"FBC" (space) message & send to 7575

سب اپنا اپنا چورن بیچتے ہیں

بھارت میں عامر خان کی فلم ''پی کے‘‘ کی ریلیز سے پہلے ہی اس کی مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ہندو پیشواؤں کی طرف سے قرار دیا گیا کہ اس فلم میں ہندو مذہب کی توہین کی گئی ہے۔ ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ زیادہ مخالفت اس لیے بھی ہوتی رہی کہ اس میں مرکزی کردار ایک مسلمان اداکار عامر خان نے ادا کیا تھا۔ کافی مخالفت ہونے کے باوجود نہ صرف بھارتی حکومت نے اس فلم کو ریلیز کرنے کی اجازت دی بلکہ اس فلم نے ریکارڈ بزنس بھی کیا۔ فلم میں بہت شاندار انداز میں واضح کیا گیا تھا کہ کیسے مذہبی پیشوا مذہب کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور وہ بیوقوف بنتے ہیں۔ اس فلم میں مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے متعدد پیشواؤں کی حقیقت کو بھی اُجاگر کیا گیا تھا جنہیں رانگ نمبر کا نام دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ رہی کہ اس فلم کو بھارتیوں کی بہت بڑی تعداد نے دیکھا اور اسے پسند بھی کیا۔ فلم بینوں کی طرف سے قرار دیا گیا کہ کچھ مناظر سے اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر اس میں حقیقت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ اس فلم پر ہم جیسے مسلمانوں نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب ہمارے ہاں کبھی کوئی ایسی کوشش ہوتی ہے تو آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا ہے۔ بس کوئی بہانہ ملنے کی دیر ہوتی ہے تو پھر اس میں جس جس کو اپنا مفاد دکھائی دیتا ہے‘ وہ میدان میں کود پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو عمومی طور پر ایسے کسی بھی معاملے کو مذہب کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً ساڑے چھیانوے فیصد مسلمان آبادی ہے لیکن پھر بھی ہمارا ایمان چھوٹی چھوٹی باتوں سے خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ آپ مذہبی سیاسی جماعتوں کا طرزِ عمل دیکھیں‘ آپ کو آسانی سے اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے کام کرنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ یہ جماعتیں اپنے مذہبی اجتماعات میں بھی تقاریر ہمیشہ سیاست پر کرتی ہیں۔ کیونکہ وہ خوب جانتی ہیں کہ اس طرح لوگ زیادہ تعداد میں آتے ہیں۔ ایسی ایک نہیں متعدد جماعتیں ہیں جو یہ طریقہ کار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان جماعتوں پر حیرانی تب بھی ہوتی ہے جب یہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آتیں۔ بنا سوچے سمجھے‘ بس شورو غوغا مچا دیتی ہیں۔
یہ سلسلہ ابھی تھوڑا ہی عرصہ پہلے ٹرانس جنیڈر بل کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ قطع نظر اس کے کہ یہ بل صحیح تھا یا غلط‘ ہماری اس بل کے بے شمار مخالفین سے بات ہوئی تو اُن میں سے کسی ایک نے بھی خود اس بل کو نہیں پڑھا تھا۔ جس سے بھی پوچھا کہ بھائی آپ نے اس بل کو پڑھا ہے تو کچھ ہماری بھی رہنمائی فرما دیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ سب کا یہی جواب تھا کہ نہیں بھیا‘ مجھے تو میرے ایک وکیل دوست نے بتایا تھا کہ یہ بل قانون بن گیا تو یہاں مرد‘ مردوں سے اور عورتیں‘ عورتوں سے شادیاں کریں گی۔ کئی ایک سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے یہ بل کب قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا؟ یقین کیجئے کہ سب کا جواب یہی تھا ابھی ہی منظور ہوا ہوگا جو اتنا شور مچا ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ اُنہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ بل 2018ء میں منظوری کے مراحل طے کر چکا ہے۔ کچھ کرنے کو تھا نہیں تو ملک کی دو بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس بل کی مختلف شقوں کو عدالت میں چیلنج کیا اور اس کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چلائے۔ حسب روایت پیروکاروں نے بھی کچھ سوچے سمجھے بغیر شور مچانا شروع کردیا۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے پاس شاید کچھ فراغت تھی چنانچہ وہ یہ معاملہ عدالت میں لے گئی۔ دوسری طرف اس حوالے سے ایک ترمیمی بل بھی پیش کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اہم بات یہ بھی نوٹ کیجئے کہ جب 2018ء میں یہ بل پیش کیا جارہا تھا‘ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل یا اسمبلی میں موجود جماعتوں نے اعتراض کیوں نہیں اُٹھایا تھا؟ اس بل کی شقوں کو بیان کرنا تحریر کی طوالت میں بہت اضافہ کردے گا۔ بس بات صرف اتنی سی تھی کہ بل کا مقصد ٹرانس جینڈرز کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا جنہیں ہمیشہ سے ہمارے معاشرے میں دھتکارا جاتا رہا ہے۔ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بل بنانے والے یا اسے اسمبلی میں پیش کرنے والے اہل اسلام نہیں تھے؟ اُنہیں کیوں یہ سب خرابیاں دکھائی نہ دیں جو چار سالوں کے بعد نظرآنے لگیں؟ یہ سچ ہے کہ بہتری کی گنجائش ہر جگہ‘ ہروقت موجود رہتی ہے لیکن جب بہتری کے لیے اپنی مرضی اور منشا کا وقت منتخب کیا جاتا ہے تو مقاصد پر شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں۔
