"FBC" (space) message & send to 7575

برین ڈرین اور حکومتی بے حسی

''کیا آپ لوگوں کو ادراک ہے کہ آپ کے ملک کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے؟ پاکستانی نوجوانوں کے پاس کوئی گائیڈ لائن نہیں ہے، وہ انتہائی مایوسی کا شکار ہیں اور کسی بھی حالت میں ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ میں تو حیران ہوں کہ کوئی بھی حکومت ان حالات سے بے خبر کیسے رہ سکتی ہے؟‘‘
ترک میڈیا سے تعلق رکھنے والی حدیجہ (ترکی زبان میں خ کی جگہ ح کا استعمال کیا جاتا ہے) پریشانی کے عالم میں انتہائی خلوص سے اپنے تاثرات بتا رہی تھی۔ حدیجہ کی میڈیا آرگنائزیشن نے پاکستانی نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کے لیے لاہور کے ایک ہوٹل میں جاب فیئر کا انعقاد کیا تھا۔ اس پروگرام میں حدیجہ اور اس کے گروپ کی ذمہ داری تھی کہ وہ پاکستانی نوجوانوں کے انٹرویوز کریں اور ملازمت کے لیے انہیں رہنمائی فراہم کریں۔ جب یہ عمل مکمل ہوا تو حدیجہ اور اس کی ٹیم حیران و پریشان تھی، جن نوجوانوں کے انہوں نے انٹرویوز کیے تھے‘ ان میں بڑی تعداد ڈاکٹرز سمیت ایسے ہنرمند افراد کی تھی جن کی ایک نشریاتی ادارے میں جگہ نہیں بنتی تھی۔ یہ افراد بضد تھے کہ انہیں کسی بھی شعبے میں ایڈجسٹ کرکے ہر صورت ترکی میں ملازمت کا موقع فراہم کیا جائے۔ حدیجہ حیران تھی کہ آخر پاکستانی نوجوان ملک کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں اور اس قدر بے تابی کیوں کہ اس مقصد کے لیے اپنے شعبے کو بھی ترک کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ترک میڈیا ٹیم پہلی بار پاکستان آئی تھی، جب یہ ٹیم اپنا پروگرام کر چکی تو انہیں ہم چند صحافی دوستوں نے کھانے پر مدعو کیا۔
ہمارے ترک دوستوں کی تشویش بے جا نہیں تھی۔ باشعور قومیں ہنرمند و باصلاحیت نوجوانوں کے ملک چھوڑنے کے عمل کو برین ڈرین کہتی ہیں۔ اگر کہیں یہ عمل شروع ہو جائے تو اس کا ادراک ان کے معاشرے میں کہرام برپا کردیتا ہے، اربابِ اختیار سر جوڑ لیتے ہیں، ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرتا ہے، ان نوجوانوں کو ملک چھوڑ کر جانے سے روکنے کے لیے ہرسطح اور ہر حد تک جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد ہجرت کر جائیں گے، ملک چھوڑ کر دیارِ غیر جا بسیں گے تو پھر ملک بگاڑ کا باعث بننے والے ہجوم کے رحم و کرم پر ہو گا۔
ترک ٹیم کے اراکین کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس اس لیے بھی تھا کہ وہ نہ صرف طویل آمرانہ دور دیکھ چکے تھے بلکہ اس طویل اور کٹھن دور میں برین ڈرین جیسے مسئلے سے بھی نمٹ چکے تھے۔ پھر جب ترکی میں دور بدلا تو سب سے پہلے نوجوانوں کے لیے ملک کے اندر ہی مواقع پیدا کیے گئے۔ باصلاحیت نوجوانوں کو آگے لانے اور حکومتی امور میں شامل کرنے کے راستے بنائے گئے۔ اس کی مثال ترکی کے وزیر خزانہ بیرات البیراک بھی ہیں۔ ان کی کمپنی نے‘ 26 سال کی عمر میں جب انہوں نے ترک فوج کو ڈرون بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی اور حکومت نے پیشکش مسترد کردی تھی‘ اس نوجوان کو مایوس نہیں ہونے دیا اور ملکی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس نوجوان کی کمپنی نے 2016ء میں ترکی کو دنیا کے ان ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا جو انتہائی بلندی پر پرواز کرنے والے ڈرون بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر انہی ڈرونز کی بنیاد پر شام میں جاری جنگ کے دوران روس کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہونا پڑا، لیبیا میں ترکی مخالف قوتوں کو شکست ہوئی اور اب آذربائیجان میں آرمینیا کی افواج ترک ڈرونز سے خوف زدہ نظر آتی ہیں۔ ترکی کو ڈرون ٹیکنالوجی دینے والا یہ نوجوان اب ترکی کا وزیر خزانہ اور ترک صدر رجب طیب اردوان کا داماد ہے۔ زندہ قومیں اپنے باصلاحیت نوجوانوں کو کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دیتیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ترک میڈیا ٹیم نے پاکستان آکر کوئی ایسی چیز نوٹ کی جو ہمارے اربابِ اختیار نہیں سمجھ پا رہے۔ ہمارے محکموں کے پاس موجود اعداد و شمار چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ ملک کے بہترین دماغ ملک چھوڑتے چلے جا رہے ہیں مگر سرکاری سطح پر جمود طاری ہے۔ ایسی صورتِ حال اگر کسی دوسرے ملک میں ہوتی تو حکمرانوں کی دوڑیں لگی ہوئی ہوتیں، مگر یہاں عالم یہ ہے کہ وزرا کی فوج ظفر موج‘ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر اپوزیشن کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیانات دے کر وزیراعظم کے سامنے نمبر بڑھانے میں مصروف نظر آتی ہے۔ جب ووٹ کی ضرورت تھی تو نوجوانوں سے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ آج وعدہ وفا کرنے کا وقت آیا ہے تو صورتِ حال یہ ہے کہ نوکریاں تو خیر کیا دینا تھیں‘ تقریباً 20 لاکھ برسر روزگار افراد بے روزگار ہو چکے ہیں‘ جس کے بعد ملک میں نوکریوں کی تلاش میں گھومنے والے نوجوانوں کی کل تعداد تقریباً 66 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح ملک میں معیشت کی ابتر صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے 8 لاکھ سے زائد نوجوان ملک کو خیرباد کہہ گئے ہیں۔ ہجرت کر جانے والوں میں ساڑھے ساٹھ ہزار کے قریب ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر ہنرمند افراد شامل تھے جو اب اپنی صلاحیتیں مختلف ممالک کے لیے وقف کر چکے ہیں۔
ملک سے ہجرت کا یہ رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جن 132 نوجوانوں کو سکالرشپس پر مختلف ممالک میں پڑھنے کے لیے بھیجا تھا‘ ان میں سے صرف 50 نے وطن واپس آنا مناسب سمجھا، 82 نوجوانوں نے تو واپس آنا بھی گوارا نہ کیا۔ کوئی یہ سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ اربوں روپے خرچ کرکے باصلاحیت و ہنرمند افراد کس لیے تیار کیے جاتے ہیں‘ اس لیے کہ وہ اپنی صلاحیتیں دوسری قوموں کی ترقی کیلئے استعمال کریں؟ افسوس تو یہ ہے کہ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنا جن کی ذمہ داری ہے‘ وہ اسمبلی میں بڑے فخر سے اس برین ڈرین کو اپنے کریڈٹ میں شامل کرتے ہوئے اس پر داد لینے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''موجودہ حکومت نے نوجوانوں کے لیے بیرونِ ملک نوکریاں پیدا کی ہیں‘‘۔ دنیا میں شاید ہم واحد قوم ہیں جو ملک سے باصلاحیت افراد کے انخلا کو بھی اپنا کارنامہ بتاتے ہیں۔
اس برین ڈرین کو روکنے کے لئے فی الحال تو کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی، کوئی مستند فورم ایسا نظر نہیں آتا جو ایسے نوجوانوں اور اربابِ اختیار کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہو، نوجوانوں کے مسائل سنے، انہیں سمجھے اور حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ حکمران ایسے کسی فورم کی تشکیل میں سنجیدہ نظر بھی نہیں آتے۔ ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد بہترین اذہان کی ہجرت روکنے کے لئے بھی ٹائیگر فورس کی خدمات حاصل کر لی جائیں اور انہیں ایئر پورٹس پر تعینات کر دیا جائے۔ آخر کو حکومت کو ہر مسئلے کا حل ٹائیگر فورس میں ہی نظر آتا ہے۔ 
برین ڈرین کینسر کی طرح کسی بھی ملک کی ترقی نگل کر اسے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس وقت فوری طور پر نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جانے کی ضرورت ہے۔ انہیں انگیج کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر حکومت نے نوجوانوں اور ان کو درپیش مسائل سے لاپروائی برتنے کا عمل یونہی جاری رکھا تو دیگر شعبوں کی طرح مستقبل میں ہر ادارے کے لیے باصلاحیت و باشعور افراد بھی مہنگے داموں درآمد کرنا پڑیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں