"FBC" (space) message & send to 7575

ایوانِ صدر کی طوطا کہانی!

ہمارے حکمرانوں کے شوق ہمیشہ سے ہی نرالے رہے ہیں ۔ کچھ شوق تو ضبط تحریر میں لانا ممکن بھی نہیں ہیں‘ مگر ہم ذکر کرتے ہیں؛ ایسے حکمرانی مشاغل کا کہ جنہیں نوک ِقلم بیان کرسکتی ہے۔ جانور پالنا تو تمام حاکموں کا مشترکہ مشغلہ رہا اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ ایوانِ صدر کے درویواربھی مانوس ہوچکے ہیں۔اعلیٰ نسل کے گھوڑے‘ نسلی گائے وغیرہ کا تو ایوان ِصدر میں طویل عرصے بسیرا رہا۔ اب سنا ہے کہ ایوان ِصدر میں موجود چڑیا گھر میں بہت سے جانور تھے ‘مگر طوطا موجود نہیں تھا ‘پھر ''طوطا پالنا‘‘ ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں کہ یہ صلاحیت خدا بس ''فرشتہ صفت لوگوں‘‘ کو ہی عطا کرتا ہے۔ جانے کیا ہوا کہ اس بارشاید موجودہ صدر صاحب نے بھی ''طوطا پالنے‘‘ کی کوشش کی یا کم ازکم اخبار میں دیے گئے ٹینڈر سے تو یہی تاثر ملا ‘ مگر شاید انہوں نے کوئی بہت ہی ''اعلیٰ نسل کا طوطا‘‘حاصل کرلیا تھا کہ جس کے لیے 19لاکھ روپے سے زائد مالیت کی عالیشان رہائش قائم کرنے کیلئے ٹینڈر جاری کیا گیا تھا؛چونکہ صدر صاحب کا سیاسی کیرئیر زیادہ طویل نہیں‘ اس لیے شاید وہ اندازہ نہیں کرسکے کہ ''طوطا‘‘ جتنا بھی اعلیٰ نسب و نسل کا ہو ‘اس کی رہائش بس ایک عام سے پنجرہ ہی ہوتی ہے اور اس کی اہمیت بھی صرف اسی وقت تک باقی رہتی ہے ‘جب تک وہ رٹے رٹائے جملے بولتا رہے۔
خیر ہوا یہ کہ ایوان ِ صدر کے طوطے کی رہائش کے ٹینڈر کا اخبار میں شائع ہونا تھا کہ ہر طرف اس طوطے کا طوطی بولنے لگا۔ اس کی عالیشان رہائش گاہ کا تصور کرکے بجٹ کے بعد ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی عوام حسرت و یاس کی تصویر بنے سوچنے لگے ؛ کاش !کسی اعلیٰ ''طوطی گھرانے‘‘ میں جنم لیا ہوتا۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب اس لیے بھی ہیں کہ ان کی صدائے احتجاج ہمیشہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی ٹھہری ۔ ایوانِ صدر کے طوطے کی رہائش گاہ کا چرچا ایسا ہوا کہ سوشل میڈیا پر بھی ''طوطوں اور شیروں‘‘ میں جنگ چھڑ گئی ۔اس لڑائی میں طوطے اور شیر تو پرانے حریف ٹھہرے ‘مگر ہوا کے رخ پر اپنا رخ پھیر لینے والے پھدکنے بھی بہت پھدک رہے تھے‘ جس سے مجھے خدائے سخن میر تقی میر ؔیاد آگئے:؎ 
طوطا مینا تو ایک بابت ہے 
پودنا پھدکے تو قیامت ہے 
اس ساری دھماچوکڑی میں ہمیں تو بس یہی بات ستاتی رہی کہ اس طوطے کا کھوج لگایا جائے ‘جس کے لیے ایسی عالیشان خواب گاہ کا انتظام کیا جارہا ہے ۔ تجسس یہی تھا کہ ایوان ِ صدر کے طوطے میں کیا خصوصیت ہے‘ کیا یہ طوطا بہت اچھی فال نکالتا ہے اور حکومت اب فال کے ذریعے جانچنا چاہتی ہے کہ ڈالر کب نیچے جائے گا؟ عوام کو گرانی سے کب چھٹکارہ ملے گا؟ آئی ایم ایف کے سامنے کب تک سرنگوں رہنا پڑے گا یا پھر جیسے تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ مغلیہ حکمران محلاتی سازشوں سے باخبر رہنے کے لیے اعلیٰ نسل کے طوطوں کو بطور ِمخبر رکھا کرتے تھے ‘جبکہ مغل بادشاہ اپنے حرم میں بھی کنیزوں کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ رہنے کے لیے بھی طوطے ہی استعمال کرتے تھے ‘تو ہوسکتا ہے کہ صدر صاحب نے طوطے کی ان خصوصیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کی بلاول ہائوس یا جاتی امرا میں پوسٹنگ کرنی ہو۔ بچپن میں کہانیاں بہت پڑھی ہیں تو ان کے اثر سے کبھی کبھی یہ خیال ستانے لگتا کہ شاید صدر صاحب کے پاس جو طوطا ہے ‘اس میں کسی کی جان ہے۔ اس لیے اس کی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر اتنے اخراجات کیے جارہے ہیں‘ مگر ساتھ ہی یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے گردن بھی طوطے کی ہی مروڑی جاتی ہے۔
ہم جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو '' گوگل جیـ‘‘ کا سہارا لیا۔ پتا چلا کہ دنیا بھر میں طوطوں کی سوسے زائد اقسام پائی جاتی ہیں ۔ خوبصورت پیرہن کے حامل رنگ برنگے طوطے مختلف صلاحیتوںاور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ نقل اتارنے اور رٹے رٹائے جملوں کی ادائیگی میں کمال مہارت رکھتے ہیں ۔ اس لیے جانور پالنے کا شوق رکھنے والے ایسے ''طوطے ‘‘ بڑے شوق سے پالتے ہیں ‘جو ان کے جملے لفظ بہ لفظ دہراتے ہیں۔ یہ طوطے جب رٹے رٹائے جملوں کی ادائیگی میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں تو ایک تو ان کی ''قیمت‘‘ بڑھ جاتی ہے اور دوسرا انہیں عمومی طور پر بال وپر کاٹ کر بھی قفس آشنا بنایا جاتا ہے‘ جس کے بعد یہ اپنی حد میں رہتے ہوئے بس رٹا رٹایا سبق دہرانے کے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں۔ طوطوں کی یہ نسل کمیاب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مہنگی بھی ہوتی ہے ۔
طوطوں کی اکثریت جنگلوں میں پائی جاتی ہیں یا پھر پنجروں میں؛ البتہ بولنے والے طوطے اپنے پالنہاروں کے پاس ہی ملتے ہیں۔ طوطوں کی خصوصیات اتنی اعلیٰ و دلچسپ ہیں کہ اردو ادب میں بھی انہیں خاص مقام حاصل ہے۔ اردو ادب میں دو آنکھیں بہت مشہور ہیں ۔ ایک تو آہو چشم اور دوسری طوطا چشم۔ آہو چشم تو ہرن کی آنکھوں والے یا والی کو کہتے ہیں اور یہ مثبت صفت شمار ہوتی ہے؛البتہ طوطے کی آنکھیں گول ہوتی ہیں اور وہ انہیں گھماتا رہتا ہے ‘اسی لیے شاید اپنی بات سے پھر جانے والے یا اپنے دعوے سے یوٹرن لینے والے کو طوطا چشم کہا جاتا ہے اور نئے پاکستان میں تو اس طوطا چشمی کی داستانیں جا بجا بکھری پڑی ہیں ۔ یہ خصوصیت اکثر طوطے اپنے مالک کو بھی دکھا دیتے ہیں‘ مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے ۔ گوگل سے جب جی بھر گیا تو''طوطے کا ادب میں استعمال‘‘ دیکھنے کے لیے فرہنگ آصفیہ اور لغت کا سہارا لیا۔ لغت دیکھنے پر پتا چلا کہ '' طوطی پس آئینہ‘‘بھی اردو ادب میں کنایۃ ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ جو ''طوطے ‘ کو آئینہ کے سامنے بیٹھا کر سکھاتا ہے اور طوطا آئینہ میں اپنا عکس دیکھ کر اس شخص کی آواز کو اپنی آواز سمجھتا ہے اور پڑھایا جانے والا سبق ہر جا دُہرانا شروع کردیتا ہے ‘جبکہ ''طوطی پس آئینہ‘‘ ہمیشہ پس منظر میں ہی رہتا ہے‘ مگر بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ طوطے کو سکھانے والا یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے‘ بقول شیخ ابراہیم ذوق:؎
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
ابھی یہ سب چھان پھٹک جاری ہی تھی کہ اطلاع ملی کہ ایوان ِ صدر کے طوطے کی شاہانہ طرزِ رہائش پر پیدا ہونے والے عوامی ردعمل کو حکام برداشت نہیں کرسکے اور بالآخر اس کی رہائش کی تعمیر کا ٹینڈر منسوخ کردیا گیا ہے ۔ اطلاع ملتے ہی ہم نے بھی ساری کھوج ختم کردی اور گمان قائم کیا کہ شاید صدر صاحب کا طوطا پالنے کا ارادہ ہی نہ ہواور ان پرصرف ''طوطا پالنے‘‘ کا طوطیا باندھ دیا گیا ہو۔
ہمارے حکمرانوں کے کچھ شوق تو ضبط تحریر میں لانا ممکن بھی نہیں ہیں‘ مگر ہم ذکر کرتے ہیں؛ ایسے حکمرانی مشاغل کا کہ جنہیں نوکِ قلم بیان کرسکتی ہے 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں