"FBC" (space) message & send to 7575

بلوچستان میں بغاوت آخری دموں پر

بلوچستان میں سکیورٹی اداروں پر دہشت گردوں کے تازہ حملے دہشت گردوں میں نئی زندگی پھونکے جانے کی نوید نہیں ہیں بلکہ باخبر حلقے جانتے ہیں کہ یہ حملے بلوچستان میں دشمنوں کی جانب سے لگائی گئی آگ کا آخری شعلہ ہے۔ یہ 2017ء کی بات ہے کہ پاک ایران سرحد پر پروگرام کی ریکارڈنگ کیلئے بلوچستان جانا ہوا۔ اس وقت نسل پرست دہشت گردوں کی کارروائیوں میں خاصی حدتک کمی آچکی تھی البتہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی کارروائیاں وقفے وقفے سے ہوتی رہتی تھیں۔ جب اپنے میزبانوں کے ساتھ سرحد کی جانب روانہ ہوئے تو بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے ہونے والی بات چیت میں اندازہ ہوا کہ بلوچستان پر کئی ممالک نظریں گاڑے ہوئے ہیں اور یہاں امن و امان انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ایک جانب گوادر پورٹ کی ترقی پر اپنے اور پرائے ناراض ہیں تو دوسری جانب پاک چین اقتصادی راہداری بھارت سمیت دنیا کی کئی طاقتوں کو کھٹک رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے پرائے سب مل کر بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں‘ جسے اب تک قومی سلامتی کے اداروں نے انتہائی کامیابی سے ناکام بنایا ہے۔ 
بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک کلبھوشن جیسے کرداروں کے ہاتھوں سے تشکیل دیا گیا تھا جسے ہمارے سکیورٹی اداروں نے کامیابی سے ختم کیا ہے۔ دہشت گردی کے اس نیٹ ورک میں پہلا جنم بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) کاتھا۔2000ء میں بھارت کی شہ پر بی ایل اے نے دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا ۔ سکیورٹی اداروں‘ عام شہریوں اور خاص طور پر اساتذہ کرام کو نشانہ بنایا گیا۔ 2003ء اور 2005ء میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں کی گئیں مگر وفاقی حکومت بلوچستان حکومت میں شامل قبائلی عمائدین کے ذریعے دہشت گردوں کو راہ راست کا موقع دینا چاہ رہی تھی جس کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی تھی۔ جب یہ کوششیں ناکام ہوئیں تو سکیورٹی اداروں نے 2006ء میں آپریشن کرکے بی ایل اے کی لیڈر شپ ختم کردی ۔ ستمبر 2008ء میں بی ایل اے نے فائر بندی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ پڑوسی ممالک کو یہ امن اپنی موت محسوس ہوا ‘انہوں نے ایک بار پھر دہشت گردوں کو منظم کرنا شروع کیا اور اس بار حملہ اساتذہ پر کرایا گیا ۔ 22اپریل 2008ء کو بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر صفدر علی کیانی‘ 27اپریل 2010ء کو بلوچستان یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر ناظمہ طالب اور 26مئی 2012ء کو فاران کالج کے پرنسپل مظفر حسین جمالی کو قتل کیا گیا جس کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی۔ ان کارروائیوں کے بدلے میں 'را‘ کی جانب سے دہشت گردوں کو اسلحہ‘گولہ بارود‘ اور مالی معاونت فراہم کی جارہی تھی۔بڑے پیمانے پر دی جانے والی مالی معاونت نے بی ایل اے میں اندرونی اختلافات پیدا کردئے۔ 17جولائی 2017ء کو پہلی بار بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے اپنی پریس ریلیز میں اندرونی اختلافات کا اعترا ف اور بی ایل اے کے کمانڈر بشیر زیب بلوچ اور اسلم اچھو بلوچ کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا۔ بھارتی مالی امداد پر قبضہ جمانے کی اس جنگ کے دوران جنم لینے والے اندرونی اختلافات نے دہشت گردوں کو چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں تقسیم کردیا۔ بی ایل اے میں پہلے تو دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر دہشت گردی کی راہ اپنانے والے مختلف قبائل کے نوجوان شامل تھے‘ مگر جب بھارتی مالی امداد پر آپس میں اختلافات ہوئے تو دہشت گردوں کے گروپس بھی قبائلی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے ۔ مری قبائل سے تعلق رکھنے والے باغی بی ایل اے اور بی آر اے سنبھال رہے تھے توبگٹی قبائل سے متعلقہ عناصر بی آراے کو بھارتی امداد کا زیادہ حقدار سمجھ رہے تھے۔ اسی طرح لشکر بلوچستان میں خود ساختہ طور پر گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں پر جانے والے مینگل قبائل کے افراد شامل تھے اور وہ خود کو بھارتی امداد کا زیادہ حقدار گردانتے تھے۔ ان دہشت گرد گروپوں کے درمیان بھارتی امداد پر قبضے کے لیے جھڑپیں شروع ہوئیں اور اس میں تینوں گروپس کے درجنوں افراد مارے گئے۔ 2017ء سے ستمبر 2019ء تک یہ گروپس آپسی لڑائی میں مصروف رہے اور ان کی لڑائی صرف بلوچستان کے اندر ہی نہیں تھی بلکہ پڑوسی ممالک میں بھی یہ گروپس ایک دوسرے پر حملے کررہے تھے۔ 24جولائی 2018ء کو بی ایل اے نے قندھار میں بلوچستان کے دہشت گردوں کے لیے قائم کیے گئے تربیتی مرکز پر اپنے مخالفین اسلم اچھو بلوچ اور کمانڈر بشیر زیب بلوچ کے گروپ پر حملہ کرکے 8لوگوں کو قتل کر دیا تھا جس میں بی ایل اے سے نکالے گئے لوگ شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک گروپ بلوچ لبریشن فرنٹ کے نام سے دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے جس کا بنیادی مقصد پیسہ کمانا ہے جو اس گروپ کو پیسے دے گا اس کے ہدف کی تکمیل کے لیے یہ گروپ کام کرتا ہے ۔براس (بی آر اے ایس) اپنے آقائوں کے کہنے پر براہ راست پاکستان میں چینی اہداف کو نشانہ بناتا ہے۔ دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو استعمال کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں سکیورٹی اداروں کے ساتھ قلات میں ہونے والی کارروائی میں بی ایل اے کے کئی دہشت گرد مارے گئے جس کے بعد بی ایل اے نے قائد اعظم یونیورسٹی کے دو طالبعلموں اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اراکین شہداد بلوچ اور احسان بلوچ کو اپنے شہید قرار دے کر ان کی اسلحہ اٹھائے ہوئے تصاویر اپنی ویب سائٹ پر جاری کیں‘مگر ہمارا لبرل طبقہ انہیں شہید قرار دیتے ہوئے سرکاری اداروں پر کیچڑ اچھال رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اب جب پاکستان نے ایران کے ساتھ950کلومیٹر سرحدی علاقے پر فینسنگ لگانی شروع کردی ہے اور215 سرحدی قلعے تعمیر کیے جارہے ہیں تو دہشت گرد گروپوں کو اپنی موت سامنے نظر آرہی ہے۔ دالبدین کے ساتھ 230کلومیٹر تک فینسنگ لگادی گئی ہے جبکہ موسیٰ نوارہ سے روات تک 80فیصد فینسنگ لگائی جاچکی ہے۔ پاک ایران سرحد پر قلعوں کی تعمیر اور فینسنگ مکمل ہونے کے بعد جہاں ایک جانب شرپسند عناصر اور دہشت گردوں کی سرحد پار سرگرمیوں میں کمی آئے گی وہیں ایرانی پٹرول اور دیگر اشیا کی سمگلنگ کا بھی خاتمہ ہوگا۔ سکیورٹی فورسز کے پاک ایران سرحد اور افغان سرحد پر کیے جانے والے اقدامات کے بعد توقع ہے کہ دہشت گردوں کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے گی‘ جس سے ان دہشت گرد تنظیموں کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ البتہ ملک کے تعلیمی اداروں میں نسلی بنیادوں پر بنائی جانے والی تنظیموں پر خصوصی طور پر نگرانی کی ضرورت ہے ‘جو ایسی دہشت گرد تنظیموں کو ایندھن فراہم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ ملک کی بڑی جامعات میں ان تنظیموں اور ان کے حمامیوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ اس کے بغیر دہشت گردوں کا خاتمہ محض خواب ہی ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں