''میں لوگوں سے یہ کہتا ہوں کہ مجھ سے تب پوچھنا‘ جب آپ میری ٹیم دیکھو گے‘پاکستان کی بیسٹ ٹیم آپ کے سامنے لے کر آئوں گا‘ جو نیا پاکستان بنائے گی۔سارے بہترین لوگ میرٹ پر لے کر آئیں گے اور ان کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں کرسکے گا‘ اداروں کا سربراہ کوئی عام وزیر نہیں بلکہ قابل شخص ہوگا‘‘ وزیر اعظم عمران خان نے یہ الفاظ انتخابی مہم کے دوران ایک عوامی جلسے میں کہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب عوام کو سنہرے خواب دکھائے جارہے تھے اور ہر شہری اپنی سوچ کے مطابق ایک نئے پاکستان کا تصور قائم کرچکا تھا۔انتخابات ہوئے‘ حکومت بنی اور کپتان نے اپنے وزراء کی ٹیم کا اعلان کردیا ۔ اس ٹیم کا جس کے بارے میں کپتان کا کہنا تھا کہ انتہائی تعلیم یافتہ‘ باصلاحیت اور قابل لوگ ہیں اور ماضی کی حکومتوں سے بہت بہترین ٹیم ہے۔
کپتان کے اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے ؟اس کا اندازہ ٹیم کے اراکین کے الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے گئی اپنی تعلیمی دستاویزات سے لگایا جاسکتا ہے۔ موجودہ وفاقی کابینہ میں 18وزراء ایم اے یا اس کے مساوی اور 14وزراء بی اے کی اسناد رکھتے ہیں۔ وزارت خارجہ شاہ محمود قریشی کے پاس ہے‘ جن کی تعلیمی قابلیت بی اے ہے‘ جبکہ ماضی میں یہ وزارت خواجہ آصف کے پاس تھی‘ جو بی اے‘ ایل ایل بی تھے۔ وزارت داخلہ خودعمران خان کے پاس ہے‘ جو پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز ہیں‘ جبکہ سابقہ وزیر داخلہ چوہدری نثار ایم ایس سی تھی۔ وزیر دفاع پرویزخٹک بی اے جبکہ سابقہ وزیر خواجہ آصف بی اے ‘ ایل ایل بی تھے۔ موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر ایم بی اے اور سابق وزیر اسحاق ڈار بی کام (گولڈ میڈلسٹ)تھے‘ اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات بی اے کی سند رکھتے ہیں‘ جبکہ مریم اورنگزیب ایم ایس اکنامکس تھیں۔ وزیر ریلوے شیخ رشید اور سابقہ وزیر خواجہ سعد رفیق دونوں ایم اے ہیں۔موجودہ وزیر پیٹرولیم غلام سرور بی اے‘ جبکہ شاہد خاقان عباسی ایم ایس سی تھے۔ وزیر ٹیلی کمیونی کیشن خالد مقبول صدیقی ایم بی بی ایس ‘جبکہ سابقہ وزیر انوشہ رحمان ایم اے اور لاء ‘ یونیورسٹی کالج لندن کی اسناد رکھتی تھیں۔ وزارت انسانی حقوق کی ذمہ دار ڈاکٹر شیریں مزاری اس کابینہ کی سب سے قابل شخصیت ہیں ‘جو پی ایچ ڈی ہیں‘ جبکہ ماضی میں یہ وزارت کامران مائیکل کے پاس تھی‘ جن کی تعلیمی قابلیت بی اے تھی۔ ایل ایل بی کی سند رکھنے والے عامر محمود کیانی اس وقت وزیر صحت اور وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا بھی بی کام کی سندرکھتے ہیں۔ بی کام سے یاد آیا کہ خان صاحب ایک اور رکن اسمبلی علی زیدی ہیں ۔ علی زیدی صاحب نے جو الیکشن کمیشن کے پاس تعلیمی قابلیت کا اندراج کرایا ہے‘ وہ بی کام ہے‘ مگر زیدی صاحب نے فارم پر کرتے وقت '' بیچلر آف کامرس ‘‘لکھا ہے‘ البتہ بیچلر کے سپیلنگ جو زیدی صاحب نے درج کیے ہیں‘ وہ انگریزی لغت کے مطابق غلط ہیں۔ بدگمانی نہیں رکھنی چاہئے‘ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ شاید زیدی صاحب کا فارم کسی دوسری قابل شخصیت نے پر کیا ہو۔ یہاں تک تو معاملہ ایسا ہے کہ موجودہ کپتان گزشتہ کپتان سے بہتر ٹیم کا دعویٰ کم از کم تعلیمی قابلیت کے حوالے سے تو پورا نہیں کرسکے۔ اب اگر بات کی جائے ‘گورنرز کی تو سندھ کے لیے خان صاحب کی نظر جس انتہائی قابل شخصیت پر جا کر ٹھہری‘ وہ عمران اسماعیل تھے۔ عمران اسماعیل صاحب نے جو الیکشن کمیشن کے پاس اپنی تعلیمی قابلی ظاہر کی ہے‘ وہ انٹرمیڈیٹ‘ بی کام پارٹ ون ہے ۔ اس تعلیمی قابلیت کے مطابق تو سندھ کی جامعات کے چانسلرجناب عمران اسماعیل صاحب بی کام پارٹ ون کا امتحان دیں گے اور پھر بی کام پارٹ ٹو میں نمودار ہوں گے۔ اب ہمیں خان صاحب کی لانگ ٹرم پلاننگ کو سمجھنا چاہئے کہ گورنر صاحب جب بی کام پارٹ ون اور پارٹ ٹو کے امتحانات میں شرکت کریں گے‘ جامعہ جائیں گے‘ تو ایک تو وہ سمجھ جائیں گے کہ جامعہ کیا ہوتی ہے اور اس کے مسائل کیا ہیں؟ ایسے فیصلے صرف ایک کامیاب کپتان کی دوربین نگاہیں ہی کرسکتی ہیں‘ اسی طرح خان صاحب جوہر شناسی پنجاب کی گورنر شپ کے لیے جس شخص پر جاٹھہری وہ تھے‘ سابق سینیٹر چوہدری سرور تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سنیٹر رہنے کے باوجود یہ وہ واحد رکن ہیں‘ جن کی تعلیمی قابلیت کا سینٹ کی ویب سائٹ پر اندراج ''دستیاب نہیں ‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔ چوہدری صاحب سے حسد رکھنے والے پروپیگنڈہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چوہدری صاحب نے انتخابات میں بھی اسی لیے حصہ نہیں لیا کہ کہیں ان کی تعلیمی قابلیت پر حاسدوں کو ہارٹ اٹیک ہی نہ ہوجائے ۔ جہاں تک تعلق ہے‘ بلوچستان کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ امان اللہ خان اور کے پی کے شاہ فرمان صاحب کو تو جسٹس صاحب کے نام سے ہی ان کی تعلیمی قابلیت کا پتا چل جاتا ہے‘ جبکہ شاہ فرمان بی ایس سی ہیں۔
تعلیمی قابلیت کے ایسے کرتب صرف کپتان کے وزراء ‘ گورنرز ہی نہیں‘ بلکہ ٹیم کے ٹیل اینڈرز بھی دکھاتے ہیں ۔ اب ڈاکٹر عامر لیاقت کو ہی دیکھ لیجئے ‘ محترم اپنے نام کے ساتھ بیسویں صدی سے ہی ڈاکٹر استعمال کرتے ہیں‘ مگر بی اے اور ایم اے انہوں نے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے اختتام پر کیا۔ اب وفاقی اردو یونیورسٹی سے گریجویشن کیسے کی گئی؟ یہ ایک الگ داستان ہے‘ جس کی کہانی آئندہ پر رکھ لیتے ہیں‘ ورنہ تو کراچی کے اخبارات میں اس حوالے سے کافی مواد موجود ہے۔ کپتان کی جوہر شناسی کے اثرات ان کے ساتھیوں میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔ اب بزدار صاحب نے جو ٹیم بنائی اس پہ اعتراض کیسا کہ بزدار صاحب تو خود ابھی بننے کے مراحل میں ہیں ۔ پنجاب حکومت کے 3وزراء (وزیر ٹرانسپورٹ محمد جہانزیب خان‘ وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ممتاز احمد‘لیبر و ہی من ریسورس انصر مجید خان) انٹرمیڈیٹ ہیں‘ حافظ عمار یاسر کی تعلیم مذہبی ہے اور وہ ''حافظ قرآن‘‘ ہے ‘ پنجاب میں معدنیات کی وزارت سونپی گئی ہے‘ مگر کامیابی کا سہرا کے پی کے کے کمیونی کیشن اینڈ ورکس کے وزیر اکبر ایوب نے میٹرک کی سند کے ساتھ وزیر بن کر خیبرپختونخوا کے سربندھوا دیا ۔
بھان متی کا کنبہ جوڑا جائے‘ تو تعلیمی قابلیت کے حوالے سے وزارت دینے کا خواب چکنا چور اور دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ ماضی کی روایت کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے وفاقی وزارت صحت ایل ایل بی کی سند رکھنے والے عامر کیانی کو دی دے گئی‘ جبکہ ایم بی بی ایس کی سند رکھنے والے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو ٹیلی کمیونی کیشن اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو پروسیژنل کو آرڈینینشل کی وزارت سونپ دی گئی۔ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی سند رکھنے والی زرتاج گل کو موسمیاتی تبدیلی کا نگران بنا دیا گیا‘اسی طرح ایم اے انگلش کی سند رکھنے والی زبیدہ جلال دفاعی پیداوار اور ڈینٹل سرجری کی سند رکھنے والے شبیر علی ہاوسنگ اینڈ ورکس کی وزارت سنبھال رہے ہیں۔
تعلیم یافتہ‘ قابل ‘باصلاحیت ‘ بہترین جیسی صفات اپنی ٹیم کے لیے استعمال کرنا شاید وزیر اعظم عمران خان کا تکیہ کلام رہا ہو‘ مگر عوام یہ گمان کر بیٹھے تھے کہ شاید جو ٹیم خان صاحب چنے گے‘ ان میں یہ ساری خصوصیات موجود ہوں گی۔کپتان کی موجودہ ٹیم سابقہ کپتانوں کی ٹیموں سے تعلیمی حوالے سے بہتر تو قرار نہیں دی جاسکتی ؛البتہ تجربے میں واضح طور پر کم نظر آتی ہے۔ اب یہ ٹیم ڈیلیور کر سکے گی یا نہیں؟ اس کیلئے ہمیں حکومت چلنے کی صورت میں کچھ وقت تک انتظار کرنا ہوگا۔