"FBC" (space) message & send to 7575

بھارتی شرا نگیزی اور جھیل پینگانگ

نیلگوں جھیل اور آسمانوں کو چھوتے بلندوبالا پہاڑوں کے پس منظر کے ساتھ کرینہ کپور لال ہیلمٹ پہنے ‘چمکتی ریت پر سکوٹی چلاتے عامر خان کی جانب آتی ہے تو عامر خان جس کے لاشعور میں یہ منظر محفوظ ہوتا ہے وہ اسے خواب سمجھتا ہے اور پھر کرینہ کپور کا تھپڑ اسے ہوش میں لے آتا ہے۔ یہ بھارتی فلم تھری ایڈیٹ کا آخری سین ہے جو لداخ کی بلندوبالا پہاڑیوں کے درمیان واقع 125کلومیٹر رقبے پر پھیلی انتہائی خوبصورت جھیل پینگانگ پر فلمایا گیا تھا۔پینگانگ لداخی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب وسیع کشش ہے اور یہ جھیل چین اور بھارت کے درمیان Line of Acutal Controlکے متنازعہ حصے پر 14ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ایل اے سی ‘ جو چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ ہے‘ اس پر بھارت 3488جبکہ چین 2000کلومیٹر حصے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس متنازعہ سرحدی حصے کا زیادہ تر حصہ خشک بنجر پتھریلی زمین پر مشتمل ہے البتہ کچھ حصہ اس خوبصورت جھیل سے گزرتا ہے۔ اس جھیل کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 1962ء کی جنگ کا آغاز بھی اسی مقام سے ہوا تھا۔ بھارتی فلم تھری ایڈیٹ کے اس جھیل پر فلمائے گئے سین کے بعد بھارت کی جانب سے اس جھیل پر سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بڑی انوسٹمنٹ کی گئی اور سیاحوں کو اس جھیل کی جانب راغب کرنے کے لیے فلمی اداکاروں کی تصاویر ‘ ان کے ناموں سے مختلف ریسٹورنٹس ‘ ان کے زیر استعمال اشیا کی تصاویر اور اداکاروں کے مجسمے تک لگائے گئے۔ سیاح تو ویسے ہی خوبصورت مناظر کے دلدادہ ہوتے ہیں سو وہ اس جانب بھی کھنچے چلے آرہے تھے اور 2009ء میں اس فلم کی ریلیز کے وقت اس جھیل پر آنے و الے سیاحوں کی تعداد جو چارلاکھ تھی‘ دس سال میں بڑھ کر 20لاکھ ہوگئی ۔ مگرپھر جنونی مودی آگیا ‘اور نتیجہ یہ نکلا کہ اب پینگانگ کو معروف سیاحتی مقام بنانے کا بھارتی خواب فی الحال تو چکنا چور ہوچکا ہے۔ اب نہ تو عامر خان کبھی اس مقام پر کرینہ کپور کا انتظار کرسکے گا اور نہ ہی بھارتی فلم انڈسٹری کا کوئی اور اداکار اس جگہ کا دورہ کرسکے گا۔یہ خوبصورت جھیل جس کے 25کلومیٹر کے مشرقی حصے پر بھارت قابض تھا جبکہ چین اس حصے کو اپنی ملکیت قرار دیتا تھا‘ چین نے حالیہ دو ماہ میں ایل اے سی کے جن حصوں سے بھارت کو پیچھے دھکیل کر قبضہ واپس لیا ہے اس میں جھیل کا چارکلومیٹر حصہ بھی شامل ہے۔ اس جھیل کا بہت کم حصہ ایسا ہے جو چھ کلومیٹر چوڑا ہے اور چین نے اسی حصہ پر قبضہ کرلیا ہے۔
چین بھارت کشیدگی کے حوالے سے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اگرچہ نریند ر مودی ذہنیت کے حامل لوگ خاصے محتاط ہیں اور بات چیت سے گریز کررہے ہیں مگر اس جھیل کے اہم حصے کے چھن جانے کا غم سوشل میڈیا پر گاہے بگاہے دیکھنے کو ملتا رہتا ہے ۔بھارتی دفاعی ماہرین اگرچہ جھیل کے اہم حصے کے چین کے قبضے میں چلے جانے کو محض افواہ قرار دیتے ہیں اور کبھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جھیل واپس لے لی گئی ہے۔ یہ دفاعی ماہرین جو سابقہ بھارتی فوجی ہیں ‘اس طرز کی ٹویٹس اور فیس بک سٹیٹس کے ذریعے عوام کو دلاسے دینے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں‘ مگرحقیقت میں ان کے اپنے چہرے ان کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہے ہوتے۔ آج جس صورتحال میں بھارت ہے ‘ اسے یہ دن ایسے ہی نہیں دیکھنے پڑے ‘بھارت کو اس صورتحال تک لانے میں بھارتی وزیر اعظم کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسے بھارت کی بدقسمتی کہہ لیں کہ انہیں حکمران کے طور پر جنگی جنون میں مبتلا نفسیاتی مریض نریندر مودی میسر آیا۔ نریندر مودی نے اپنے پہلے دور حکومت میں ہی اصل رنگ دکھانا شروع کیا اور بھارت میں اقلیتوں کے لیے زندگی مشکل بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بھی سرحدی کشیدگی کو ہوا دینی شروع کردی۔ اسی ہندوانتہاپسندی کو ہندتوا کے نام پر پروان چڑھا کر جب مودی دوبارہ حکومت میں آیا تو اپنے جنگی جنون کی تسکین کے لیے پاکستان‘بنگلہ دیش‘ نیپال ‘ بھوٹان اور چین سے بین الاقوامی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ پاکستان کے ساتھ فروری 2019ئمیں فضائی تصادم میں منہ کی کھانے کے بعد بھارت نے اپنا رخ چین کی جانب کیا تو یہاں اسے ایسی ذلت کا سامنا کرنا پڑا کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ چین نے بھارتی فوج کو سبق سکھاتے ہوئے نہ صرف اس کی اوقات میں رکھا بلکہ اسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے مزیدپیچھے دھکیلتے ہوئے 65 مربع کلومیٹر کا علاقہ قبضہ کرلیا۔ اس کا اعتراف بھارتی ماہرین اور صحافی بھی شرمندگی کے ساتھ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کے دوسرے دور میں جب من موہن سنگھ وزیر اعظم تھے تو اس وقت بھی بھارت نے چین سے سرحدی کشیدگی پیدا کی تو چین نے ایل اے سی کی بھارتی طرف کے 640مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا جس کا اعتراف سابق دفاعی سیکرٹری شیام سارن‘ جو اُس وقت بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزری بورڈ کا سربراہ تھا ‘نے حکومت کو بھجوائی گئی اپنی رپوٹ میں کیا تھا۔ اب ایک مرتبہ پھر بھارت نے چین کے ساتھ مسلسل جنگی صورتحال پیدا کی ہوئی ہے۔ بھارت کی ان حرکتوں پر چین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آرہا ہے جس کا موازنہ بھارتی اور چینی میڈیا کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ چین نے چارہزار کلومیٹر طویل ایل اے سی پر اپنی فوج تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ لداخ کے بلند ترین مقام پر فوجی مشقیں بھی شروع کررکھی تھیں جس پر بھارت اب احتجاج کررہا ہے اور عالمی دنیا کو چین پر دبائو ڈالنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ دو روز قبل بھارتی میڈیا نے خبر دی کہ بھارت اور چین میں تنازعہ طے پا گیا ہے‘ مگر جس وقت کالم لکھا جارہا ہے تو اطلاعات آرہی ہیں کہ چین نے لداخ کے بعد ہماچل پردیش‘ اتراکھنڈ‘ سکم اور ارنچل پردیش کی سرحد کے ساتھ بھی بڑی پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کردیں ہیں۔
لداخ میں چین کے ہاتھوں مسلسل ذلت آمیز شکست کے بعد بھارت عالمی سطح پر اپنی عسکری ساکھ کی بحالی اور اپنے عوام کے گرتے مورال کو بحال رکھنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ننگی جارحیت دکھانا شروع ہوگیا ہے۔ صرف شوپیاں میں 36 گھنٹوں کے دوران 16نوجوانوں کو شہید کردیا گیا جن میں سے چارنوجوان ایسے تھے جنہیں ان کے گھروں سے پہلے اغوا کیا گیا اور پھر مسلح مزاحمت کار ظاہر کرکے جعلی مقابلوں میں شہید کردیا گیا‘ یعنی چین کے ہاتھوں شکست کا بدلہ کشمیری نوجوانوں سے لیا جارہا ہے۔دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے تازہ خون ریزی نے عالمی سطح پر مسلم ممالک میں بھی اسی حوالے سے بیداری پیدا کی ہے۔ اس کی تازہ مثال ترکی کی جانب سے کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر ایک نغمہ بنایا گیا ہے جسے دنیا بھر میں بہت پزیرائی حاصل ہوئی ہے اور اب اطلاعات ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہردلعزیز رہنما سید علی گیلانی جلد اہم اعلان کرنے جارہے ہیں جس کے دور رس اثرات ہوں گے۔دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں خون ریزی کے ساتھ ساتھ بھارت نے سرحدوں پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانی شروع کردی ہے ۔ پاکستانی حدودمیں واقع دیہاتوں پر گولہ باری اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ہے بڑھتا ہے جا رہا ہے جو بھارتی فرسٹریشن کو ظاہر کرتا ہے ۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اندرونی و بیرونی محاذوں پر شکست کے بعد بھارت اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے عالمی توجہ ہٹانے اور سرحدوں پر شکست سے دلبرداشتہ اپنے عوام کو دکھانے کیلئے لائن آف کنٹرول پر کوئی مذموم حرکت کرسکتا ہے۔ 
موجودہ صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم بری طرح جھنجلائے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی ساکھ بحال رکھنے کے لیے کسی مہم جوئی کا خیال شدت سے ستا رہا ہے۔مودی صاحب میں اگرذرا بھی عقل ہوئی تو سمجھ سکتے ہیں کہ چین کے ساتھ مہم جوئی کی کوشش کا نتیجہ لداخ کی خوبصورت جھیل پینگانگ کے اہم حصے کو کھونے کی صورت میں سامنے آیا ہے تو پاکستان کے ساتھ کسی مہم جوئی کی قیمت شاید اس سے زیادہ ہو۔جنگیں صرف سازوسامان سے نہیں بلکہ جوش و جذبے سے لڑی جاتی ہیں اور اگر پاکستانی قوم کے جذبات کوجانچنا ہو تو بس اتنا دیکھ لینا کافی ہے کہ بھارت کے ساتھ معمولی کشیدگی بھی ہو تو پاکستانی قوم اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر ایک ہوجاتے ہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں