"FBC" (space) message & send to 7575

قدرت سے چھیڑ چھاڑ

55ہزار 670مربع کلومیٹر رقبے پر محیط بھارتی ریاست ہماچل پردیش کبھی پنجاب کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ 1947ء کے بعد اسے پنجاب سے الگ کرکے ایک علیحدہ ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ منالی سمیت اس ریاست میں بھارت کے کئی ایک مشہور ترین تفریحی مقامات واقع ہیں جہاں ہرسال بے شمار سیاح سیروتفریح کے لیے آتے ہیں۔ یہ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ اپنے فطری حسن اور قدرتی نظاروں کے باعث دنیا میں بھی شہرت رکھتی ہے۔ عام دنوں میں اس ریاست میں ہروقت ہی ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد گھومتی پھرتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے لیکن ان دنوں یہاں صورتحال انتہائی خوفناک ہے۔ یہاں ہونے والی طوفانی بارشوں اور پھر اس کے نتیجے میں دریاؤں اور ندی نالوں کے بپھرنے کے باعث ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ابتدائی طور پر تیس سے چالیس ارب روپے اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ کے نقصانات کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ سینکڑوں شاہراہوں کو شدید نقصان پہنچا ہے تو کم از کم پانچ ہزار کلومیٹر بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں نیست و نابود ہو گئی ہیں۔ ایک ہزار سے زائد پانی کے پائپ پھٹ چکے ہیں۔ ریاست میں بتیس سے پینتیس مقامات پر شدید لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوئی جسکے نتیجے میں صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے اور ہماچل پردیش سمیت شمالی بھارت میں بارشوں اور سیلاب کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سو سے زائد ہو چکی ہے۔ ریاست میں کم از کم ساٹھ گھنٹوں تک مسلسل موسلا دھار بارشیں ہوئیں جن کے نتیجے میں دریائے ستلج‘ بیاس‘ چناب اور جمنا میں شدید طغیانی آگئی۔ دریاؤں میں اتنا زیادہ پانی آنے کے بعد بھارت نے دریائے ستلج میں فیروز پورہیڈ ورکس اور ہریکے ہیڈ ورکس سے پانی پاکستان کی طرف چھوڑا دیا۔ دریائے راوی میں بھی بھارت نے اُجھ بیراج سے ایک لاکھ پچاسی ہزار کیوسک پانی کا ریلا چھوڑا۔ اتنے بڑے ریلے کا صرف 65ہزار کیوسک پانی ہی پاکستان تک پہنچ سکا باقی دوسری طرف ہی تباہی مچاتا رہا۔
ذہن میں ہونا چاہیے کہ 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائے راوی کے پورے پانی پر بھارت کا حق ہے۔ اب یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ چاہے اس دریا میں پانی کا ایک بھی قطرہ نہ آنے دے۔ اسی طرح دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے پانی پر بھی بھارت کا حق ہے۔ سندھ طاس معاہدے میں ان تینوں دریاؤں کا پورا پانی بھارت کو دینے کے بعد ہم یہ شور کرتے رہتے ہیں کہ بھارت ان دریاؤں میں پانی نہیں چھوڑ رہا اور وہ ہمیں خشک سالی کے ذریعے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ لیکن اگر کبھی کبھار ان دریاؤں میں تھوڑا بہت پانی بھارت کی طرف سے چھوڑا جاتا ہے تو ہم سے سنبھالا نہیں جاتا۔ یہی صورت حال اب بھی دیکھنے میں آئی جب بھارت کی طرف سے دریائے ستلج اور راوی میں پانی چھوڑا گیا۔ بجائے اس کے کہ ہم خوش ہوتے کہ چلو دونوں دریاؤں میں پانی آنے سے ان دریاؤں سے گندگی صاف ہو جائے گی۔ پانی آنے سے آبی حیات کو قدرے سکھ کا سانس ملے گا۔ ہم نے آبی جارحیت کا شور مچانا شروع کر دیا۔ جبکہ اس وقت دریائے راوی کی صورتحال یہ ہے کہ اس میں صرف لاہور اور اس کے قرب و جوار سے روزانہ تقریباً چالیس کروڑ گیلن انتہائی آلودہ پانی پھینکا جا رہا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آلودہ پانی کی اتنی بڑی مقدار کیا ستم ڈھا رہی ہو گی۔ یقینا دریا میں آنے والے پانی سے اس گندگی کو صاف کرنے میں مدد ملے گی۔ یہی صورتحال دریائے ستلج کی بھی ہے۔ پاکستان کا یہ دوسرا سب سے بڑا دریا 14سو 46 کلومیٹر طوالت کا حامل ہے۔ یہ شاندار دریا اب سال کے بیشتر حصے کے دوران خشک ہی پڑا رہتا ہے کیوں کہ اس کا پانی بھارت استعمال کرتا ہے۔ دریائے بیاس کے پانی پر بھی ہمارے ہمسائے کا حق تسلیم کیا جا چکا ہے جو سرحد کے اس پار ہی دریائے ستلج میں مل جاتا ہے اور پاکستان کی سرحد میں صرف دریائے ستلج ہی داخل ہوتا ہے۔ بھارت کی طرف سے دریائے راوی اور ستلج میں پانی چھوڑے جانے کے باوجود یہاں کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن سرحد کے اس پار صورتحال انتہائی خوفناک ہے۔
بارشوں اور سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد وہاں بے شمار سوال اُٹھ رہے ہیں۔ کہنے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے دریائے بیاس میں آج تک اتنا پانی نہیں دیکھا جتنا پانی اس سال آیا اور اس نے ہرطرف تباہی مچا دی۔ بھارت کا مشہور ترین سیاحتی مقام منالی بھی دریائے بیاس کے کنارے ہی واقع ہے جو دریا میں سیلاب کے باعث بری طرح متاثر ہوا۔ دریا میں اتنا پانی آیا کہ وہاں کا ایک قدیم ترین مندر پنچ وکترا بھی پانی میں ڈوب گیا اور ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ لامحالہ اتنی تباہی کے بعد ایسے سوالات کا اٹھنا ایک فطری امر ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ اتنی زیادہ بارشیں ہوئیں اور دریاؤں میں شدید طغیانی آگئی۔ اس سوال کا ایک جواب تو یہ سامنے آرہا ہے کہ ریاست میں ہر جگہ بڑے پیمانے پر غیرمعیاری تعمیرات کی گئیں۔ ستم یہ بھی ہوا کہ بے شمار مقامات پر تعمیراتی فضلے کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا جو اب بارشوں کے ساتھ بہہ کر دریاؤں میں پہنچ رہا ہے۔ سیاحت کی مرکز اس پہاڑی ریاست نے بھی ترقی کے معاملے میں میدانی علاقوں کی تقلید کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں پہاڑوں کی مٹی بھربھری ہو گئی اور بھاری پتھروں نے اپنی جگہ چھوڑنا شروع کردی۔ بڑے پیمانے پر غیرسائنسی طریقے سے کان کنی کی گئی۔ ہائیڈروپاور پراجیکٹس کے لیے بڑے پیمانے پر سرنگیں کھودی گئیں۔ یہ سوال بہت شدومد کے ساتھ اٹھ رہا ہے کہ جب کلی‘ کنور اور ریاست کے کئی ایک حصوں میں یہ سرنگیں کھودی جارہی تھیں تو ان کے خلاف عوامی سطح پر شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ تب کسی نے اس احتجاج پر کان نہیں دھرا تھا اور آج تنائج سب کے سامنے ہیں۔اب بھارت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ریاست ہماچل پردیش کے ایک سو اٹھارہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹس میں سے 67پراجیکٹس لینڈ سلائیڈنگ زونز میں واقع ہیں جہاں کسی بھی وقت کوئی بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔
یہ قدرت سے چھیڑ چھاڑ کی صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ طویل عرصے سے یہ سن رہے ہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہورہا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو صورتحال خراب ہو جائے گی۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ حکومتی سطح پر اس حوالے سے کیا اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔ کبھی تو یہ بتایا جائے کہ حکومت نے موسمیاتی تغیروتبدل کے نقصانات کم کرنے کے لیے یہ‘ یہ اقدامات اٹھائے ہیں۔ کسی کو کوئی فکر نہیں ہے کہ آنے والے عرصے میں صورتحال کتنی خوفناک ہو سکتی ہے۔ ہم 2010ء اور 2022ء میں ایسی صورتحال دیکھ چکے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا اس وقت بھارتی ریاست ہماچل پردیش اور کسی حد تک ریاست پنجاب بھی کر رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے ماہرین کی طرف سے قرار دیا جاتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم قدرت سے کھلواڑ کریں اور وہ ہمیں بخش دے‘ بدقسمتی سے ہم لیکن صرف حال کے بارے میں ہی سوچتے ہیں۔ ہرطرف ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں ہی نظر آرہی ہیں۔ دریاؤں میں کچے کے علاقوں میں بے شمار تعمیرات دیکھی جا سکتی ہیں۔ زیادہ دور کیا جانا‘ یہ دریائے راوی میں کامران کی بارہ دری کے شاہدرہ والی سائیڈ پر دریا کے پاٹ کو مٹی ڈال کر پوری طرح سے بند کردیا گیا ہے اور وہاں فصلیں کاشت ہو چکی ہیں۔ اس طرح لاہور والی سائیڈ پر ہمیں وہ تعمیراتی ملبہ بہت بڑی مقدار میں نظر آتا ہے جو نئے پل کی تعمیر کے بعد وہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس ملبے کے باعث بھی دریا کا پاٹ انتہائی تنگ ہو چکا ہے۔ جب کوئی نقصان ہوگا تو پھر شوروغل ہونا شروع ہو جائے گا۔ ہم طویل عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کے حوالے سے رپورٹنگ کررہے ہیں‘ یقین کر لیجئے کہ ہمیں کہیں پر کچھ بھی ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ سوائے باتوں کے۔ اب تو یہ سوچ سوچ کر ہی دل دہلتا رہتا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں کس ماحول میں سانس لینے پر مجبور ہوں گی۔ آخر ہم ان کے لیے کیا چھوڑ کر جارہے ہیں۔ جھوٹ‘ فریب‘ اقتدار‘ پیسے کی ہوس اور خراب ماحول؟؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں