"FBC" (space) message & send to 7575

افسوس

ہمارے ہاں معاملات کچھ اسی طور چلتے رہتے ہیں۔ آج نوبت یہ آ چکی کہ چیف جسٹس صاحب کو عدالت میں آبدیدہ ہونا پڑ رہا ہے۔ ایک آئینی تقاضے کو پورا کرنے کیلئے لیے جانے والے ازخود نوٹس پر ایسا اُدھم مچایا گیا کہ سب کچھ ہی گڈمڈ ہو کر رہ گیا۔ ایسی ہٹ دھرمی شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہو۔ وزارتِ دفاع کہتی ہے کہ وہ انتخابات کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کل کو ملک میں کوئی ہنگامی صورتحال نافذ ہوتی ہے‘ تب بھی یہ مؤقف اختیار کیا جا سکتا ہے کہ ہم سکیورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہیں؟ ایک ادارے کی بنیادی ذمہ داری ہی یہ ہے کہ وہ انتخابات کرائے‘ جب اُسے انتخابات کرانے کے لیے کہا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ وہ اِس کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی باتوں کی کوئی منطق پیش کی جا سکتی ہے؟ فنڈز فراہم کرنے کے حوالے سے بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ ان سبھی باتوں کی کوئی منطق‘ کوئی توجیہ نہیں ہے لیکن چونکہ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ انتخابات نہیں کرانے تو پھر نہیں کرانے۔ آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی بھی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد نوے روز کے اندر انتخابات کرانا لازمی ہے۔ اِس کے باوجود اگر یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا جا رہا تو اِسے ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کہتی ہیں کہ پہلے نواز شریف اور عمران خان کے حوالے سے ترازو کے پلڑے برابر کیے جائیں‘ تبھی انتخابات ہوں گے۔ حکومت کہتی ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہو جائے‘ پھر انتخابات کرائیں گے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں 80ء کی دہائی سے امن و امان کی صورتحال بنیادی مسئلہ بنی ہوئی ہے، سوال یہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے صورتِ حال میں بہتری کا کب تک انتظار کیا جائے گا؟ کیا آج کے حالات 2008ء کے حالات سے زیادہ بدتر ہیں؟ اگر اس وقت انتخابات سے انکار نہیں کیا گیا تو آج کیوں؟ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی قرار دیا جا رہا ہے کہ ہم انتخابات سے بالکل خوفزدہ نہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے انتخابات میں التوا کے معاملے پر از خود نوٹس لیا تو حکومتی صفوں سے ایک اُدھم مچا دیا گیا۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے ایک بل بھی پاس ہو گیا جس میں چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے کے اختیار پر قدغن لگائی گئی اور اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے انتشار کی سی کیفیت پیدا کر دی گئی۔ ان حالات میں ملک کے 13ویں چیف جسٹس‘ جسٹس سجاد علی شاہ کا معاملہ کس کی نظروں سے اوجھل ہے؟ کوئٹہ کی سپریم کورٹ رجسٹری سے ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند ہوا تھا۔ تفصیلات کافی تکلیف دہ اور طویل ہیں‘ مختصراً یہ کہ تب بھی ایسا ہی کھیل کھیلا گیا تھا اور ججز کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے تھے۔ اِس کے پس پردہ کیا وجوہات کارفرما تھیں‘ اِس حوالے سے بہت سی باتیں زبان زدِ خاص و عام ہیں۔
آج یہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے۔ کچھ پلّے نہیں پڑ رہا۔ جو آتا ہے اپنی اپنی بولی بول کر چلا جاتا ہے۔ سیاسی آندھی سے ایسی گرد اٹھ رہی ہے کہ ہر ادارے کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو آج جن پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے‘ اِن حالات سے اُنہیں بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ صورتحال گزشتہ ایک آدھ دہائی کے دوران پیدا ہوئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کئی دہائیوں کی 'محنت‘ کے بعد حالات یہاں تک پہنچے ہیں۔ کچھ عناصر نے ایسی راہ اپنائے رکھی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج گلی گلی میں اِن کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔ اِس بات سے بھی انکار نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے عدلیہ کے وقار کو بھرپور ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ روش عام ہو چکی ہے کہ اگر اپنے حق میں فیصلہ آئے تو عدلیہ زندہ باد‘ ورنہ اہم ترین ملکی ادارے کا امتحان لینا شروع کر دیا جاتا ہے اور یہی کچھ آج کل ہو رہا ہے۔ آج عدالتوں میں سیاسی کیسز کی بھرمار ہو چکی ہے۔ صبح سے شام تک اِنہی کیسز کی سماعت کا چرچا رہتا ہے اور اِسی وجہ سے معزز جج صاحبان بھی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ عدالتی مقدمات کی سیاسی توضیح کی جاتی ہے۔ جہانگیر ترین کو سزا ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ نواز شریف کی سزا کو بیلنس کرنے کے لیے سنائی گئی۔ عمران خان کو کسی کیس میں ضمانت مل جائے تو الزام لگایا جاتا ہے کہ اِن پر وہ اصول لاگو نہیں کیے جاتے جو نواز شریف پر لاگو کیے گئے تھے۔ اگرچہ یہ بھید اب کھل چکے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی تیز رفتار سماعت کے پس پردہ عوامل کیا تھے ۔ آج یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ جو برق رفتاری سیاسی شخصیات کے مقدمات کے حوالے سے اپنائی جاتی ہے، کیا عام سائل کے انصاف کے لیے بھی انہی تقاضوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے؟ اِس کشمکش میں سارا نقصان ملکی اداروں کا ہوا ہے۔ آج سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ببانگِ دہل کہا جا رہا ہے کہ عدالت کا فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ فلاں بینچ ناقابل قبول ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وفاقی کابینہ یہ کہہ رہی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ قابلِ قبول نہیں‘ اسے مسترد کرتے ہیں۔ ایسے بیانات کی طویل فہرست میں تازہ ترین اضافہ میاں نواز شریف کا بیان ہے۔ موصوف کی طرف سے قرار دیا گیا کہ انتخابات چونکہ قومی معاملہ ہے لہٰذا اِس پر فل کورٹ بنایا جائے ورنہ تین رکنی بینچ کا فیصلہ قبول نہیں۔ میاں نواز شریف کو یہ صورتحال 2017ء کا ایکشن ری پلے دکھائی دے رہی ہے جب اُنہیں پاناما کیس میں نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے یہ کہہ کر قوم کی سانسیں خشک کر دی ہیں کہ اگر کوئی غلط فیصلہ آیا تو پھر ڈالر 500 روپے کا بھی ہو سکتا ہے۔ اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب کچھ عمران خان کی خاطر کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف وہ سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس لینے کے اختیار پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں مگر ساتھ ہی اس بات پر حیرت کا اظہارکیا جا رہا ہے کہ جو کچھ باجوہ صاحب کہہ رہے ہیں‘ اس پر سوموٹو نہیں لیا جا رہا ہے۔ ویسے سوال تو اُن سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ آج اُن کے برادرِ خورد وزیراعظم ہیں‘ وہ کیوں باجوہ صاحب کی باتوں پر ایکشن نہیں لیتے؟ وہی بات کہ بندوق ہمیشہ دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر چلائی جاتی ہے۔ منشا یہی ہے کہ سبھی ادارے نہ صرف سیاسی رہنماؤں کی منشا کے مطابق چلیں بلکہ فیصلے بھی اُن کی خواہشات کے مطابق ہی کریں ورنہ ان کے خلاف ایسے ہی مہم چلائی جائے گی جیسے اب چلائی جا رہی ہے۔
عدلیہ کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار میاں نواز شریف کی طرف سے سامنے آیا ہے، ویسے ہی خیالات کا اظہار عمران خان اور دیگر کی طرف سے بھی سننے میں آتا رہا ہے۔ایسے 'شاندار‘ خیالات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تسلسل سے دہرائی جاتی ہے کہ ہم عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ 1997ء میں عدالت عظمیٰ میں سیاسی قیادت نے جوکچھ کیا‘ وہ بے شمار یادداشتوں میں آج بھی محفوظ ہے۔یہ وہ وقت تھا جب وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہینِ عدالت کے ایک مقدمہ کی سماعت ہورہی تھی۔ قریب تھاکہ فیصلہ ان کے خلاف سنایا جاتا‘ اچانک بے شمار افراد نے عدالت پر ہلہ بول دیا اور مخصوص ججز کے خلاف نعرے بازی شروع کردی ۔ اِس کے ساتھ ہی عدالت برخاست کردی گئی اور جج صاحبان نے ریٹائرنگ روم میں پناہ لے لی۔آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ چیف جسٹس صاحب کمرۂ عدالت میں آبدیدہ ہو گئے۔ عدلیہ کا وقار داؤ پر لگتا ہوا دکھائی دے رہا ہے‘ اِس کے کردار پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں‘ حکومت کی جانب سے کھلے عام عدالتی فیصلوں کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ یقینا ان حالات میں خود عدلیہ کو بھی سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ صورت حال اِس نہج تک کیوں پہنچی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں