"FBC" (space) message & send to 7575

یہ نوبت آنی نہیں چاہیے تھی

حالیہ دنوں ہونے والی ایک اہم پریس کانفرنس کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ بازگشت آنے والے کچھ عرصے تک اسی طرح سنائی دیتی رہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی پریس کانفرنس تھی۔ بلاشبہ یہ پریس کانفرنس غیرمعمولی حالات کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ وہی حالات جو ہمارے ملک میں ہمیشہ غیریقینی کی دھند میں لپٹے رہتے ہیں۔ ملکی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا موقع آیا ہو جب حقیقی معنوں میں محسوس ہوا ہو کہ ملک میں استحکام پیدا ہو چکا ہے۔ ورنہ تو ہمیشہ بے یقینی کی فضا ہی موجود رہی ہے۔ ہوتے ہوتے بات یہاں تک آن پہنچی کہ کوئی بھی واقعہ ہو تو انگلیاں ایک ہی طرف اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اب کی مرتبہ بھی یہی ہوا کہ دور دیس میں دبنگ صحافی ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کیا گیا تو بغیر حقائق جانے انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ گویا حالات اس نہج تک آن پہنچے ہیں کہ بد اعتمادی اپنی انتہاؤں کو چھوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ یہی وہ محسوسات رہے کہ جن کی بدولت ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی بیٹھنا پڑا۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے حالات آخر کیوں کر پیدا ہوئے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈجی آئی ایس آئی کو نیوز کانفرنس کا حصہ بننا پڑا۔ کانفرنس کے دوران جتنی بھی باتیں کی گئیں ‘ وہ تو اپنی جگہ ہیں لیکن بلاشبہ ان حالات کا پیدا ہونا انتہائی افسوس ناک قرار دیا جا سکتا ہے۔ کاش‘ کاش نوبت یہاں تک نہ پہنچی ہوتی کہ دراڑیں اتنی وسیع اور گہری دکھائی دینے لگتیں جتنی اس وقت دکھائی دے رہی ہیں۔ کاش حالات کا بروقت ادراک کر لیا جاتا تو شاید ملک کے حالات کچھ بہتر ہوتے جو اس وقت ابتری کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ افسوس کہ اب بھی بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ کچھ پلے نہیں پڑ رہا کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
ہماری حرکتوں سے پیدا ہونے والے حالات پر آج ہمارا دشمن بغلیں بجا رہا ہے اور اُسے خوشی منانی بھی چاہیے کہ ہم نے خود اُسے یہ موقع فراہم کیا ہے۔ بھارتی میڈیا ان تمام حالات کو بھرپورکوریج دے رہا ہے۔ ٹاک شوز میں پاکستان کے حالات پر بھرپور گفتگو سننے اور دیکھنے میں آرہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بھارت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے تو پھر اُسے ہماری ابتر حالت پر خوشی منانے کا بھی حق ہے اور یہی وہ کررہا ہے۔ کئی ایک بھارتی چینلز نے اعظم سواتی کی وہ پریس کانفرنس نشر کی جس میں وہ دو افراد کو اپنے اوپر ہونے والے تشدد کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ لبرٹی چوک میں عمران خان کی تقریر کو بھی بھارتی میڈیا نے نمایاں کوریج دی۔ اس دوران گفتگو کا جو حصہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر نشر نہیں کیا گیا تھا‘ بھارتی چینلز نے اُنہی حصوں کو بار بار نشر کیا۔ بھارتی اینکرز یہ باور کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار قرار دیں۔ اِس تناظر میں عمران خان کے لانگ مارچ کو بھی نمایاں کوریج دی جارہی ہے۔ کوئی عقل کا اندھا بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ہم نے بھارتیوں کو خوشیاں منانے کے بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔ اس چکر میں بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی مقبوضہ کشمیر میں انفنٹری ڈے کے موقع پر انتہائی اشتعال انگیز بیان داغ دیا۔ اس کی طرف سے یہ بیان دیا گیا کہ بھارت نے شمال کی طرف بڑھنا شروع کردیا ہے اور یہ پیش قدمی اب گلگت بلتستان کو بھارت میں شامل کرنے کے بعد ہی ختم ہوگی۔
یہ بیان اُس روز سامنے آیا تھا جس روز ہم کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف یومِ سیاہ منا رہے تھے۔ اُسی روز بھارتی وزیر دفاع کا ایسا بیان سامنے آنا‘ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ہم کمزور ہوں گے تو پھر دشمن کو تو چڑھائی کا موقع ملے گا ہی۔
دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنی حرکتوں سے تائب ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اگر کوئی سچائی بیان کرتا ہے تو اُسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ کئی ایک ایسے بھی ہیں جو تنقید کرنے کے بعد دوبارہ کبھی نظر ہی نہ آئے لیکن وقت کے پہیے کو آخر کب تک روکا جا سکتا ہے سو آج وقت سب کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ ایک کے بعد ایک تجربے نے آج ملک کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ ہم وطنوں کو ایک دوسرے پر اعتبار رہا نہ دنیا والے ہمارا اعتبار کرنے پر تیار ہیں۔ یہ صورتحال کوئی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی۔ اس کے لیے ہمیں دہائیوں تک سخت محنت کرنا پڑی ہے۔ اس کے لیے ہمیں کئی بار اپنے آئین کو لپیٹنے کا جوکھم اُٹھانا پڑا ہے۔ تب کہیں جا کر آج ہم نے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ جو باتیں کبھی بند دروازوں کے پیچھے ہوا کرتی تھیں‘ آج چوکوں اور چوراہوں میں ہورہی ہیں۔ اب تو کسی پھل والے کے پاس رک جائیں تو وہ بھی ایک ہی بات کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب باتیں سن کر افسوس بھی ہوتا ہے کہ خدایا ہم نے کون سا راستہ اختیار کر لیا ہے کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ ہم گہرائیوں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ کچھ تو ایسا ہے کہ جس کے باعث بے یقینی کی فضا گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے۔ کچھ تو غلط ہورہا ہے جس کے باعث دراڑیں وسیع ہوتی چلی جارہی ہیں اور اہل وطن کی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ہرگزرتا ہوا دن‘ اُن کے لیے مزید مصائب کا باعث بن رہا ہے اور حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اب سطحی باتوں سے بات بننے والی نہیں کہ ملکی حالات کو سنوارنے کے لیے سچے دل سے کوششیں کرنا ہوں گی۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ وہ دن گئے جب معلومات کو چھپانے کے حربے کارگر ثابت ہوا کرتے تھے۔ اب تو سوشل میڈیا کا جن ہر چیز کھول کھول کر ہمارے سامنے پیش کردیتا ہے۔ اپنی ہرمصیبت کے لیے اپنے دشمنوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی روش بھی ترک کرنا ہوگی کہ اب یہ چورن بھی بہت بک چکا ہے۔ کیوں ہم ایسی صورت حال پیدا کررہے ہیں کہ دشمن ہماری ہنسی اڑاتا پھر رہا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود بھی ہم عملاً کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
اگر ہم سچ میں یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز کے حالات ٹھیک ہو جائیں تو سب سے پہلے ہمیں باہمی اعتماد کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔ ایک دوسرے پر بے اعتباری کی کیفیت کا خاتمہ کرنا ہوگا اور یہ سب کچھ صرف باتوں سے نہیں ہوگا‘ اس کے لیے عملاً کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ اعظم سواتی پر تشدد کا معاملہ ہو یا پھر ایم این اے صالح محمد کی بے عزتی کا مسئلہ‘ اس سے کسی کی عزت میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایسے واقعات پر بھی انگلیاں ہی اٹھی ہیں۔ افسوس تو اِس پر بھی ہوا کہ لاہور جیسے شہر میں ایک کانفرنس کے دوران ایسی نعرے بازی ہوتی رہی جس کی کسی طور بھی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ اب ہم جو بھی کہتے رہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسی صورت حال کے پیدا ہونے کے لیے ہم سب ہی قصور وار ہیں۔ کاش کہ یہ نوبت نہ پیدا ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں