میں نے کوئی پانچ سال پہلے جو واقعہ تحریر کیا تھا، اتنی دیر خاموش رہنے کے بعد مُحبی مستنصر حسین تارڑ نے اسے دروغ گوئی سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے یاد آیا کہ ایک شخص کسی کے گھر کے باہر کھڑا اُسے گندی گندی گالیاں بک رہا تھا کہ ایک راہگیر نے شخص مذکور سے گالیاں دینے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا کہ اِس نے پچھلے سال مجھے گینڈا کہا تھا۔ راہگیر نے کہا کہ گینڈا تو اس نے تمہیں پچھلے سال کہا تھا اور گالیاں تم اسے اب دے رہے ہو تو وہ بولا، گینڈا میں نے دیکھا ہی آج ہے! چلیے! یہ بھی اچھا ہوا کہ پانچ سات سال بعد ہی سہی، میرے دوست نے گینڈا دیکھ تو لیا، حالانکہ وہ اس کا فوری نوٹس بھی لے سکتے تھے۔ کوئی نہ کوئی اخبار ہمیشہ ان کی دست برد میں رہتا ہے، اس میں لکھ کر اس کی تردید کر سکتے تھے یا فون پر مجھ سے وضاحت طلب کر سکتے یا برا بھلا بھی کہہ سکتے تھے، لیکن موصوف نے ایسا کچھ نہ کیا اور صرف مُنہ پُھلا کر بیٹھ گئے۔ جہاں آپس میں محبت اور باہمی اعتراف کا رشتہ قائم ہو وہاں ایسا نہیں ہوتا اور اگر وہ پوچھ لیتے تو میں بتا سکتا تھا کہ میری اس تحریر میں دروغ گوئی اگر تھی تو کس حد تک تھی اور کیوں تھی، یعنی ع آپ نے پوچھا تو ہوتا، بتلا سکتا تھا میں یعنی کوتاہی اگر ہوئی تو دونوں طرف سے ہوئی۔ اس میں میرا حصّہ غالباً زیادہ ہے کیونکہ میں اپنے طور پر بھی اس کی وضاحت کر سکتا تھا اور اگر ضروری ہوتا تو اظہار ندامت بھی اور اپنے دوست سے معافی کا طلبگار بھی ہو سکتا تھا اور یہ بھی کہ اس میں میرا قصور اتنا نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہے تھے۔ بہرحال، اس میں میری کوتاہی لازمی طور پر اتنی تو ہے ہی کہ ؎ خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو تاہم، اگر تارڑ کو ضرورت ہوئی تو وہ اصل کہانی مجھ سے خود پوچھ لیں گے ، یار زندہ، صحبت باقی اور یہ تو طے ہے کہ اس تحریر سے موصوف کی دلآزاری ہوئی، جس کا مجھے افسوس بھی ہے اور شرمساری بھی۔ اب آتے ہیں جلیلؔ مانک پوری کی طرف، جس کا حوالہ انہوں نے اپنے کالم میں جمیل یوسف کے ایک مضمون کی بناء پر دیا ہے (’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ مطبوعہ روزنامہ ’’نئی بات‘‘ 27؍فروری 2013ء) آپ نے شاعر کے جو اشعار درج کیے ہیں، ان میں وزن کی غلطیاں کچھ اشعار میں رہ گئی ہیں، نقل کرتے وقت جن کا انہیں خیال نہیں رہا۔ عبداللہ حسین اور انتظار حسین کے بعد ہمارے مقبول ترین اور سب سے بڑے فکشن رائٹر ہونے کے باوجود، چونکہ وہ شاعر نہیں ہیں، اس لیے ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ شعر میں وزن کے رموز سے بھی لازمی طور پر واقف ہوں۔ وہ اشعار یہ ہیں ؎ آپ پہلو میں بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں دلِ بے تاب کو عادت ہے مچل جانے کی اس شعر کا پہلا مصرع بے وزن رہ گیا جو اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں دوسرا شعر یہ ہے ؎ میں کس سرزمیں کا قصد کروں آسماں ساتھ ساتھ چلتا ہے اس کے پہلے مصرع میں لفظ ’’کس‘‘ کی بجائے ’’کسی‘‘ ہوگا جس سے وزن کا یہ سُقم دور ہو جاتا ہے۔ تیسرا شعر یوں نقل کیا گیا ہے ؎ جب میں چلوں تو سایہ بھی اپنا ساتھ نہ دے جب تم چلو زمیں چلے آسماں چلے پہلا مصرع اگر یوں ہو تو اس کا وزن درست ہو جاتا ہے: جب میں چلوں تو سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے جبکہ دوسرے مصرع میں ’’زمیں‘‘ کو ’’زمین‘‘ پڑھنا ہوگا: چوتھا شعر جو آخر میں درج کیا گیا ہے، یُوں ہے ؎ آج ہی آ جو تجھے آنا ہے کل خدا جانے میں ہُوا نہ ہُوا اس کا پہلا مصرع یوں ہے: آج ہی آ جو تجھ کو آنا ہے اور اوپر مستنصر نے جسے صحیح طور پر درج کیا ہے۔ مستنصر اپنے کالم میں مزید لکھتے ہیں کہ میں اپنے ہم عصر نامور شعراء کی خدمت میں گزارش کروں گا کہ وہ بھی اُردو کے اس نسبتاً گم نام شاعر کا کلام پڑھیں اور پھر اور کچھ نہ کریں، قدرے شرمندہ ہو جائیں کہ اگر شاعری یہ ہوتی ہے تو ہم زندگی بھر کیا کرتے رہے ہیں۔ جلیلؔ مانک پوری دبستانِ لکھنؤ سے وابستہ… امیرؔ مینائی کے شاگرد… نیاز فتح پوری نے کہا تھا کہ اگر امیرؔ مینائی ان کے عہد میں زندہ ہوتے تو وہ خود ان کے حق میں غزل گوئی سے دست بردار ہو جاتے۔ جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے، میرؔ، غالبؔ اور ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب کی شاعری اسی طرزِ احساس کی نمائندہ ہے جس میں وہ رہ رہے تھے اور زیادہ تر ایک دوسرے کی جُگالی ہی کر رہے تھے۔ بالعموم یہ حضرات اپنے کلام میں مناسبات لفظی کو بروئے کار لاکر ہی خوش ہو جاتے تھے کہ انہوں نے شاعری کا حق ادا کر دیا ہے جبکہ ہمارے لیے وہ شاعری کسی طرح سے بھی ریلیونٹ نہیں ہے اور نہ ہی وہ آج کی شاعری لگتی ہے۔ پھر، ان کے ہاں بھرتی کے اشعار کی بھرمار دیکھنے کو ملتی ہے، حتیٰ کہ میرؔ اور مصحفیؔ جیسے شعرا کے ہاں عمدہ شعر کئی کئی صفحات کھنگالنے کے بعد دستیاب ہوتا ہے اور جو زیادہ تر محققین کے استفادہ کے لیے ہی رہ گئی ہے۔ بیشک جس بنیاد پر ہم موجودہ دور کے شعراء کھڑے ہیں، وہ زمین اور روایت انہی کی عطا کردہ ہے اور اپنے عہد میں وہ شاعری ریلیونٹ بھی تھی لیکن اب جبکہ جدید اردو غزل تمام کا تمام اپنا پیرہن ہی تبدیل کر چکی ہے تو ایسے ماحول میں ہم عصر شعراء سے جلیلؔ مانک پوری جیسے شعراء کے مطالعہ کی تلقین کرنا ان کے لیے ہرگز سودمند نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے کہ وہ مستقبل کی نہیں، بلکہ حال کی بھی نہیں، ماضی کی شاعری ہے جبکہ جلیلؔ مانک پوری کے جو اشعار مستنصر نے جمیل یوسف کے مضمون سے نقل اور انتخاب کرکے درج کیے ہیں، ان کے اپنے زمانے میں ان پر واہ واہ ضرور ہوتی ہوگی، جدید طرزِ احساس کے حامل شعراء کے لیے وہ کسی طرح سے بھی فائدہ مند نہیں ہو سکتے۔ اس لیے بھی کہ اساتذہ کے زمانے میں جس طرح شعر کہا جاتا تھا اور جس طرح اس کی تحسین کی جاتی تھی، آج نہ تو شعر اس طرح کہا جاتا ہے اور نہ ہی اس طرح اس کی تحسین کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں آج کا شاعر جانتا ہے کہ اسے کس کو پڑھنا ہے کس کو نہیں۔ سو، اساتذہ میں سے اکثر کو احترام سے تو ضرور پڑھا جا سکتا ہے، کسی انسپائریشن کے لیے نہیں اور نہ ہی اب اس بات کی گنجائش رہ گئی ہے کہ ع دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو آج کا مقطع دوستی ایک مکاں کی طرح ہوتی ہے سچ پوچھو تو ظفرؔ گاہے بگاہے جس کی مرمّت ہوتی رہنی چاہیے