یہی صورت حال ایک فلم کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ بے شمار وہ احباب بھی فلم کی مخالفت میں پیش پیش دکھائی دیے جو پی کے کو شاندار فلم قرار دیتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں بھی ایک مذہبی سیاسی جماعت پیش پیش دکھائی دیتی ہے۔ یہاں بھی سوال یہی اُٹھایا گیا ہے کہ خدانخواستہ اس فلم کے باعث معاشرے میں بے راہ روی پھیل سکتی ہے۔ اُس معاشرے میں جو ڈھیروں ڈھیر رشوت کے بعد بھی سلامت ہے‘ جہاں عہدوں کی بندر بانٹ کے وقت دوسروں کی حق تلفی کی جاتی ہے‘ جس پر بدعنوانوں کو این آر اوز دیے جانے پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب کسی چھوٹی موٹی فلم میں معاشرے کی سچائیوں کو دکھانے کی کوشش کی جائے تو وہاں بے راہ روی پھیل سکتی ہے۔ پتا نہیں یہ منافقت کب ہمارا پیچھا چھوڑے گی۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ بدعنوانی کے خلاف لیکچر دینے والوں کے بارے میں بعد میں معلوم پڑتا ہے کہ جناب نے تو حرام کی کمائی سے ڈھیروں ڈھیر جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ قانون کی بالادستی کے نام پر قانون کی ایسی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں کہ اس کے چیتھڑے ہوا میں اُڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنی پسند کے افسران لگانے کے لیے اصل حقداروں کا حق ایسے مارا جاتا ہے کہ اُنہیں نانی یاد آجاتی ہے۔ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے تبادلوں کے جھکڑ چلا دیے جاتے ہیں۔ ان دنوں بھی لیہ کی خاتون ڈی پی او کے تبادلے کا ایشو بہت گرم ہے۔ ہمارے دوست آصف چوہدری کی سٹوری تو کچھ اور کہانی بیان کررہی ہے۔ اُنہوں نے اپنی ایک سٹوری میں واضح کیا ہے کہ لیہ کے کچھ سیاستدانوں نے وہاں قبضوں کا بازار گرم کررکھا تھا۔ معاملہ ڈی پی او تک پہنچا تو اُنہوں نے اس پر سخت ایکشن لیا۔ بس پھر کیا تھا لاہو رمیں ایوانِ وزیراعلیٰ کے درودیوار ہل گئے اور محترمہ کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے صوبے میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ہرممکن ''کوششیں‘‘ کی جارہی ہیں۔ خدا کی پناہ‘ گزشتہ چار سالوں کے دوران پنجاب میں 268ڈی پی اوز کا تبادلہ کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ پنجاب میں پولیس کے سب سے اعلیٰ عہدیدار آئی جی پنجاب کی ایوریج ٹرم صرف تین ماہ بنتی ہے جو قانون کے مطابق تین سال ہونی چاہیے۔ سول بیوروکریسی کا بھی یہی حال ہے کہ آج ہیں تو کل نہیں ہیں‘ والا معاملہ ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کیساتھ ساتھ قانون کی بالادستی کے دعوے بھی جاری رہتے ہیں۔ بس درس اور تقریریں ہیں‘ جتنی مرضی سن لیں۔ ابھی ہمارے ایک محترم نے بھی اپنے خطاب میں بہت کچھ واضح کیا ہے۔ معافی چاہتا ہوں کہ بات کچھ دوسری طرف نکل گئی ہے لیکن کیا کیا جائے گا کہ دل ہروقت جلتا رہتا ہے‘ کڑھتا رہتا ہے کہ آخر ہمارے ملک میں ہوکیا رہا ہے۔ ہم لوگوں نے کون سی راہ پکڑ لی ہے کہ جہاں ایک بل یا فلم کی وجہ سے تو ہمارے معاشرے میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے لیکن اہم ترین شخصیات کے ناموں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی بتائے گا کہ وہ مولانا ‘ جو حکومت وقت کو للکارتے رہتے تھے‘ وہ حکومت ملنے کے بعد آج کل کہاں ہوتے ہیں؟ مہنگائی مارچ نکالنے والے اب مہنگائی کے آسمان پر پہنچ جانے کے باوجود اب خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ آنکھوں سے جیسے بینائی ہی چلی گئی ہے کہ اُنہیں مہنگائی کے ماروں کی حالت تک نظر نہیں آرہی۔ جب تک عمران خان حکومت میں تھے تو تب تک یہ صاحب چین سے نہیں بیٹھے تھے۔ آج حکومت مل گئی ہے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو چکی ہیں۔ حیرت تو اس پر بھی ہوتی ہے کہ ہم بھی کچھ سوچے سمجھے بغیر ان کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں اور آج اپنے انہی رویوں کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں