"FBC" (space) message & send to 7575

سستی بجلی کا لالی پاپ

تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو پی ڈی ایم کی حکومت ملک پر مسلط ہو گئی۔ ملک کی تقریباً تمام ہی نمایاں اور بڑی جماعتیں اس حکومت میں شامل تھیں لیکن اس حکومت کی کارکردگی یہ رہی کہ مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی۔ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی اس حکومت کا حصہ تھیں۔ یہ دونوں وہی جماعتیں ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں مہنگائی مارچ نکالے تھے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت رخصت ہو گئی تو ملک بچانے اور مہنگائی کم کرنے کا نعرہ لے کر پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت برسراقتدار آگئی۔ میاں شہباز شریف بڑی شان سے وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز ہو گئے لیکن عملاً کیا ہوا؟ عملاً یہ ہوا کہ شہباز شریف نے جب وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو اس وقت اداراۂ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 13.4فیصد تھی اور جب پی ڈی ایم حکومت رخصت ہوئی تو یہ شرح 28.3 فیصد ہو چکی تھی۔ پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی تو سٹیٹ بینک کے مطابق مجموعی طور پر زرِمبادلہ کے ذخائر 11ارب 42کروڑ ڈالر تھے جو حکومت کے پہلے ایک سال کے دوران کم ہو کر چار ارب 20کروڑ ڈالر رہ گئے۔ پی ڈی ایم حکومت کے پہلے ایک سال کے دوران شہری علاقوں میں غذائی اشیا کی قیمتیں 47فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 50فیصد تک بڑھ گئیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال آٹھ ماہ کے بعد اپریل 2022ء تک ایک امریکی ڈالر 189روپے تک پہنچ گیا تھا۔ گویا تحریک انصاف کے دور میں پاکستانی روپے کی قدر میں 67روپے یا 36فیصد کے لگ بھگ کمی ہوئی لیکن پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں اس سے بھی برا ہوا۔ پی ڈی ایم حکومت کے صرف ایک سال کے دوران روپیہ ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 97روپے گرکر 286 روپے تک جا پہنچا تھا۔ یہ سب کچھ اس حکومت کے دور میں ہوا جو ملک بچانے اور مہنگائی کم کرنے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی۔
ایک طرف تو یہ صورتحال رہی اور دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ کسی ایک بھی جماعت کے کسی ایک بھی رہنما نے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ کی۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں مہنگائی مارچ نکالنے والے مسلسل چپ سادھے رہے۔ اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف وزیراعظم بن چکے تھے یعنی (ن) لیگ کو حکومت میں بڑا حصہ مل گیا تھا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی اپنا حصہ لے اُڑی تھی تو پھر صدائے احتجاج بلند کرنے کی کوئی منطق ہی نہیں بچتی تھی۔ حکومت میں ان جماعتوں کے رہنما بھی شامل تھے جو اپنے اپنے صوبوں کی محرومی کا رونا روتی رہتی ہیں لیکن جب وہ حکومت کا حصہ بنیں تو سب مسائل ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ کبھی کبھی تو حیرانی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے کہ کیا وزارت کا نشہ اتنا زیادہ ہوتا ہے جو سب کچھ بھلا دیتا ہے؟ کیا وزارت انسان سے اس کے انسان ہونے کا حق بھی چھین لیتی ہے؟ ان سب نے سولہ ماہ کے دوران اپنے خلاف قائم مقدمات ختم کرائے۔ جی بھر کر وزارتوں سے لطف اُٹھایا اور پھر مجبوراً حکومت سے الگ ہوئے کیونکہ حکومت ہی ختم ہو گئی تھی۔ یہ ہے ہمارے سیاسی رہنماؤں کا اصل کردار۔ یہ سچ ہے کہ یہاں مقتدرہ کا کنٹرول بہت مضبوط ہے لیکن انسان کبھی کبھار تو اپنے ضمیر کی آواز سن ہی سکتا ہے۔ سولہ ماہ کے دوران حکومت میں شامل رہ کر سب نے مل کر حکومت کے مزے اُڑائے اور اب جب یہ انتخابی میدان میں آئے ہیں تو ایک دوسرے کے خلاف ایسے گفتگو کر رہے ہیں جیسے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں۔ یہ سب کچھ ووٹوں کے حصول کی خاطر ہو رہا ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ ایک دوسرے کی خامیوں کے بارے میں بات کریں۔ تب بلاول بھٹو زرداری‘ شریف برادران اور شریف برادران بلاول بھٹو زرداری کے گن گاتے سنائی دیتے تھے۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کے کا شور مچا کر آنے والوں نے نہ جانے جادو کی کیسی چھڑی ہلائی تھی کہ ان سب نے مل کر کیا بھی کچھ نہیں تھا اور اس کے باوجود ملک دیوالیہ ہونے سے بھی بچ گیا۔
آج یہ سب ایک مرتبہ پھر حکومت بنانے کیلئے انتخابی میدان میں نبرد آزما ہیں۔ اس چکر میں عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے جا رہے ہیں جن میں ایک وعدہ مخصوص حد تک مفت بجلی فراہم کرنے کا بھی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ وعدہ کرنے والی وہ جماعتیں ہیں جو پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ رہیں جس نے بجلی کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔ آج بلاول بھٹو زرداری کہہ رہے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ 300یونٹس تک بجلی مفت فراہم کریں گے۔ استحکامِ پاکستان پارٹی کی طرف سے بھی 300یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے کا اعلان سامنے آچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی طرف سے 200یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ سامنے آیا ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جس نے اپنے سابقہ دورِ حکومت میں آئی پی پیز سے مہنگے ترین معاہدے کرکے توانائی کے شعبے میں بربادی کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ آئی پی پیز کے ساتھ ایسے بودے معاہدے کیے گئے کہ جن کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ مطلب دنیا میں ہے کوئی ایسا شخص جو اُس چیز کی قیمت بھی ادا کرے جو اُس نے خریدی ہی نہیں ہوتی۔ لیکن پاکستانی شہری کپیسٹی پیمنٹ چارجز کی مد میں اُس بجلی کی قیمت بھی ادا کررہے ہیں جو اُنہوں نے خریدی ہوتی ہے نہ استعمال کی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیر سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے میں یہ شق بھی شامل تھی کہ کسی بھی پلانٹ سے چاہے کم بجلی ہی کیوں نہ خریدی جائے لیکن اُسے رقم اس پلانٹ کی پوری کپیسٹی کے مطابق ہی ادا کی جائے گی۔ (ن) لیگ نے آج تک ان بودی شرائط پر تو کوئی بات نہیں کی اور اب مفت بجلی فراہم کرنے کے وعدے کیے جارہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مختلف عوامل کی بنا پر ایسے کسی وعدے کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہے لیکن ہمارے سیاست دان جانتے ہیں کہ جب وہ اقتدار میں آجائیں گے تو پھر کس کی اتنی جرأت ہو گی کہ ان سے اس بابت سوال کر سکے۔ ہاں ماہرین کے مطابق دو صورتوں میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔ حکومت یا تو اپنے وسائل سے بجلی کمپنیوں کو پیسے دے کر لوگوں کو مفت بجلی فراہم کرے یا پھر کراس سبسڈی کے ذریعے‘ یعنی دوسرے شعبوں کیلئے بجلی کے قیمت زیادہ کرکے 300یونٹس والوں کو بجلی مفت فراہم کرے لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2700ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ایسی صورت میں 300یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو بجلی مفت فراہم کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر پھر بھی برسراقتدار آنے والی حکومت ایسا کرنے کا سوچتی ہے تو اسے اس مقصد کیلئے آٹھ ارب روپے سالانہ درکار ہوں گے جس کا انتظام مالی مشکلات کے پیش نظر اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ ان حالات میں اندازہ لگا لیں کہ اس انتخابی وعدے کی اصل حقیقت کیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آئی ایم ایف اس کی اجازت دے دے گا؟ ہرگز نہیں کیوں کہ وہ تو بجلی مزید مہنگی کرنے کی بات کر رہا ہے تو پھر بجلی سستی کرنے کا سوال کہاں باقی رہ جاتا ہے۔ دراصل ہمارے سیاستدان جانتے ہیں کہ اس وقت عوام سب سے زیادہ پریشان مہنگی بجلی سے ہیں‘ اس لیے انہوں نے عوام کی اسی رگ پر ہاتھ رکھ کر انہیں بے وقوف بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے سب اہم بات یہی ہے کہ آج عوامی فلاح و بہبود کے دعوے کرنے والی سبھی جماعتیں پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ رہ چکی ہیں‘ تب انہوں نے ایسا کچھ کیوں نہیں کیا کہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکتا۔ کچھ نہ کچھ تو ان کی جھولی میں ہونا چاہیے تھا جسے عوام کے سامنے پیش کیا جا سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں تب عوام سے کوئی غرض تھی نہ اب کوئی غرض ہے اور ہم عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں انہی میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا پڑتا ہے کہ آخر ہم فرشتہ صفت نمائندے کہاں سے لائیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں