"FBC" (space) message & send to 7575

آ بیل مجھے مار

کوئی حربہ‘ کوئی تاویل‘ کوئی آڈیو ویڈیو ٹیپ‘ بدعنوانی کے الزامات‘ کچھ بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔ مقدمات کی بھرمار بھی اپنا رنگ نہیں جما پارہی۔ واضح طور پر یہ محسوس ہورہا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد حکومتی زعما کی باتوں پر کان دھرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ صرف دس‘ گیارہ ماہ پہلے تک عمران خان کی حکومت شدید عوامی تنقید کی زد میں تھی۔ اقتدار میں موجود لوگوں کی کشتی بیچ منجھدھار میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ بچت کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ ان حالات میں مزید اختلافات پیدا ہوئے تو صورتحال بتدریج تبدیل ہونے لگی۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہرروز بڑھتی ہوئی عوامی مخالفت کے باوجود تحریک انصاف نے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے ہر ممکنہ حربہ استعمال کیا۔ ناراض ہونے والوں کی منتیں بھی کی گئیں کہ ہاتھ ہولا رکھیں لیکن ایک مرتبہ پھر تبدیلی کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ عوامی سطح پر ماحول کو سازگار بنانے کے لیے تب کی حکومت کی نالائقی کے قصوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں مہنگائی مارچ کرکے عوام کو باور کرایا گیا کہ اگر تحریک انصاف کچھ عرصہ مزید اقتدار میں رہ گئی تو سب کا کچومر نکل جائے گا۔ ہم تو یوں بھی زیادہ تر ظاہری چمک دمک پر ہی یقین رکھنے والے لوگ ہیں‘ سو جو کچھ سامنے نظرآرہا ہوتا ہے‘ تمام تر تجزیے اور نتائج اسی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ ایسی چیخ وپکار مچی کہ سب کو یقین سا ہو چلا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی رخصتی میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو کیسی عجیب بات ہے کہ تب مہنگائی کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے والے آج آنکھوں میں ایسا سرمہ ڈالے بیٹھے ہیں کہ انہیں سب کچھ ہرا ہرا ہی دکھائی دے رہا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ایک صوبے کی گورنر شپ مل جائے‘ وفاقی وزارت مل جائے اور دیگر معاملات بھی حل ہو جائیں تو پھر سب کچھ ہرا ہرا ہی دکھائی دے گا۔ افسوس کہ حصولِ مفادات کے لیے سیاست میں کسی بھی دائو سے گریز نہ کیا گیا۔ مقصدصرف ایک تھا کہ بس کسی طرح سے حکومت ہمارے ہاتھ میں آجائے۔ جب تمام راہیں ہموار ہوگئیں تو آخری ضرب اراکینِ اسمبلی پر لگا کرمقصد حاصل کرلیا گیا۔
بظاہر تو یہ سب کچھ تحریک انصاف کے لیے کسی زہریلے گھونٹ سے کم نہیں تھا لیکن یہ گھونٹ جیسے اس کے لیے امرت بن گیا۔ انتہائی نچلی سطح پر پہنچ جانے والی مقبولیت ان دنوں آسمان پر پہنچی ہوئی دکھائی دے رہی۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران جس تنقید کا سامنا عمران خان کو کرنا پڑ رہا تھا‘ اس سے کہیں زیادہ تنقید اب پی ڈی ایم‘ خصوصاً پیپلز پارٹی‘ (ن) لیگ اور جے یو آئی(ف) کو سہنا پڑ رہی ہے۔ اس میں کسی کے لیے حیرانی کی بھی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ دیکھیں اگر عمران خان پر یہ الزام ہے کہ ان کے دور حکومت میں سیاسی مخالفین پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے اور اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا۔ دیکھا جائے تو کیا اب بھی وہی کچھ نہیں ہورہا۔ مقدمات تو جیسے مذاق بن کر رہے گئے ہیں۔ جو بھی دو باتیں کردیتا ہے‘ اس پر مقدمہ بنوا دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اب انتہائی معزز شخصیات کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ان کے خلاف ایسی مضحکہ خیز ایف آئی آرز کاٹی جا رہی ہیں جن کا کوئی سر ملتا ہے نہ پیر۔ ایسی ایف آئی آرز کی بنیاد صرف اور صرف سیاسی انتقام ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں کرکے وہ مخالفانہ آوازیں دبانے میں کامیاب ہو جائے گا تو ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایسی کسی بھی کارروائی کے نتیجے میں نفرت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ ویسے بھی جن جن کو فضول مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے تو کیا ضمانتیں ملنے کے بعد وہ چپ کرکے بیٹھ گئے ہیں؟ ایسا ہوتا تو نظر نہیں آتا کیوں کہ متاثرہ افراد کی آوازیں تو مزید بلند ہوئی ہیں۔ بلکہ ایسی آوازیں بلند کرنے والوں کے ہمنواؤں میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ گویا نتائج توقعات کے برعکس نکل رہے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ طاقت کا نشہ حقیقت کو سمجھنے ہی نہیں دیتا۔ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے‘ وہ یہی سمجھتا ہے کہ بس ماضی کی طرح وہ ہمیشہ ہی اس لاٹھی سے سب کو ہانکتا چلا جائے گا لیکن شاید صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔
ایک طرف اگر مقدمات کا یہ کھیل جاری ہے تو دوسری طرف مہنگائی ساتویں آسمان پر پہنچ چکی ہے۔ وہ مہنگائی جس کے خلاف پی ڈی ایم نے ماضی میں آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ آج اگر چیزیں نہیں سنبھل رہیں تو اس کے لیے مسلسل ماضی والوں کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔ کمال کی بات ہے کہ جب سے یہ آئے ہیں تو تمام اشاریے انتہائی منفی ہو چکے ہیں لیکن کوئی ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار ہی نہیں۔ وہی ایک روایتی سی گردان ہے کہ ابھی تو ہم جانے والوں کا پھیلایا ہوا گند صاف کررہے ہیں۔ یقین کر لیجئے کہ شاید ماضی میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا رہا ہوگا لیکن اس وقت حقیقتاً ایک عام آدمی کے لیے گزر بسر کرنا مشکل تر ہو چکا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ زندگی کو تو بہرحال چلنا ہی ہوتا ہے‘ سو وہ چلتی چلی جارہی ہے لیکن سب کچھ اب انتہائی تکلیف دہ ہوچکا ہے۔ کہتے ہیں کہ بچت کے نام پر کسی غریب کی ایک روٹی کو آدھا کردینا اہم نہیں ہوتا۔ اہم یہ ہوتا ہے کہ کسی امیر کے پراٹھے پر لگے ہوئے گھی کو آدھا کردیا جائے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی ہمارے وزیراعظم صاحب نے کفایت شعاری کے نام پر کچھ اقدامات تو اٹھائے ہیں لیکن وہ اپنی کابینہ کا حجم کم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ معاشی طور پر اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے ملک کی اتنی بڑی کابینہ تشکیل دینے پر دنیا ہم پر ہنستی ہی ہو گی۔ وزرا‘ مشیروں اور معاونین کی اتنی بڑی فوج اور اس کے لیے بے شمار وسائل۔ یہ ہوتے ہیں ایسی قوموں کے وطیرے جو سچ میں اپنے آپ سے مخلص ہوتی ہیں؟ وزیراعظم یہ کیوں نہیں کرتے کہ آج سے اعلان کردیں کہ وہ خود بھی تیرہ سو سی سی سے بڑی گاڑی میں سفر نہیں کریں گے۔ جس روز وہ خود اپنا پروٹوکول کم کردیں گے‘ اس روز سے تبدیلی کا حقیقی عمل شروع ہو جائے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ بیرونی ممالک میں بھاگ بھاگ کو شاہراہیں عبور کرنے والے اپنے ملک میں آتے ہی جیسے زمینی خدا بن جاتے ہیں۔ یہی ہے ہمارا سب سے بڑا المیہ۔
اس تمام تر صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عمران خان سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ اگرچہ این اے 193کے ضمنی انتخاب میں ہارنے والا بھی لغاری تھا اور جیتنے والا بھی لغاری ہے‘ اس لیے کوئی بھی جیت جاتا تو زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اہم بات یہ رہی کہ جیتنے والا لغاری تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہا تھا۔ ہارنے اور جیتنے والے امیدوار کے درمیان ووٹوں کا فرق واضح کررہا ہے کہ صورتحال کس نہج پر پہنچ چکی ہے۔ یقینا یہ سب کچھ اقتدار والوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نہ تو 2018ء میں تبدیلی کا تجربہ کامیاب ہو پایا اور نہ اس کے بعد والا تجربہ کوئی اچھے نتائج سامنے لا سکا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان تجربات کے چکر میں ملک ایک ایسی تجربہ گاہ کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں ہروقت کسی نہ کسی نئے فارمولے پر کام جاری رہتا ہے۔ اب شاید فارمولوں میں کچھ تبدیلی کرنا پڑے گی کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے کے پی اور پنجاب میں انتخابات کے واضح احکاما ت دیے جا چکے ہیں۔ یہ پی ڈی ایم والوں سمیت سب کے لیے ایک اور ڈراؤنا خواب ہے کہ یہ تو جائے رفتن نہ پائے ماندن والی بات ہوگئی ہے۔ آج بجا طور پر یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ اگر صورتحال اتنی ہی خراب تھی تو آپ نے اقتدار سنبھالا ہی کیوں تھا؟ ایک آدھ سال اور انتظار کر لیتے‘ کیا ہوجانا تھا۔ اب اگر اپنی مرضی سے حکومت سنبھالی ہے تو پھر موجودہ حالات کی ذمہ داری بھی قبول کریں۔ یقینا تحریک انصاف کو اس تمام تر صورتحال کے لیے پی ڈی ایم والوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے حکومت سنبھال کر ان کا تمام بوجھ اپنے سر لے لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم بھی کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں