بین الاقوامی الیکٹرانک میڈیا کی سکرینوں اورپرنٹ میڈیا کے سرورق پر پیلٹس سے چھلنی معصوم چہروں نے عالمی سطح پر کہرام مچا دیاتھا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ اٹھیں۔ بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والے ردعمل نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو بھی آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا۔ انسانیت سوز مظالم نے عالمی برادری کے سامنے بھارت کے چہرے سے سیکولر ریاست کا نقاب نوچ پھینکا۔ یہ تصاویر بھارتی تسلط‘ ظلم و جبر کے خلاف پر امن مظاہرے کرنے والے بچوں اور نوجوانوں کی تھیں‘ جن پر بھارتی فوج نے بین الاقوامی سطح پر پابندی والے ہتھیار پیلٹ گن کا استعمال کیا۔آزادی کی امید اور خوابوں سے روشن آنکھوں سے خوفزدہ بھارتی فوجیوں نے ان آنکھوں کی روشنی تو چھینی‘ مگر ان کے خواب نہ چھین سکے اور تحریک آزادی نے ایسا زور پکڑا کہ دنیا کو حیران کردیا۔
کشمیر میں جدوجہد آزادی کی تاریخ دو صدیاں پرانی ہے۔ کشمیر میں سکھ تسلط سے آزادی کے لیے شروع کی گئی جدوجہدآزادی 19ویں صدی میں ابھی جاری ہی تھی کہ انسانی حقوق کے علمبردار تاج برطانیہ نے سکھوں کو شکست دیکر کشمیر اور کشمیریوں کو گلاب سنگھ کے ہاتھوں 75لاکھ میں فروخت کردیاتو کشمیروں نے ڈوگراراج کے خلاف تحریک جاری رکھی۔ 1931ء میںتحریک کو ریاستی قوت سے کچلنے کی کوشش میں ہزاروں کشمیروں کو شہید کردیا گیا‘ جس پر گلینسی کمیشن بنایا گیا‘ جس نے اپنی رپورٹ میں مسلم کشمیریوں پر مظالم کا اعتراف اور انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے جانے کا اعتراف کیا۔ 26 اکتوبر 1947ء کی رات مہاراجہ کشمیر نے رات کی تاریکی میں بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا اور اگلے ہی روز بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی۔ 27 اکتوبر کوجنرل ڈگلس گریسی نے بھارتی فوج کا کشمیر میں مقابلہ کرنے کا اپنے گورنرجنرل قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا‘ جس پر کشمیری عوام اور قبائلیوں نے کشمیر کے بقاء کی جنگ لڑی ۔ بھارت اقوام متحدہ میں بار بار کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کا وعدہ کرکے مکرتا رہا۔ فروری 1975ء میں شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا‘ جسے کشمیری سیاہ معاہدے کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کے خون کا سودا کرکے وزیراعلیٰ کا عہدہ قبول کرلیا ۔
کشمیریوں کی تحریک آزادی میں کئی موڑ اور نشیب و فراز آئے‘ مگر تحریک بدستور جاری رہی۔-90 1987ء کے دوران تحریک آزادی کشمیر شدت اختیار کرگئی اور کشمیریوں نے اپنے خون سے تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔ ظلم و درندگی کی ایسے مناظر سامنے آئے ‘جس نے بھارت کو سبکی اٹھانے پر مجبور کردیا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس کے مطابق‘ جنوری 1989ء سے جنوری 2019ء تک 95983افراد کو شہید کیا گیا‘ جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ 7120کشمیری نوجوانوں کو بھارتی فوج کے عقوبت خانوں میں تشدد سے شہید کیا گیا۔بھارتی فوج نے 22ہزار 898خواتین کو بیوہ اور ایک لاکھ 7ہزار 756 بچوں کو یتیم کردیا ہے۔بھارتی فوج نے 11ہزار 111 کشمیری لڑکیوں کو اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنایا ‘جبکہ انفرادی سطح پر آبروریزی کے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے واقعات بھی ہیں ‘جو رپورٹ نہیں ہوسکے۔ ایک لاکھ 9ہزار 207 کشمیریوں کی گھر بار بارود سے اڑا دئیے گئے۔
بھارتی فوج کے ظلم و جبر کے یہ خوفناک ہتھکنڈے بھی کشمیریوں کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ پیدا کرسکے۔ جون 2010ء میں تحریک آزادی کو نویں کلاس کے طالبعلم کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت نے مزید گرما دیا۔ بھارت مخالف مظاہروں کے خلاف سکول کے بچے بھی سڑکوں پر نکل آئے ۔ اس تحریک میں نئی روح جولائی 2016 ء میں کشمیریوں کے دل کی دھڑکن بن جانے والے مجاہد برہان وانی کی شہادت نے پھونک دی۔ برہان وانی نے تحریک میں ایسا جوالا مکھی بھر دیا کہ بھارت عالمی سطح پر ذلیل و خوار ہوگیا۔ کشمیر کا ہر بچہ ‘ نوجوان اور جوان برہان وانی کی تصویر لئے سڑکوں پر موجود رہا۔ ان مناظر نے بھارتی فوج کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج پوری قوت سے کشمیریوں پر ٹوٹ پڑی اورگزشتہ اڑھائی سال کے دوران 755نوجوانوں کو شہیداور 25ہزار 265 کو تشدد کرکے معذور کردیا۔ لاکھوں کشمیریوں نے سڑکوں پر نکل کر عالمی برادری کو جھنجھوڑ دیا۔ بھارتی فوج نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیلٹ گن کا استعمال کیا‘ جس سے 8ہزار424افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں‘ جن میں بچے بھی شامل ہیں۔65ہزار880گھر تباہ کردیے گئے‘ جبکہ 19ہزار230کشمیریوں کو گرفتار کرکے لاپتا کردیا گیا۔ وادی کے مختلف علاقوں سے طلبا کے مظاہروں سمیت بڑے احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں‘ اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان کی حکومت کی جانب سے وادی میں سماجی رابطوں کی 22 ویب سائٹوں تک رسائی بند کردی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنوبی کشمیر کے مختلف شہروں اور گائوں کو ہندوستانی فوجیوں نے محاصرے میں لے کرگھر گھر تلاشیوں جیسے وحشیانہ اورننگے جبر کوہفتوں تک ان علاقوں کے عوام پر ایک قہر کے طور پر مسلط کیے رکھا۔ ان محصور علاقوں کے نوجوانوں‘ عوام اور خواتین کے اس محاصرے کے خلاف مسلسل احتجاجی مظاہروں اورفوج کے ساتھ تصادم کی خبریں بھی منظر عام پر آ تی رہی ہیں۔ محصور کئے گئے علاقوں میں وحشیانہ ریاستی جبر لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی بجائے ان کو زیادہ جرأت مندانہ مزاحمت میں ابھارنے کا باعث بن رہا ہے اور کشمیر میں جاری موجودہ سرکشی کی شدت اور طاقت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے۔عوام سڑکوں پر ہیں‘ شہداء کے جنازے بھارتی فوج پر خوف اور کشمیری عوام پر جنون طاری کردیتے ہیں ۔اب بھارتی فوج سے پرسرپیکار ہر مجاہد بھارتی فوج کے لیے خوف اور کشمیریوں کے لیے آئیڈیل بن چکا ہے۔
آج بھارتی درندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کسی مجاہد کا پاکستانی پرچم میں لپٹا جنازہ اٹھے تو کشمیری لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر ہندوستان کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کو 15 فروری کو یہ بیان دینا پڑا: ''مقامی لوگ عوام دوست فوجی کاروائیوں کے باوجود فوج کے ساتھ تعاون نہیں کرتے‘ جن مقامی لوگوں نے ہتھیار اٹھا لئے ہیں یا جو دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں‘ انہیں قوم کا دشمن تصور کیا جائے گااور سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
تحریک آزادی کشمیرکسی بیرونی امداد کے بغیر اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور بھارت کے تمام ہتھکنڈے ناکام ہوچکے ہیں۔ ہر نیا دن تحریک میں نئی آگ بھرتا ہے۔ کشمیریوں کے عزم و استقامت کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ اب کشمیر میں آزادی کاسورج جلد طلوع ہونے والا ہے۔( انشاء اللہ)