"FBC" (space) message & send to 7575

’’گلوان سلام کہتا ہے‘‘

بھارت کی شمالی کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اوپیندرترویدی نے حالیہ دنوں میں ایک بیان دیا ہے۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والے بیان میں موصوف نے بڑھک ماری کہ جیسے ہی حکومت اُنہیں اجازت دے گی بھارتی فوج پاکستان پر نہ صرف حملہ آور ہو جائے گی بلکہ پاکستان کے پاس موجود (آزاد) کشمیر کوبھی ''واپس‘‘ لے لیا جائے گا۔ اِ س کے لیے جنرل ترویدی نے صرف ایک شرط رکھی کہ صرف حکومت کی اجازت درکار ہے ورنہ تو بھارتی فوج کے پاؤں رکابوں میں ہیں۔ ہندوووٹ بینک کو پکا کرنے اور پاکستان کا ہوّا دکھا کر اپنی قوم کے خون میں اُبال لانے کے لیے یہ بیان کافی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بیان سامنے آنے کی دیر تھی کہ پاکستان مخالف حلقوں نے اِس پر خوب بغلیں بجائیں۔ یہاں تک کہ مختلف شہروں میں انتہاپسندوں کی طرف سے جلوس تک نکالے گئے جن میں مذکورہ بیان کو خوب سراہا گیا۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیاکہ اب حکومت کو اجازت دے ہی دینی چاہیے تاکہ کشمیر والا معاملہ تو ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ ذہن میں رکھیے کہ جب مئی 1998ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اس وقت بھی ایک بھارتی وزیرکا کچھ ایسا ہی بیان سامنے آیا تھا جس میں فوج کو آزاد کشمیر میں گھسنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اِس موقع پر متعدد دیگر اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے تھے۔ مگر جب پاکستان کی طرف سے جوابی ایٹمی دھماکے کردیے گئے تب بھارتی انتہا پسندوں کا اُبال مارنے والا خون ٹھنڈا پڑا تھا۔ اب پھر اُسی نوعیت کے بیان دیے جا رہے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ اس بار بیان دینے والا کوئی سیاسی رہنما نہیں بلکہ ایک تھری سٹار جنرل تھا۔ جنرل بھی وہ جو بھارت کی شمالی کمان کا کمانڈر ہے۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر کا بیان سامنے آنے کے بعد کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی کہ بھارت کے پاکستان مخالف حلقے اِس پر خوشی کا اظہار نہ کرتے اور ایسا ہی ہوا۔ مختلف سیاسی رہنماؤں کی طرف سے جنرل ترویدی کو بھارت کا ہیرو قرار دیا گیا۔ وہی روایتی طرزِ عمل جو پسماندہ ممالک کے عوام اپناتے ہیں‘ بھارتی عوام کی جانب سے دیکھنے میں آیا۔ ایسی قوموں کو جذباتی ہونے کے لیے صرف ایک بیان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں بھی بھلا جذباتی لوگوں کی حقائق پر نظر کہاں رہتی ہے۔ وہ تو بیانات اور بڑھکوں کی دھنوں پر ناچنے والے لوگ ہیں اور یہ طرزِ عمل آج سے نہیں‘ طویل عرصے سے جاری ہے۔
بھارتی جنرل کے بیان پر شادیانے بجانے کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک مشہور بھارتی اداکارہ نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ ریچا چڈھا نامی اداکارہ نے جنرل ترویدی کے بیان پر ایک تین حرفی ٹویٹ کیا ''Galwan says hi‘‘۔ اردو میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا جا سکتا کہ گلوان سلام کہتا ہے۔ اِس تین حرفی ٹویٹ نے پورے بھارت میں ایک بھونچال برپا کر دیا۔ وہ جذباتی افراد جو جنرل ترویدی کے بیان پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے‘ اُن کی توپوں کا رخ ریچا چڈھا کی طرف ہوگیا۔ ریچا کی مخالفت میں انتہا پسندوں نے اُدھم مچا دیا۔ کہا گیا کہ یہ ٹویٹ کرکے اداکارہ نے بھارتی فوج اور ملک کے لیے جانیں دینے والوں کی توہین کی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل نے اس تین حرفی ٹویٹ پر اداکارہ کے خلاف دہشت گردی، توہینِ فوج، توہینِ شہدا اور دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔ مطالبات شروع ہوگئے کہ حکومت کو اداکارہ کے خلاف شدید کارروائی کرنی چاہیے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے شہروں میں اب مذکورہ اداکارہ کی کوئی فلم ریلیز نہیں ہونے دی جائے گی۔ مخالفانہ مہم میں اتنی شدت آگئی کہ اداکارہ کو نہ صرف یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑا بلکہ ایک اور ٹویٹ کرکے اپنے پہلے ٹویٹ پر معذرت بھی کرنا پڑی۔ موصوفہ نے نئے ٹویٹ میں کہا کہ اُن کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا اور اگر اِس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ اِس پر معذرت کرتی ہیں۔ یہ معافی بھی انتہاپسندوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں کرسکی اور ریپ اور قتل کی دھمکیوں کے بعد وہ اداکارہ چھپتی پھر رہی ہے۔ اِس دوران کچھ لبرل حلقوں کی طرف سے اداکارہ کے حق میں بھی بیانات آئے جن میں کہا گیا کہ ہرکسی کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق ہے۔ کانگریس کے ایک رہنما شری پاریش شرما نے ریچا کی حمایت میں کافی ٹویٹ کیے جن میں انتہاپسندوں سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ کسی کے حقِ اظہارِ رائے پر اِس طرح کے طرزِ عمل کا مظاہرہ نہ کریں لیکن بات بن نہ سکی۔ اس وقت یہ معاملہ بھارت میں کافی گرم ہے اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ اپنی جان چھڑانے کے لیے اداکارہ کو مزید کافی کچھ سہنا پڑے گا۔ شاید یہ ٹویٹ کرتے ہوئے اُسے یہ گمان نہیں ہوگا کہ بھارت کے انتہا پسند حلقے سچ کو کم کم ہی برداشت کرتے ہیں۔ بس ایک لگی بندھی روٹین ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اور ہر شے کو وطن پرستی کے خلاف قرار دے کر ایک محاذ کھول لیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر اِس تین حرفی ٹویٹ پر اتنا ہنگامہ برپا کرنے کی کیا ضررورت تھی۔ دراصل گلوان چین اور بھارت کے سرحدی علاقے لداخ کی ایک وادی ہے۔ وادیٔ گلوان انتہائی سرد علاقہ ہے۔ کہنے کو تو یہاں گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں اُگتا لیکن دونوں ممالک کی افواج اِس وادی پر تسلط پانے کے لیے برسرپیکار رہتی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ وادیٔ جموں و کشمیر کا علاقہ ہے جو بھارتی زیرِ تسلط تھا لیکن چین بھی اِسے اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔ یہ علاقہ لداخ کے دارالحکومت لیہہ سے تقریباً دوسو بیس کلومیٹر دور مشرقی لداخ میں واقع ہے جو کشمیر النسل لداخی سیاح غلام رسول گلوان کے نام سے منسوب ہے۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سی پیک منصوبے کے بعض پروجیکٹس کی حفاظت کے خیال سے چین وادیٔ گلوان کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ چین کو تشویش تب لاحق ہوئی جب بھارت نے گلوان کے علاقے دربد سے دولت بیگ اولڈی تک ایک شاہراہ اور ایک بڑا پل تعمیر کیا۔ کچھ دیگر منصوبے بھی مکمل کیے گئے جن کے باعث چین کو تشویش پیدا ہوئی کہ اس سے سی پیک منصوبے کے کچھ پروجیکٹس کو خدشات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اِسی تناظر میں چینی افواج نے جون 2020ء میں وادیٔ گلوان میں مداخلت کی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھی جو بڑھتے بڑھتے خونریز جھڑپوں تک جا پہنچی۔ واضح رہے کہ ایک معاہدے کے تحت بھارت اور چین کے فوجی اس علاقے میں کسی قسم کے ہتھیار نہیں رکھتے مگر اس کے باوجود ڈنڈوں اور پتھروں سے ہوئی لڑائی میں بیس کے قریب بھارتی فوجی مارے گئے۔ چین کے بھی کچھ فوجی ہلاک ہوئے مگر چین نے پینگونگ جھیل سمیت خاصے بڑے علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اِس پر بھارت میں بہت شور مچا اور بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جھڑپ کے بعد سے اِس وادی میں بھارتی اور چینی افواج مستقبل بنیادوں پر تعینات ہیں اور ہرلمحے صورتحال انتہائی حد تک بگڑ جانے کے خدشات موجود رہتے ہیں۔ اِس سے پہلے ڈوکلام میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئی تھی اور وہاں بھی بھارتی فوج کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بھارتی اداکارہ نے صرف اِس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی کہ آزاد کشمیر سے پہلے گلوان میں موجود چینی فوج کو تو باہر نکال لیں۔ مطلب غیرحقیقی دعوے کرنے اور بڑھکیں مارنے سے گریز کرتے ہوئے حقیقت کا سامنا کریں۔ یہ تین حرفی ٹویٹ اپنے اندر بہت کچھ سمیٹے ہوئے تھا۔ دیکھا جائے تو اِس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر غصے کا اظہار کیا جاتا۔ ایک اٹل حقیقت کو بیان کیا گیا تھا لیکن اداکارہ کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی مہم شروع کردی گئی۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اداکارہ کے ٹویٹ میں غلط کیا تھا۔ اُس نے تو صر ف ایک حقیقت بیان کی تھی۔ بات یہ ہے کہ کوئی بھی حقیقت کو جاننا نہیں چاہتا۔ بیشتر افراد خود کو حقیقت سے دور ہی رکھنا چاہتے ہیں کہ اِسی میں وہ اپنی بھلائی سمجھتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ عوام کے جذبات کے خلاف کوئی موقف اپنانے سے ان کو کس قسم کے سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں