کیرن لی جان انٹرویو کے دوران مولانا سمیع الحق صاحب کی جانب سے متعدد بار بیٹی کہہ کرمخاطب کیے جانے پر حیران تھی ۔کیرن ایک فرانسیسی صحافی ہے‘ جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے رپورٹنگ شروع کی تھی اور اسی حوالے سے پاکستان آتی رہتی تھی۔میں نے بھی کراچی میں دوران صحافت کیرن لی جان کے ساتھ مختلف سٹوریز پر کام کیا اور کئی انٹرویو بھی کیے۔
2012ء میں جب کیرن پاکستان آئی‘ تو اس نے بتایا کہ اسے مولانا سمیع الحق صاحب کا انٹرویو کرنا ہے ۔ انٹرویو کے لیے وقت لینے کی کوششیں شروع کی گئیں ‘تو مولانا یوسف شاہ کی خصوصی دلچسپی کے باعث وقت مل گیا۔ فرانسیسی صحافی جو اپنے ذہن میں مولانا کے حوالے سے ایک سخت گیر شخصیت کا خاکہ بناچکی تھی ‘ ابتداء میں تو پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے گفتگو کرتی رہی ۔ مولانا صاحب نہایت شفقت اور نرمی سے تفصیلی جواب دیتے رہے۔ مولانا کے رویے کی نرمی دیکھ کر کیرن نے کھل کر سخت سوالات کرنے شروع کردئے ۔ کیرن لی‘ مولانا سمیع الحق اور دارالعلوم اکوڑہ خٹک کو جہادی نرسری ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگاتی رہی۔ اس فرانسیسی صحافی نے اپنے طور پر ہی افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار بھی دارالعلوم حقانیہ کو قرار دیدیا‘ تاہم مولانا سمیع الحق سخت ترین سوالوں کو بغور سنتے اور نرمی و شفقت بھرے لہجے میں اپنا موقف تفصیلی طور پر دیتے ۔ انہوں نے انٹرویو کے دوران افغان طالبان کو آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہد قرار دیا‘ جبکہ امریکی حملے کو جارحیت ثابت کرتے ہوئے افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلی ہونے کی وجہ سے تسلیم کرنے سے ذاتی طور پر انکار کیا۔ مدارس کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ مغرب منصوبہ بندی کے تحت مدارس کو بدنام کررہا ہے ۔ غیر ملکی صحافی نے گھما پھرا کر پاکستانی طالبان کے حوالے سے مولانا کے مؤقف کو مختلف انداز میں جانچنا چاہا ‘تو مولانا نے دو ٹوک الفاظ میں پاکستانی طالبان کے خودکش حملوں کو حرام اور ان کی سرگرمیوں کو غلط قرار دیا۔ دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے حوالے سے سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ اکوڑہ خٹک سے فارغ ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ پوری دنیا میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔
مولانا صاحب کے دستر خوان پر کھانا کھانے کے بعد جب ہم روانہ ہونے لگے‘ تو مولانا صاحب نے کیرن کو کچھ کتب دیں اور وقت نکال کر ان کتب کا مطالعہ کرنے کا کہا اور جواب میں کیرن نے وعدہ کیا کہ وہ ان کا مطالعہ ضرور کرے گی۔کراچی واپسی کے سفر کے دوران کیرن لی جان کا کہنا تھا کہ مولانا سمیع الحق کے حوالے سے اس کے ذہن میں عجیب و غریب خاکہ بنا ہوا تھا ۔ میرے پوچھنے پر اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں سمجھ رہی تھی کہ ہم کسی ایسے شخص ملیں گے ‘جو ہر وقت ہاتھ میں ہتھیار رکھتا ہوگا ‘ دس بارہ اس کے گارڈز ہوں گے اور مجھے بہت محتاط ہوکر ان سے سوالات کرنے ہوں گے‘ مگر یہاں تو معاملہ یکسر مختلف نکلا۔
دوسری ملاقات کا باعث بھی صحافتی ذمہ داریاں ہی رہیں۔ حالات حاضرہ کے ایک پروگرام کے لیے ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے پروگرام میزبان رحمان اظہر صاحب کی مشاورت سے مولانا صاحب کا انٹرویو کرنے کا فیصلہ ہوا اور اس حوالے سے مولانا مولانا سمیع الحق صاحب سے انٹرویو کے ٹائم کے حصول کی کوششیں شروع کیں‘ جو اس ملاقات کا سبب بنی ۔ عمرے پر روانگی کی وجہ سے انٹرویو کا وقت تو نہ مل سکا ؛البتہ وقت لینے کی کوشش میں غیر رسمی تفصیلی ملاقات ہوگئی۔
مولانا صاحب امریکہ کے سخت مخالف تھے اور خطے میں بدامنی کا ذمہ دار سمجھتے تھے‘ ان کا کہنا تھا؛ افغانستان کے بعد اس کا ہدف پاکستان ہوگا۔ مولانا صاحب ‘امریکہ کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے پشتو مثال دی‘ جس کا مطلب تھا کہ افغانستان میں امن کیلئے ''کنویں سے کتا نکالنا ہوگاـ‘‘۔وہ امریکی انخلاء کے بغیر افغانستان میں امن کوناممکن سمجھتے تھے۔مولانا صاحب‘ امریکہ -طالبان مذاکرات کے حوالے سے بھی شکوک شبہات کا شکار تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان‘ امریکہ کے ساتھ اعلانیہ اور دنیا کے سامنے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں‘ تاکہ اس عمل کے دوران جو بھی معاملات طے ہوں‘ اس سے دنیا آگاہ ہو‘ مگر امریکہ خفیہ مذاکرات پر زور دیتا ہے‘ تاکہ عالمی برادری امریکہ- طالبان کے درمیان مذاکرات کی جذئیات سے بے خبر رہے۔ اس سے امریکہ کی بدنیتی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ میں طالبان کو جانتا ہوں ‘وہ امریکی انخلاء کے علاوہ کسی بات پر اتفاق نہیں کریں گے ۔ان کے سخت مؤقف کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سفیر رچرڈ آسلون مذاکرات میںمعاونت طلب کرنے مولانا صاحب کے پاس آیا‘ جبکہ افغان سفیر اپنی حکومت کی جانب سے 6بار مولاناکے در پر حاضر ہوا‘ تاہم مولانا نے معاونت کرنے سے واضح انکار کردیا۔ مولانا صاحب سے گفتگو کے دوران جو دلچسپ انکشافات سامنے آئے ‘ان میں سے ایک یہ بھی تھا؛ دارالحدیث جامعہ حقانیہ کی تعمیر بے نظیر بھٹو نے کروائی تھی۔
مولانا صاحب نواز حکومت سے سخت نالاں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی اصل ذمہ دار نواز حکومت ہے‘ جس نے ہر موقع پر افغا ن طالبان کو دھوکہ دیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان‘ پاکستان بھی خود کو طالبان کہتے ہیں‘ مگر وہ طالبان نہیں ہیں ۔ میں صرف انہیں طالبان سمجھتا ہوں ‘جو افغانستان میں اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ افغان طالبان کی تقریباً تمام قیادت جس میں موجودہ امیر ہیبت اللہ‘ سراج خلیفہ‘سراج الدین حقانی‘ اور یونس خالدمیرے شاگرد رہے ہیں ۔ استاد شاگرد میں روحانی تعلق بہت مضبوط ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ میری بات سنتے ہیں‘ مگر ہم نے کبھی جہادی تربیت نہیں دی اور نہ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ دیا ہے۔ چین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ طالبان چین کو دوست سمجھتے ہیں‘ اس لیے امن مذاکرات چین کے بغیر ممکن نہیں ہوں گے۔پاکستان حکومت مجھ سے جب اور جس وقت کہے گی میں طالبان سے مذاکرات کروں گا۔مولانا سمیع الحق مذہبی جماعتوں کے کردار سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ ایم ایم اے کے دور کو ناکام تصور کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم ایم اے کے دور میں اسلام کی کوئی خدمت نہ ہوسکی ‘بلکہ مشرف کے غیر آئینی و غیر اسلامی اقدامات کی ایم ایم کی جانب سے حمایت کی گئی۔
مولانا صاحب کو اس بات کا دکھ تھا کہ موجودہ مذہبی قیادت اس جدوجہد سے آگاہ نہیں ہے۔ مولانا صاحب نے اس ساری جدوجہد کو تحریری طو رپر تاریخ کا حصہ بنانے کے لیے مولانا صاحب کی جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور حکومت میں اس جدوجہد پر 587صفحات پر مشتمل ایک کتاب'' فوجی پارلیمنٹ میں اسلام کی جدوجہد‘‘بھی اشاعت کے قریب ہے۔ مولانا اسرار امدنی صاحب کی جانب سے جمع و ترتیب کے بعد اس کتاب کا مسودہ مولانا صاحب نے اپنی شہادت سے تین روز قبل نظر ثانی کے لیے ایک خط کے ہمراہ راجہ ظفر الحق صاحب کو بھجوایا تھا۔ یہ خط مولانا صاحب کے دست راست سمجھے جانے والے مولانا اسرار مدنی صاحب نے شہادت سے تین روز قبل راجہ ظفر الحق صاحب کو بھجوایا تھا ۔
اس سوال پر بات کا اختتام کرتے ہیں کہ مولانا صاحب کی تعلیمات کو دہشت گردی کی تعلیمات اور دارالعلوم اکوڑہ خٹک کو جہاد کی نرسری کہنے والے صرف اتنا تصور کریں کہ اگر مولانا کی تدریس و تربیت میں دہشت گردی کی معمولی رمق بھی موجود ہوتی‘ تو ان کے بہیمانہ قتل کے بعد ان کے لاکھوں شاگردوں کا کیا ردعمل ہوتا؟