"FBC" (space) message & send to 7575

بہتان:عزت کش مہلک ہتھیار

تکلیف دہ امر یہ نہیں کہ اچھے‘قابل اور ملکی ترقی کیلئے ہردم مصروف رہنے والے افراد ہم سے رخصت ہوجاتے ہیں ‘بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ ایسے ہیروں کی ناقدری کی جاتی ہے‘ جن کا دہائیوں تک نعم البدل بھی میسر نہیں آتا ہے۔یہ خیال اس وقت ذہن میں آیا‘ جب واٹس اپ پر جامعہ کراچی کے مختلف اساتذہ کی جانب سے پیغام موصول ہوا کہ شیخ الجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل انتقال فرماگئے ۔ کافی دیر تک تو یقین ہی نہیں آیا ‘کیونکہ صرف ایک روز قبل‘ ان کے ایک قریبی دوست کے ذریعے ان سے جامعہ کراچی کے حوالے سے تفصیلی بات ہوئی تھی۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تعلیمی میدان میں ملک کا یہ قیمتی اثاثہ کل ‘ہمارے درمیان نہیں ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر اجمل‘ پاکستان کے معروف ترین تعلیمی ماہرین میں سے ایک تھے‘ جن کی قابلیت عالمی سطح پر تسلیم کی جاتی تھی۔ انہوں نے 1973ء میں جامعہ کراچی سے ہی نباتیات میں بی ایس آنرز اور اگلے ہی برس پلانٹ فزیالوجی میں ماسٹر کیا۔امریکہ کی اوہایو یونیورسٹی سے فزیالوجیکل ایکالوجی میں پی ایچ ڈی کی اورطویل عرصے تک جامعہ کراچی کے شعبہ نباتیات میں ذمہ داریاں اداکرتے رہے۔پاکستان میں پہلے انسٹی ٹیوٹ آف ہیلوفائیٹ یوٹیلائزیشن قائم کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے اور اسی ادارے کے ڈائریکٹر کے طور پرذمہ داریاں ادا کرتے‘ اسی عہدے پر ہی اپنی مدت ملازمت مکمل کی۔ ان کی خدمات کے بین الاقوامی اعتراف کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ قطر حکومت کے ڈیزرٹ ایری گیشن کے مشیر کے طور پر ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ وہ پاکستان واپس آئے اور 2017ء میں انہیں شیخ الجامعہ کراچی تعینات کردیا گیا۔ تعلیمی میدان میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی جانب سے انہیں ستارۂ امتیاز اور صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی کے ساتھ نمایاں پروفیسر اور نمایاں سائنسدان کے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ 
شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اجمل مرحوم‘ گزشتہ چند روز سے سخت ذہنی دبائو کا شکار تھے۔ ان کے دو اساتذہ پر طالبات کو ہراساں کیے جانے کے الزامات سامنے آئے تھے اور میڈیا کی جانب سے بلا تحقیق اس معاملہ کو اچھالا جارہا تھا۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے دو اساتذہ ان الزامات کا سامنا کررہے تھے ‘جبکہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے واضح طور پر اعلامیہ جاری کردیا گیا تھا کہ ایسے الزامات پر مبنی انہیں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے اور یہ خبریں صحافی برادری میں شامل کچھ کالی بھیڑیں‘ اپنے مخصوص مفادات کے لیے چلارہی ہیں۔ اس واضح موقف کے باوجود دونوں اساتذہ کے خلاف پروپیگنڈہ جاری تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جامعہ کے اساتذہ اس طرح کے الزامات کا سامناکررہے تھے اور میڈیا میں ان کی پگڑیاں اچھالی جارہی تھیں۔ گزشتہ سال ایک استاد حسن عباس کے خلاف بھی میڈیا میں ایسا ہی پروپیگنڈہ کیا گیا‘ جس پر ادارے کی جانب سے پیمرا سے رجوع کرلیا گیا تھا اور پیمرا نے رپورٹر کی خبر کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے تین لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا تھا ‘جبکہ مذکورہ نجی چینل کے ذمہ داران کو معافی بھی مانگنی پڑی تھی۔ ڈاکٹر اجمل صاحب نے اس وقت بھی اپنے استا د کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور اس بار بھی وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ کھڑے تھے‘ کیونکہ الزامات کا سامنا کرنے والے پروفیسرز‘ شیخ الجامعہ کے قابل اعتماد اساتذہ میں سے ہیں۔
مذکورہ پروفیسرز حضرات میں ایک نے جامعہ کراچی سے ہی شعبہ ابلاغ عامہ سے ماسٹر کیا اور پھر برطانیہ سے فلم اینڈ ٹی وی پروڈیکشن کی سند حاصل کی ۔ ڈاکٹر اسامہ شفیق برطانوی نشریاتی اداروں کی جانب سے ملازمت پیشکش ہونے کے باوجود پاکستان واپس آئے اور پاکستانی میڈیا کی جانب سے کی جانے والی پیشکشوں کو رد کرتے ہوئے جامعہ کراچی میں پڑھانے کو ترجیح دی۔ طالبات کو ہراساں کیے جانے کے حوالے سے ان پر لگنے والے الزامات نے ناصرف ان کے طالبعلموں کو ‘بلکہ ساتھی اساتذہ کو بھی پریشانی میں ڈال دیا ہے‘ جبکہ سبھی ان کے کردار کی گواہی دے رہے ہیں۔ 
مخصوص میڈیا ہائوسز کی جانب سے غیر تصدیق شدہ خبروں کے ذریعے اساتذہ پر بہتان باندھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو طویل ہوتا چلا گیا۔بغیر تحقیق خبروں کے رجحان نے جہاں صحافتی اقدار کا جنازہ نکالا ‘وہیں لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کے عمل نے میڈیا سے لوگوں کو بدظن کرنا شروع کردیا ہے ۔اس سارے منظر نامے کے پس پردہ حقائق یہ سامنے آئے کہ جامعہ کراچی کی امتحانات میں ناکام ہونے والے ایک طالبعلم کی جانب سے پرچوں میں پاس نہ کرنے پر اپنے اساتذہ کے خلاف طالبات کو ہراساں کرنے کا پروپیگنڈہ شروع کیا گیا تو شعبہ ابلاغ عامہ کی سربراہی کی جنگ میں مصروف اساتذہ اور اسی شعبہ میںلیکچر دینے کی اجازت نہ ملنے کے خواہشمند صحافی اس پروپیگنڈہ کا حصہ بن گئے ۔ شیخ الجامعہ مسلسل اس پروپیگنڈہ کے خلاف ہی بات کرتے پائے گئے اور جب تک حیات رہے‘ الزامات کا سامنا کرنے والے اپنے دونوں اساتذہ کے ساتھ کے موقف کو درست قرار دیتے رہے۔ باشعور عوام نے اپنے ہونے کا احساس دلایا اور جیسے ہی جامعہ کراچی کو بدنام کرنے کا معاملہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا‘ تو عوامی سطح سے بھی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ جامعہ کراچی کو بدنام کیے جانے کے دبائو کے دوران ہی شیخ الجامعہ کراچی کی اچانک موت پر عوامی ردعمل کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ (#MediakilledVCKU) ٹاپ ٹرینڈ رہااور ایک سوال مسلسل گردش کرتا رہا کہ شیخ الجامعہ کی اچانک موت کو طبعی قرار دیا جائے یا قتل؟اگر کسی بھی جگہ ایسے الزامات منظر عام پر آتے ہیں‘ تو ان کی مکمل تحقیقات کی جاتی ہیں اور اس کے بعد انتہائی احتیاط سے خبریں نشر کی جاتی ہے کہ یہ عزت و آبرو کی بات ہوتی ہے۔ فریقین کی زندگی بھر کی کمائی دائو پر ہوتی ہے‘ مگر صحافت اور چند صحافیوں نے ذاتی مفادات کی خاطر صحافتی اصول ہی پس پشت ڈال دیے۔تین دن تک دو نجی چینلز پر ریٹنگ کی ہوس میں وہ تماشہ لگایا گیا کہ الامان الحفیظ۔ 
اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اجمل جیسی شخصیت اپنی سربراہی میں چلنے والے ادارے کے حوالے سے پروپیگنڈہ برداشت نہ کرسکی ۔ چشم ِ تصور سے دیکھوں تو روح کانپ جاتی ہے کہ اپنی زندگی تعلیمی میدان میں مستقبل کے معماروں کیلئے وقف کردینے والی اس ہستی نے اپنے آخری ایام کس طرح گزارے ہوں گے؟ کہا جارہا ہے کہ انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ کیا دل کا دورہ بس ایسے ہی پڑ گیا۔ تین دن تک پروفیسر اجمل نے کتنی اذیت برداشت کی ہوگی؟ اس جامعہ کے تقدس کی خاطر لڑتے لڑتے جب ان کے ناتواں اعصاب شل ہوگئے ہوں گے‘ تووہ گرے ہوں گے۔ اپنی جامعہ کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا بوجھ ان کے سینے پر بہت بھاری ہوا اور خوداری کو پہنچنے والی ٹھیس نے ان کی سانسیں اکھاڑ دیںہوں گی۔ 
اب اگر تحقیق کے بغیر ہی اپنے طور پر کسی کو مجرم قرار دینے کی صحافتی روش پر گرفت نہ کی گئی تو معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ اور عدم توازن کا الزام قطعی طور پر عوام کو نہیں دیا جاسکے گا۔ اس کا ذمہ دار ہمارا صحافی طبقہ ہی ہوگا‘ جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں پر مشتمل ہے ۔
شیخ الجامعہ کے بعداس پروپیگنڈہ کا اگلا ہدف دیگر پروفیسرز بھی ہوسکتے ہیں‘جوابھی تو ہمت و حوصلے سے اپنے خلاف ہونیوالے پرپیگنڈے کا سامنا کررہے ہیں اور ان الزامات کیخلاف قانونی جنگ لڑنے اور پیمرا کے در پہ جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ میڈیا اداروں کو بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اس پروپیگنڈہ کا حصہ بننے کی بجائے ‘جامعہ کراچی میں اندرونی سطح پر تحقیقات مکمل ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں