"FBC" (space) message & send to 7575

اجتماعی خود کشی

''اللہ کے عذاب کی مختلف شکلیں ہیں، خدارا! اس سے پناہ مانگیں اور جتنی احتیاط کر سکتے ہیں‘ کریں۔ مجھے اپنی دعائوں میں خصوصی طور پر یاد رکھیں‘‘۔ یہ الفاظ ایک بہن کے ہیں جو سوشل میڈیا پر مذہبی تبلیغ کے حوالے سے خاصی سرگرم تھیں۔ آیات و احادیث مبارکہ پر مبنی ان کی پوسٹیں اکثر نظر سے گزرتی رہتی تھیں۔ اکثر اوقات وہ مختلف شہروں کی خوبصورتی، ان شہروں کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ کھانوں کی مختلف ڈشز تیار کرنے اور سماجی مسائل کے حوالے سے لکھتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ایک بڑی تعداد ان کی باقاعدہ قاری بن گئی تھی۔ 2 نومبر کو ان دردناک الفاظ پر مشتمل ان کا دو سطری پیغام نظر سے گزرا تو مجھ سمیت ان کے قارئین کی بڑی تعداد نے ان کے اس پیغام کے جواب میں صحت یابی کی دعائیں شروع کر دیں۔ اس کے بعد کئی دن گزر گئے‘ ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر کوئی سٹیٹس شیئر نہیں کیا گیا۔ پھر کچھ دن بعد سوشل میڈیا سے ہی اطلاع ملی کہ وہ کورونا سے شدید متاثر ہوئی تھیں اور اب وینٹی لیٹر پر چلی گئی ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور ان کے قارئین کی جانب سے مسلسل دعائوں کی اپیل کی جا رہی ہے۔
اسی طرح کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک قریبی دوست‘ جو اس وائرس کے باعث وینٹی لیٹر پر جانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے زندگی کی جانب پلٹ آئے ہیں‘ اور برملا یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں دوسری زندگی دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی مہلک وبا سے اللہ رب العزت دشمن کو بھی محفوظ رکھے۔ یہ اس قدر دردناک اور تکلیف دہ بیماری ہے کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ آج بھی جب میں اپنی اُس کیفیت کا سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کورونا سے متاثرہ مریضوں کے ایسے ہزاروں واقعات دیکھنے، سننے، پڑھنے اور جاننے کو مل رہے ہیں کہ انسان کانپ کر رہ جاتا ہے۔ جن ممالک میں اس وبا نے تباہی پھیلائی ہے‘ وہاں تو مرنے والوں کو اپنے پیاروں کے ہاتھوں تدفین بھی نصیب نہیں ہوئی۔
اب اس وبا کی دوسری لہر نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ماہرین بتا رہے ہیں‘ چیخ رہے ہیں‘ متنبہ کر رہے ہیں کہ کورونا کی دوسری لہر پہلی سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ ہر ملک اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے متحرک نظر آتا ہے، اقدامات کئے جا رہے ہیں، لوگوں کو سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ اس وبا کے دوران انہیں کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف دہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یورپی ممالک نے احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں تو ایسے ممالک‘ جہاں معیشت کا انحصار سیاحت پر ہے‘ نے تمام سیاحتی مقامات بند کر دیے ہیں، ہوٹل، ریسٹورنٹس، پارکس اور ایسے مقامات‘ جہاں عوام کا رش ہو سکتا ہے‘ وہاں نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اپنے عوام کو بچانے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک دوبارہ لاک ڈائون کی طرف جا چکے ہیں۔ غرض ہر سو احتیاط‘ احتیاط اور بس احتیاط کا شور ہے۔
دنیا میں مختلف ممالک کے حکمران کیا کر رہے ہیں اور ہمارے سیاستدان کس جانب جا رہے ہیں؟ یقینی طور پر پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کے نام پر جاری ''کورونا پھیلائو مہم‘‘ کو دنیا حیرت سے دیکھتے ہوئے ہمارے اجتماعی شعور پر ماتم کر رہی ہو گی۔ ہمارے رہنما دنیا کے وہ منفرد رہنما ہوں گے جو اپنے عوام کو ہاتھ سے پکڑ کر اس وبا کا شکار بنا رہے ہوں گے۔ اس میں حکومت و اپوزیشن دونوں ہی شامل ہیں‘ ایسے حالات میں جب دنیا بھر میں لوگوں کو بنا ضرورت گھر سے نکلنے سے منع کیا جا رہا ہے‘ حکمران و اپوزیشن‘ دونوں عوام کو جلسے‘ جلوسوں اور تقاریب میں بلاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا جب کورونا کی دوسری لہر سے نبرد آزما ہے‘ ہمارے حکومتی و اپوزیشن رہنمائوں نے گلگت بلتستان میں عوامی جلسے کیے اور پھر فخر سے جلسے بڑے ہونے کے دعوے کرتے نظر آئے۔ پھر پی ڈی ایم کھلے میدانوں میں عوامی جلسے کرتی رہی تو حکومت سے برداشت نہ ہوا اور اس نے کبھی ٹائیگر فورس کے نام پر چار دیواری میں مجمع لگایا تو کبھی بزنس فورمز کے نام پر پنڈال سجایا۔ یہی رہنما ایک دن کورونا سے ہونے والی اموات پر افسوس کرتے نظر آتے ہیں تو اگلے ہی روز کسی جلسے میں یا کسی آڈیٹوریم میں منعقدہ پروگرام میں عوام کے جم غفیر کے سامنے اپنے جوشِ خطابت کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اعلان ہوتا ہے کہ ہمارے فلاں‘ فلاں اور فلاں رہنما کورونا رپورٹس مثبت آنے کے بعد قرنطینہ میں چلے گئے ہیں، اس لیے وہ جلسے میں شرکت نہیں کر سکیں گے‘ ان کے لیے دعائوں کی درخواست ہے۔ ایسے موقع پر سمجھ نہیں آتی کہ بندہ دعا کرے بھی تو کیا کرے۔ کورونا کا شکار ہو جانے والوں کی صحت یابی کی دعا یا ایسے ''رہنمائوں‘‘ کے لیے عقل و شعور کی دعا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ اپوزیشن کسی بھی قیمت پر فروری سے قبل حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے، اگر سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تو اپوزیشن کو کھیل اپنے ہاتھ سے نکلتا نظر آ ئے گا۔ اس لیے بے شک ہزاروں افراد کی زندگی دائو پر لگ جائے‘ اپوزیشن نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ جلسے جلوسوں سے پریشر بڑھا کر حکومت کو رخصت کرنا ہے۔ یہ صرف اپوزیشن کا ہی معاملہ نہیں ہے‘ حکومت بھی عوامی جانوں سے کھیلنے کے اس مشن میں اپوزیشن کے ساتھ برابر کی شریک ہے۔ اب یہ صورتحال ہے کہ حکومتی اراکین کورونا سے بچائو کا درس دینے کے لیے بھی چار پانچ سو افراد کا مجمع ضرور جمع کرتے ہیں۔ رہے عوام تو انہیں مہنگائی کے شکنجے میں ایسا جکڑا گیا ہے کہ سوائے پیٹ کی آگ بجھانے کے‘ انہیں کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں ہے، کورونا کیا ہے اور کتنی یہ تباہی پھیلا سکتا ہے، ان کی بلا جانے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب کورونا کی وبا پاکستان پر حملہ آور ہوئی اور ابتدائی طور پر چند کیسز سامنے آئے تو خوف کا یہ عالم تھا کہ ہر دوسرے گھر کی چھت سے اس وبا سے چھٹکارے کے لیے اذان دی جا رہی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ پہلی لہر دنیا بھر میں اپنی تباہی پھیلا کر رخصت ہو چکی اور دوسری حملہ آور ہے۔ اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلے حملے سے زیادہ مہلک ہے۔ اس لہر سے اب تک پاکستان میں 3لاکھ 82ہزار سے زائد مصدقہ کیسز ہیں جبکہ 78سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں مگر ہم ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ وائرس واقعی ایک حقیقت ہے یا محض 'عالمی سازش‘ ہے۔ دنیا بھر میں اس کے حوالے سے اس قدر فکرمندی پائی جاتی ہے کہ مختلف ادارے اس وبا کی ویکسین تیار کرنے میں مصروف ہیں اور دنیا بھرکی نظریں ان کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے آکسفورڈ یونیورسٹی نے کورونا ویکسین تیار کرکے اس کا برطانیہ اور برازیل کے 20 ہزار افراد پر تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ امریکی اور جرمن کمپنیوں نے ویکسین تیار کرنے اور اس کے 90 فیصد موثر ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور دسمبر کے وسط تک اس کی 64 لاکھ ڈوززعالمی مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی، تقریباً 3000روپے میں اس کی ایک ڈوز مل سکے گی۔ امریکی کمپنی مڈرنا نے بھی 94 فیصد موثر ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے مگر ابتدائی طور پر اس کی فراہمی صرف امریکا میں ممکن ہو گی۔ روسی کمپنی سپوٹنک بھی سستی اور مؤثر ترین ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے جس کی ایک ڈوز تین ہزار پاکستانی روپے میں دستیاب ہو گی۔ پاکستان اور چین کی بھی ویکسین تیاری کی مشترکہ کاوش جاری ہے جو تیسرے آزمائشی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ ان خبروں سے اطمینان ہوتا ہے کہ کورونا کے خلاف بین الاقوامی سطح پر لڑائی جاری ہے؛ تاہم پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ میں کورونا ویکسین کی دستیابی تقریباً 8 ماہ بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔
اس لیے یہ 8 ماہ بہت اہم ہیں۔ اس عرصے کے دوران اگر ہمارے ملکی ''رہنمائوں‘‘ نے اپنی مفاداتی سیاست ختم کرکے عوام کی جانیں بچانے کی کوشش نہ کی تو اللہ نہ کرے‘ جب ویکسین مارکیٹ میں آئے گی‘ تب تک ہم بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہوں۔ مالی نقصان کا ازالہ تو ممکن ہے مگر جانی نقصان کا مداوا کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ یقینی طور پر یہ اجتماعی خود کشی ہوگی جس کے ذمہ دار اربابِ اختیار ہی ہوں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں