اِنقلاب !

وطن ِ عزیز میں انقلاب اور تبدیلی کی تکراراِس تندہی سے جاری ہے کہ خدشہ ہے،یہ سطور قارئین تک پہنچنے سے پہلے انقلاب آہی نہ چکا ہو۔ لیکن اگر بوجوہ انقلاب میں کچھ تاخیر ہو تو اِس ضمن میںکچھ گزارشات پیش کروں گا۔ ہمارے لئے یہ بلا شبہ تکلیف دہ ہے کہ ریاست ستر برس کی ہوا چاہتی ہے اور حالات مسلسل ایک غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں۔ بہتری کی صورت ابھی تک نہیں بن پا رہی۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں ساٹھ ستر برس بہت زیادہ طویل عمر تصور نہیں ہوتے اِس لئے پریشانی کی بات نہیں ۔ بجا، لیکن اتنی مدت منزل کی سمت طے کرنے کے لئے تو کافی سمجھی جاتی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ بہرحال پریشان کُن ہے کہ آیا ہم نے اپنی قومی پالیسی کے سیاسی ،معاشی اور معاشرتی اہداف طے کر لئے اور اُن کے حصول کے لئے کیا جدوجہد کی جا رہی ہے؟ملک میں انقلابی سوچ کو space میسر ہو نے کی وجہ پاکستان کے معروضی حالات ہیں اور اِن حالات کی وجہ پالیسی کا فقدان اور ناقص حکمت ِ عملی ہے ۔
پاکستان تاریخ کے نہایت اہم موڑ پر کھڑا ہے۔تیزی سے بدلتی بین الاقوامی اور علاقائی صورت حال اور ریاست کو درپیش اندرونی مسائل کی وجہ سے دو طرح کی قوتیں سرگرمِ عمل دکھائی دیتی ہیں۔ ایک جو پاکستان کو عظیم مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں اور دوسری وہ جن کے مفادات ایک کمزور اور غیر متوازن پاکستانی ریاست سے وابستہ ہیں ۔ مخالف قوتوں کے مقابلے کے لئے یہ ضروری ہے کہ موافق یعنی وہ قوتیں جو پاکستان کے ا ستحکام کی خواہاں ہیںاپنی ترجیحات جتنا جلدی ممکن ہو طے کرلیں۔ تمام سیاسی اور مقتدر قوتوں کا اِس با ت پر اتفاق ہے کہ پاکستان کی تمام اندرونی اور بیرونی مشکلات کا حل ـ اِسی میں ہے کہ ترجیحات طے کی جائیں اور موجودہ نظام میں ہر سطح پر کچھ جامع تبدیلیا ں لائی جائیں، جو عام آدمی کے معاشی اور معاشرتی معاملات سے لے کر اداروں کے حدود و اختیارات تک ہر شعبے پر مرکوز ہوں اور پاکستان کوصیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنانے میں معمہ ثابت ہوں۔ پاکستان میں تبد یلی کا یہ تصور نیا سمجھا جا رہا ہے حالانکہ یہ political developmentکے نام سے ترقی یافتہ دُنیا میں عشروں سے رائج ہے۔ تمام سیاسی اور سماجی تنظیموں، سول سوسا ئٹی اور ادارے بشمول میڈیا تبدیلی کے ایجنڈے پر متفق ہیں لیکن اِس کے خدوخال مبہم۔۔۔کیونکہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا تبدیلی کے حصول کے لائحہ عمل کا زاویہ مختلف ہے اِسی لئے آج کل تبدیلی کو انقلاب کے ساتھ کنفیوز کیا جارہا ہے اور انقلابیوں کی یلغار مشکلات بھی پیدا کر رہی ہے ۔ 
اِس وقت پاکستانی منظر نامہ دو نظریاتی گروہوں میںتقسیم دکھائی دیتا ہے۔ ایک گروہ( اسٹیٹس کو) موجودہ نظام کو جاری رکھنے کا خواہش مند ہے اور دوسرا ( اینٹی اسٹیٹس کو ) موجودہ نظام میں معیشت،معاشرت اور گورننس کی مد میں غیر معمولی تبدیلیا ں لا نے کی جدوجہد میں مصروف ہے ۔ دونوں نظریاتی گروہ اپنے اپنے منشور میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ تبدیلی کو اِس وقت رائے عامہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اور کوئی بھی قوت خواہ وہ سیاسی، مذہبی یا سماجی ہو، وہ خود کو رائے عامہ سے نہ تو الگ رکھ سکتی ہے اور نہ اُس کے خلاف جا سکتی ہے۔جو قوتیں اسٹیٹس کو کی قوتوں کے طور پر سامنے ہیںوہ بتدریج تبدیلی کی بات کرتی ہیں اور جو اینٹی اسٹیٹس کو قوتیں ہیں وہ نظام میں فوری بڑی تبدیلیوں کی خواہاں ہیں۔ 
تبدیلی دو طریقوں سے ممکن ہو سکتی ہے۔ انقلابی عمل اور ارتقائی عمل...انقلاب لغوی معنوں میں ایک سخت گیر اصطلاح ہے اور بہت سارے ذمہ دار راہ نما یا افراد جب اِس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں تو اُن کا مطلب میرے خیال میں وہ نہیں ہوتا جو اِس اصطلاح کا درست مفہوم ہے۔وہ اِس اصطلاح کو اِستعمال کر کے اپنے موقف کو پُرزور انداز میں بیان کرنے کی سعی کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک قوت ،جماعت یا گروہ اگر آئین میں موجود کچھ شقوں پر عمل درآمد چاہتی ہے تو وہ حقیقت میں انقلاب نہیں بلکہ آئین میں پہلے سے دیے گئے طریقہ کار پر عمل درآمد کا ایشو ہے۔ انقلاب کے ضمن میں دانشوروں کی رائے مختلف ہے ۔ کچھ کا خیال ہے پاکستان کے معروضی حالات فوری طور اس لُغوی انقلا ب کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ انقلاب کے لئے چند بہت ضروری محرکات کا ہونا لازم ہو تا ہے جو کم از کم اِس وقت موجودنہیں ہیں اور اِس ضمن میں انقلابِ فرانس کی مثال دینا تاریخ کی سمجھ نہ ہونے کے باعث ہے۔ چند دانشور یہ خیال کرتے ہیں کہ پاکستانی مزاجاً انقلابی نہیں ہیں اِس لئے انقلاب یہاں ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔لیکن کچھ کی رائے ہے کہ یہ موقف بھی زیادہ مستند نہیں کہ انقلاب اپنے تمام جملہ عناصر کو خود متحرک کرتا ہے۔
تبدیلی کا دوسرا راستہ ارتقاء ہے۔ارتقاء مرحلہ وار نشوو نما اور بتدریج تبدیلی کا نام ہے۔مثبت تبدیلی مزاجاً ارتقائی ہوتی ہے اور یہ اجتماعی طور پر عمل پذیر ہوتی ہے۔ معاشرے میں بہت ساری تبدیلیاں بیک وقت ہو رہی ہوتی ہیں۔لوگوں کا سیاسی و سماجی شعور ، معاشرتی حقوق و فرائض کا ادراک ، قومی ذمہ داریوں کا احساس بہتری کی طرف جاتے ہوئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور یہی عوامل ریاستی اداروں کی تشکیل و تعمیرمیںاہم ہوتے ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ پا کستان میں تبدیلی آچکی ہے تو یہ بات ارتقاء کے تناظر میں ٹھیک ہے کہ کسی چیز کا ادراک اور شعور ہونا بھی ارتقائی عمل کا ایک اہم جزوہے اوراِس کے بعد مرحلہ وار ادارے اور افراد کچھ اُصول و ضوابط اور اخلاقیات کے تحت آجاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ میڈیا کو بے لگام سمجھتے ہیں اور یہ کسی حد تک دُرست بھی ہے لیکن رفتہ رفتہ شعور ،اُصول و ضوابط اوررفتہ رفتہ نمو پاتی اخلاقیات کے زیرِاثر ادارے اپنی مناسب حدود و قیود اور مقام پر واپس لوٹ جاتے ہیں۔اداروں کا مزاج اور افراد کے رویے بتدریج تشکیل پاتے ہیں۔یہ کسی انقلاب کی صورت میںبھی نقطہ ِ آغاز سے شروع ہوتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی حد تک انقلاب بھی آخرکار ارتقاء کے عمل کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔
تبدیلی اور انقلاب خوبصورت اصطلاحیں ہیں لیکن یہ راتوں رات ممکن نہیں ۔ دونوں کے لئے مخصوص حالات، حکمتِ عملی اور صبر آزما جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ تبدیلی کبھی سُرعت سے نہیں آئے گی اور اگر آئے گی تو اپنے اندر بہت سے سقم ساتھ لائے گی۔ اِس لئے ضروری ہے کہ معاشرے اور ریاست میں مثبت تبدیلی کے لئے سوچ رکھنے والے لوگ ادراک کریں اور اِس کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ ایک خاکہ ترتیب دے کر مسلسل جدوجہدکریںاور چونکہ تبدیلی کسی ایک خاص جماعت یا گروہ پہ مرکوز نہیں ہوتی اِس لئے معاشرے اور ریاست کے تمام عناصر کو ہر سطح پر افراد کو متحرک کرنا ہو گا۔ چونکہ تبدیلی کا تعلق افراد کے رویے کی تبدیلی سے بھی ہے اِس لئے اِس عمل کو بتدریج تکمیل پانا ہو گا۔ایک بات بہرحال طے ہے کہ مثبت اور پائیدار تبدیلی ایک ارتقائی عمل کے ذریعے سے آئے گی اور ارتقائی عمل اپنی کئی صورتوں میں ظہور پذیر ہے۔ اور انقلاب...ابھی تاخیر دکھائی دے رہی کہ خدوخال واضح نہیں اور ابہام زیادہ مسائل جنم دے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں