"FBC" (space) message & send to 7575

ایسا ہی ہے یہ نظام!

وہ جنہیں 2017ء میں راندۂ درگاہ ٹھہرائے جانے کا عمل شروع ہوا تھا‘ 2022ء میں وہ پھر سے سرخرو ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے مزے لوٹ رہے ہیں تو اسحاق ڈار بھی وطن واپسی کے بعد ملک کی معاشی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔ 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگاتے لگاتے مریم نواز صاحبہ لندن پہنچ چکی ہیں‘ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں بھی گرم ہیں۔ وہی نواز شریف جنہیں2017ء میں اقتدار سے ہٹانے سے پہلے ایک منظم مہم چلائی گئی تھی‘ ایسا تاثر پیدا کیا گیا تھا کہ اگر وہ مزید کچھ عرصے کے لیے برسرِ اقتدار رہے تو یہ ملک کے لیے سکیورٹی رسک ہو گا۔ تب تیسری بار کے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹایا جانا ہی سب سے بڑا مقصد تھا جس میں بڑے شاندار انداز سے کامیابی حاصل کی گئی۔ اقتدار سے محرومی کے بعد مختلف مراحل سے گزرتے‘ میاں صاحب علاج کے لیے لندن جا پہنچے اور تب سے اب تک وہیں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ 2018ء کے بعد بننے والی پی ٹی آئی حکومت کے مشیرِ احتساب کم و بیش ہر روز ایک نیوز کانفرنس کیا کرتے تھے جس میں کاغذات کے پلندے ہوا میں لہرائے جاتے تھے کہ یہ دیکھیں اِس معاملے میں بھی کرپشن ہوئی ہے‘ فلاں جگہ ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ہے‘ فلاں عمل کو انجام دینے کے نام پر بھاری رقوم خرچ کی گئیں۔ شہزاد اکبر اکثر فرمایا کرتے تھے کہ2020ء شہباز شریف کو سزا سنائے جانے کا سال ہے لیکن پھر وقت کی میز پلٹ گئی۔ شہزاد اکبر ''احتساب‘‘ کے عمل کو مکمل کیے بغیر ہی مستعفی ہو گئے اور اب خود اُنہیں نیب نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں طلب کر رکھا ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات سے باعزت طور پر بری کر دیے گئے ہیں۔ خاندان کے باقی افراد کی جلد بریت کے بھی دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل مبینہ ''منی لانڈرنگ‘‘ رپورٹ بھی 'کھوہ کھاتے‘ میں چلی گئی ہے۔ ایک سو سے زائد گواہوں کی گواہیاں بھی کام نہ آئیں۔ ڈرائی فروٹ کا کاروبار کرنے والے اور چائے والوں کے اکائونٹس میں آنے والے اربوں روپے بھی اپنا رنگ نہ دکھا سکے اور سب بری ہو گئے۔ بس ایسا ہی ہے یہ نظام!
اپنی بریت کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ پھر اُن کی بے گناہی ثابت ہو گئی ہے۔ اُن کی طرف سے قرار دیا گیا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سرخرو ہوئے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُن کے خلاف درج کیا جانے والا یہ مقدمہ سیاسی نوعیت کا تھا جس کے اُنہوں نے طویل عرصے تک نتائج بھگتے۔ حمزہ شہباز کی طرف سے تو یہ گلہ بھی سامنے آیا کہ سیاسی بنیادوں پر قائم اس مقدمے میں اُنہیں تقریباً بائیس ماہ تک پابندِ سلاسل رہنا پڑا۔ بلاشبہ بریت کے بعد وہ ایسے گلے شکوے کرنے میں حق بجانب ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ یہ جو کیس بنایا گیا اور پھر اِس حوالے سے ''ناقابل تردید ثبوتوں‘‘ کے دعوے کیے گئے‘ اُن کا کیا ہوا؟ طویل تحقیقات اور عرق ریزی کے نتیجے میں جو چیزیں ہاتھ لگیں‘ وہ کیوں اپنا اثر نہ دکھا سکیں۔ ایسے کتنے ہی سوالات ہیں جو ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں لیکن حلق سے نیچے نہیں اُتر رہے۔ دونوں میں سے کسی ایک کا موقف تو غلط ہے۔ اگر یہ کیس ''سیاسی بنیادوں‘‘ پر درج کیا گیا تھا تو پھر ایسا کرنے والوں کی جواب دہی ہونی چاہیے لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ یہ بھی رات گئی‘ بات گئی والا معاملہ ثابت ہوگا کہ اب کچھ نئے ''ٹارگٹس‘‘ پر کام ہو رہا ہے۔ اب کچھ اور منشا ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اب کسی اور کے لیے قافیۂ حیات تنگ کرنے کا وقت ہے‘ اِس لیے پچھلی سب باتیں بھلا دی گئی ہیں۔ اب قوم کو کچھ اور باور کرایا جا رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح چیزیں ایسے گڈمڈ ہو رہی ہیں کہ کچھ بھی پلے نہیں پڑ رہا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر یہ سب کچھ کب تک چلتا رہے گا؟ احتساب کے نعروں پر کب تک بساط بچھائی جاتی اور لپیٹی جاتی رہے گی؟ بدعنوانوں سے رقم نکلوانے کے نام پر مزید کتنی رقم اُڑائی جائے گی؟ ہر کوئی کڑے، بے لاگ اور شفاف احتساب کا نعرہ بلند کرتا ہے اور قوم کے کروڑوں‘ اربوں روپے جھونکنے کے بعد اپنی راہ پر چل دیتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اِس تمام تر صورتحال کے حوالے سے عام تاثر کیا ہے‘ عوامی سطح پر کیسے کیسے تبصرے ہو رہے ہیں اور کس طرح سے احتساب کے عمل پر انگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں۔ کیا کریں‘ بس ایسا ہی ہے یہ نظام!
اِس سے پہلے بھی کئی افراد کے خلاف اربوں روپے کے کیسز خارج ہو چکے ہیں۔ کسی کیس میں درجنوں صفحات پر مشتمل چالان عدالت میں جمع کرایا تھا تو کسی میں سینکڑوں صفحات پر مشتمل۔ متعدد بار یہ الزام سننے کو ملا کہ منی لانڈرنگ میں درجنوں بے نامی اکاؤنٹس کا استعمال کیا گیا تھا جن میں سے فرانزک کے بعد اتنے اکائونٹس جعلی ثابت ہوئے تھے۔ ہر‘ ہر کیس میں بھی درجنوں بلکہ سینکڑوں گواہوں کو نامزد کیا گیا تھا۔ تفتیشی حکام نے ہزاروں دستاویزات کو کیس کا حصہ بنایا اور کئی افراد کو ملزم بھی ٹھہرایا مگر ملزمان سے اِن افراد سے کسی بھی قسم کے تعلق اور ان الزامات کی تردید کر دی۔ بالکل ویسے ہی جیسے شہباز شریف متعدد سوالات کے جواب میں یہی کہتے رہے کہ وہ اِس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ سوال کیا گیا کہ آپ کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں بیرونِ ملک سے بارہ کروڑ روپے آئے ہیں‘ اِس بابت آپ کیا کہیں گے؟ جواب تھا: اِس بارے میں مَیں کیا جانوں‘ میری اہلیہ سے پوچھیں۔ ایسے کتنے ہی سوالات تھے جن کے جواب میں یہی کہا گیا کہ اُنہیں اِس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ آج لگ بھگ سبھی افراد بے نامی اکائونٹ کیسز سے بری ہو چکے ہیں۔ محترم شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے اس کیس میں بے گناہ قرار دیے جا چکے ہیں۔ ان سبھی کیسز میں سوال یہی اُٹھتا ہے کہ مقدمات کے حوالے سے اکٹھے کیے گئے ''ناقابلِ تردید‘‘ ثبوت کیوں اپنا رنگ نہیں دکھا سکے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب ثابت ہی کچھ نہیں ہونا تو پھر احتساب کے نام پر قومی خزانے سے اتنی بھاری رقوم خرچ کیوں کی جاتی ہیں؟ اب تو خیر سے احتسابی ادارے کے پر بھی کاٹے جا چکے ہیں‘ جس کا فائدہ کئی احباب کو ہوا ہے۔ پہلے احتساب کا نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور اُس کے بعد موقع کی مناسبت سے غباروں سے ہوا خارج کرنا شروع کر دی جاتی ہے۔ نجانے کب سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور ہر مرتبہ اِس بابت نئے پینترے اختیار کیے جاتے ہیں۔ کیا کریں بس ایسا ہی ہے یہ نظام!
یہ تو صرف چند مثالیں ہیں‘ ورنہ تو ایسے معاملات کی طویل اتنی فہرست ہے کہ پڑھتے جاؤ اور انگلیاں دانتوں میں دابتے جاؤ۔ بار بار ہونے والی اِس پریکٹس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ احتساب کے عمل سے اعتبار ہی اُٹھتا جا رہا ہے۔ یہ تاثر مضبوط ہوچکا ہے کہ بدعنوانی کے مقدمات سیاسی ضرورتوں کے تحت ہی درج کیے جاتے ہیں خواہ وہ کتنے سچے ہی کیوں نہ ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب اعتبار نامی چڑیا مکمل طور پر رختِ سفر باندھ چکی ہے۔ سامنے کچھ اور دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور پس پردہ کچھ اور چل رہا ہوتا ہے۔ اِسی چکر میں ملکی کشتی منجدھار سے نکل ہی نہیں پا رہی ہے بلکہ مزید طوفانوں میں گھرتی جا رہی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کون غلط اور کون صحیح ہے۔ بس ہرطرف ایک شور بپا ہے جو سماعتوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ہر ایک کا یہی دعویٰ ہے کہ اُس سے زیادہ ایماندار کوئی دوسرا نہیں مگر عالم یہ ہے کہ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے بدعنوان ترین ممالک کی صف میں کیا جا رہا ہے۔ جھوٹ کا ایسا غبار ہے کہ سچ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ چند روز قبل ایک اعلیٰ شخصیت سے بات ہوئی تو اُنہوں نے جیسے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ کہنے لگے: اب تو کوئی ایماندار افسر آ جائے تو خود کار طریقۂ کار کے مطابق چلتا ہوا یہ پورا نظام ہی تلپٹ ہوکر رہ جاتاہے۔ کیا کریں‘ بس ایسا ہی ہے یہ نظام! کہیں سے کوئی خوشگوار جھونکا بھی نہیں آ رہا۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب ہمیں اسی نظام کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں