھرا بنا نے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ ہر روز ایک علاقہ منتخب کیا جائے گا اور وہاں پر صفائی ستھرائی کی خصوصی مہم چلائی جائے گی۔ خراب سٹریٹ لائٹس کو ٹھیک کردیا جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں بے ہنگم طریقے سے پھیلی ہوئی بجلی کی تاروں کو مرحلہ وار ختم کردیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں شہر کی چھ بڑی شاہراہوں کو ماڈل شاہراہیں بنانے کا ڈول بھی ڈال دیا گیا ہے۔ یہ سب کام تو جب ہوگا تب کی بات ہے لیکن کم از کم دل ضرور خوش ہوگیا ہے۔ ایک بار پھر گدگدی سی ہونے لگی ہے کہ لاہور کی خوبصورتی کو جو گھن لگ چکا ہے شاید اُس کا کچھ مداوا ہو ہی جائے۔ یہ تو سچ ہے کہ جس لاہور کو ہم ڈھونڈ رہے ہیں یا اپنے خوابوں میں سجائے ہوئے ہیں‘ اُس کی واپسی تو ناممکن ہے۔ ہم تو وہ لاہور ڈھونڈ رہے ہیں جس کے بارے میں بھارت کے مشہور اداکار پران کہا کرتے تھے کہ لاہور ایک نشہ ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں جب میزبان پران سے کوئی بھی سوال کرتا تو وہ گھما پھرا کر اُس میں لاہور کا ذکر لے آتے تھے۔ تنگ آکر میزبان نے پوچھ ہی لیا کہ لاہور کے علاوہ آپ کو کچھ اور نہیں سوجھتا؟ موصوف کا جواب تھا کہ تم سمجھ نہیں سکتے کہ جو لاہور ہم چھوڑ کرآئے ہیں‘ وہ کیا چیز ہے۔ ہم تو وہ لاہور ڈھونڈ رہے ہیں جس کے بارے میں کرشن چندر کہا کرتے تھے کہ لاہور کا ذکر تو کجا‘ اِس کافر ادا شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ کرشن چندر کہا کرتے تھے کہ لاہور کوئی شہر تو نہیں بلکہ یہ تو ایسی کیفیت کا نام ہے کہ جو کسی پر طاری ہو جائے تو پھر اُترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اِس شہر کے بارے میں جاننا ہو تو پران نیوائل کی کتاب Lahore, a sentimental journeyپڑھ کر دیکھیے۔ تقسیم ہند کے بعد پران نیوائل بھی سرحد پار جا بسے تھے لیکن خود کو کبھی لاہور سے جدا نہ کرسکے۔ اور وہ جو بابا جی اشفاق احمد صاحب لاہور کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ لاہور سے الگ ہونے پر انسان زندہ تو رہتا ہے لیکن معاملہ ویسا ہی ہو جاتا ہے جیسے کسی گاڑی کو پٹرول سے گیس پر منتقل کردیا گیا ہو۔
اب تو اصل لاہور کی باتیں اور تذکرے بس کتابوں میں ہی پڑھنے کو ملتے ہیں یا پھر کسی حد تک اصل لاہور کی کچھ جھلکیاں ہم اپنے بچپن میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج کے مقابلے میں تب سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔ شہر کی بیشتر شاہراہیں سنگل ہوا کرتی تھیں جن پر زیادہ تر تانگوں کا راج ہی دکھائی دیتا تھا۔ شہر کی سب سے قدیم اور معروف شاہراہ‘ مال روڈ بھی ہمارے بچپن میں سنگل ہی ہوا کرتی تھی جس کے اطراف گھنے درخت اپنی بہار دکھا رہے ہوتے تھے۔ یہ جو یہاں آج کل ہروقت ایک ہڑبونگ سی مچی رہتی ہے‘ تب ایسا کچھ نہیں ہوا کرتا تھا۔ اگر کچھ ہوا کرتا تھا تو الحمرا میں ہونے والی ادبی محافل ہوتی تھیں۔ اِن محفلوں میں ایک سے ایک ادیب اور دانشور شریک ہوتے۔ شعرا حضرات اپنی شاعری سناتے اور سننے والے اِس پر سر دھنتے تھے۔ بے شمار فنکار بلاناغہ الحمرا میں آیا کرتے تھے۔ الحمرا سے ریگل کی طرف جائیں تو چیئرنگ کراس سے تھوڑا آگے ایک بہت ہی مشہور لارڈز ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ شام ڈھلے یہاں قدرے آسودہ حال ادیبوں اور احباب کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں لائیوبینڈ بجا کرتا تھا جو ہم نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن اِس بابت سنا بہت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اکثر یہاں آیا کرتے تھے۔ ایک نگینہ بیکری بھی تھی جو ادیبوں اور شاعروں کا گڑھ سمجھی جاتی تھی۔ پاک ٹی ہاوس اور انڈیا ہاوس بھی اہل ادب کے پسندیدہ مقامات میں شامل تھے۔ ادیب حضرات کا یہ معمول تھا کہ ایک جگہ سے اُٹھتے تو دوسری جگہ جا بیٹھے۔ چائے کی چسکیاں چلتی تھیں اور ساتھ ادب پر گفتگو کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ رات گئے تک یہ محفلیں جمی رہتی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ تب کوئی خوف نہیں ہوتا تھا کہ کیا معلوم کب کہاں کوئی حادثہ پیش آ جائے۔
اہلِ ادب یا آسودہ حال احباب کی محفلوں کے علاوہ گلی محلوں میں بھی یہ نظارے عام ہوا کرتے تھے کہ شام ڈھلے ہی جگہ جگہ لوگ باگ مل بیٹھتے تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ تب لاہور سچ میں باغوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ سگیاں پل کی طرف تو اتنے باغات ہوتے تھے کہ کچھ مت پوچھیں۔ تب شہر کے گردا گرد بے شمار زرعی زمین موجود تھی۔ تب ہم بھی شہر کے ایک نواحی علاقے میں رہا کرتے تھے۔ اُس علاقے سے لاہور کی مشہور نہر کوئی دوکلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھی۔ جب کبھی نہر میں نہانے کے لیے جانا ہوتا تو ہم ہمیشہ گروپ کی شکل میں جایا کرتے تھے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے علاقے سے نہر تک تمام علاقہ زرعی اور ویران سا تھا جس کے باعث اکیلے جانے میں خوف محسوس ہوتا تھا۔ راستے میں اکثر چاچا اللہ دتہ سے ملاقات ہوتی جو ہمیشہ یہی تلقین کرتے کہ منڈیو دھیان نال جانا۔ آج یہ تمام علاقہ آبادی سے اٹ چکا ہے۔ یہاں اتنے رہائشی منصوبے بن چکے ہیں کہ باقی سب کچھ برباد ہوکر رہ گیا ہے۔ جس طرف بھی چلے جائیں‘ بس کنکریٹ کا ایک جنگل ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہرطرف بے ہنگم ٹریفک اور اتنی آلودگی کہ سانس لینا بھی محال ہو چکا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یقین ہی نہیں ہوتا کہ اِس شہر میں کبھی پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائی دیا کرتے تھے۔ یہاں کبھی طوطے‘ ہدہد‘ بلبلیں اور دیگر پرندے بہت بڑی تعداد میں دکھائی دیا کرتے تھے۔ اب یہاں آسمان پر ہر طرف چیلیں ہی چیلیں اُڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ صدقے کا گوشت ڈال ڈال کر ہم نے اِن چیلوں کو اپنے سروں پر مسلط کر لیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اِن چیلوں نے چھوٹے پرندوں کو لاہور کی فضاؤں سے جیسے بے دخل ہی کردیا ہے اور خود ہی پردھان بن بیٹھی ہیں۔
اِن حالات میں لاہور کی انتظامیہ نے شہر کو شائننگ اور گرین بنانے کا بیڑا اُٹھایا ہے تو دل میں بہت سے وسوسے بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ وسوسے تب زیادہ شدت اختیار کر لیتے ہیں جب اِس سے پہلے شروع کیے جانے والے بیوٹیفیکیشن آف لاہور‘ دلکش لاہور اور سوہنا لاہور جیسے منصوبوں کا حال نظروں کے سامنے آتا ہے۔ یہ منصوبے گزرے ہوئے چند ہی سالوں کے دوران شروع کیے گئے تھے۔ بہت جوش و خروش سے اِن کی تشہیر بھی کی گئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ مبینہ طور پر اِن منصوبوں میں ''مال پانی‘‘ بنائے جانے کی باتیں بھی سامنے آئی تھیں۔ پھر جیسے جیسے اِن منصوبوں کو شروع کرنے والے حکام رخصت ہوتے گئے تو ویسے ویسے یہ منصوبے بھی اپنی موت آپ مرتے گئے۔ اِن حالا ت میں شائننگ اور گرین لاہور منصوبے کے بارے میں خدشات کا پیدا ہونا عین فطری امر ہے۔ یوں بھی ہرکسی نے لاہور کو خوب صورت بنانے کی بات کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بے ہنگم سا شہر ہی بنتا چلا گیا۔ سچی بات ہے کہ اب تو اِس شہر کے حالات میں بہتری کی کوئی اُمید بھی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وقت کا پہیہ کبھی نہیں رکتا لیکن پھر بھی کوشش کی جائے تو کچھ نہ کچھ تو بچا ہی لیا جاتا ہے۔ ہم تو سرے سے کچھ بھی بچانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اب جو نیا منصوبہ شروع کیا گیا ہے تو ہماری تمام دعائیں اور نیک خواہشات لاہور کی انتظامیہ کے ساتھ ہیں لیکن ایک گزارش بھی ہے۔ گزارش یہ ہے کہ خدارا کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس منصوبے کا حال بھی ماضی میں شروع کیے گئے منصوبوں جیسا ہی ہو۔ یقین نامی چڑیا تو پہلے ہی ہمارے دلوں سے رخصت ہو چکی ہے اور اگر شائننگ اور گرین لاہور منصوبہ بھی ماضی جیسے منصوبوں کی مانند کہیں دفن ہوگیا تو پھر بے یقینی کی کیفیت مزید بڑھ جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں